ایڈیٹر کے قلم سے
کہتے ہیں کسی چیز کے معرض وجود میں آنے کے لیے کسی حادثے کا درپیش ہونا ضروری ہوتا ہے۔ جب تک انسان کو ٹھیس نہیں لگتی ہے تب تک اس کے دماغ کی بتی نہیں جلتی ہے۔ کچھ ایسا ہی ایک بار میرے ساتھ بھی ہوا، جس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک دن بستر پہ لیٹے لیٹے وہاٹس ایپ لوگوں کے پوسٹ دیکھ رہا تھا کہ اچانک ایک ایسی تحریر پہ نظر پڑی جس کی سرخی کچھ جانی پہچانی سی تھی، پوری تحریر پڑھی تو پتہ چلا کہ کسی ایسے شخص کی تحریر ہے جس نے کسی دوسرے (ناچیز) کے مضمون میں ایک دو لفظوں کا حذف واضافہ کرکے اپنانام دے دیا ہے۔ پھر سوچا کہ ممکن ہے کہ موصوف کے خیالات میرے خیالوں سے ملتے ہوں، مگر الفاظ اور انداز تحریر بھی؟؟؟ پھر بھی حسن ظن پر محمول کرتے ہوئے یہ سوچ کر نظر انداز کردیا کہ چلو کسی کا ایسے ہی بھلا ہورہاہے تو کیا حرج؟ مگر پانی اس دن سر سے اوپر چڑھ گیا جب ایک دن اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر پوسٹ کئے گئے اسی تحریر پر ایک تبصرہ ملا، تبصرہ کس کا تھا؟۔۔۔ انھیں موصوف کا تھا جس میں انھوں نے مجھی پر سرقہ بازی کا الزام لگاتے ہوئے نازیبا کلمات سے نوازا تھا، چوں کہ مجھے اس وقت ان سب سے کیسے نپٹا جائے معلوم نہ تھا اس لیے اپنے پوسٹ کو فیس بک سے ڈیلیٹ کردیا۔مگر اس دن ایک سبق مل گیا کہ ایسے لوگوں سے بچ کررہنا ہوگا۔اور جلد ہی کوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں ملا جس سے کہ تحریریں محفوظ ہوں تو دنیا کی اس برق رفتاری کہیں یا گہما گہمی میں اپنی آواز کہیں گم ہوجائے گی۔ اس وقت چوں کہ نوآموز تھا اس لیے چند میگزینوں اور اخباروں میں مضامین بھیجے تو شائع نہیں ہوئے۔
انھیں سارے معاملات کو لے کر پیچ وخم کھا رہا تھا کہ اچانک ذہن میں ایک خیال پیدا ہوا کہ کیوں نا خود ہی ایک پورٹل بناؤں جس پر اپنے بھی مضامین شائع کروں اور اپنے جیسے ان بہت سے لوگوں کے جو ایسے پلیٹ فارم کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔
اسی کے پیش نظر پورٹل بنانے کی قوائد میں جٹ گیا، چوں کی اس کی کوئی تعلیم تو حاصل نہیں کی تھی، اس لیے دشواری بہت ہوئی مگر خدا کا شکر! کہ گوگل پر دستیاب انگریزی آرٹیکلز اور ھدایات سے ”ہماری آواز“ نامی ایک پورٹل کوبنانے میں کامیاب ہوگیا۔ خوشی کی انتہا نہ رہی، گویا خیالوں کو پر لگ گئے ہوں، یکے بعد دیگرے اپنے کئی ایک مضامین کو پوسٹ کرڈالا۔ مگر اب بھی مقصد پورا نہیں ہوا تھا کیوں کہ پورٹل بناتے وقت ہی اس بات کا عزم کرلیا تھا کہ اس پر اپنے ساتھ، ساتھ دیگر قلم کاروں کے مضامین شائع کروں گا، مگر اپنا حلقہ کوئی بہت بڑا نہیں تھا کہ دوسرے قلم کار حضرات سے رابطہ ہو، اور جن سے رابطہ بھی ہوتا تو۔۔۔۔ سمجھ کر توجہ نہیں دیتے۔اسی طرح تقریبا دو سال کا عرصہ گزر گیا پورٹل کومعرض وجود میں آئے مگر اس پربس گنتی کے چند مضامین تھے وہ بھی اپنے۔ ایک وقت پہ ایسا لگنے لگا کہ کہیں میرے خیالات و مقاصد ادھورے نہ رہ جائے۔ مگر ”اے رضا ہر کام کا اک وقت ہے“ پر اسے محمول کردیتا۔
ان خیالوں کو صحیح معنوں میں پروان چڑھانے کا وقت تب آیا جب سوشل میڈیا پر ناچیز کا قسط وارانہ ”درس حدیث“ کا پوسٹ بحمداللہ کافی مقبول ہوا، بہت سارے علماے کرام اور قلم کار حضرات نے نہ صرف حوصلہ افزائی فرمائی بلکہ اپنے اپنے وہاٹس ایپ گروپ میں صرف یہ کہہ کر ایڈ کردیا کہ آپ قسط وار ”درس حدیث“ پوسٹ کرتے رہیں۔(آج بھی ان حضرات کا مشکور ہوں) حتی کہ ایک وقت ایسا آیا جب مجھے ایک سو چالیس سے زائد گروپ میں ایڈ کردیا گیا۔ اب مجھے اپنے خیالوں کو پروان چڑھانے کا بہترین موقع مل چکا تھا، میں نے ایک دن ایک پوسٹ کیا اور قلم کار حضرات سے ”ہماری آواز“ پورٹل پر مضامین شائع کرانے کے لیے مضامین ارسال کرنے کی اپیل کی۔ یہ طریقہ کارگر رہا اور مضامین موصول ہونے شروع ہوگئے، ان مضامین کی اشاعت ہونے لگی تو کئی بلند پایہ اہل قلم کے مضامین بھی موصول ہونے لگے، اور دیکھتے ہی دیکھتے مہینے بھر کے اندر تقریبا دو سو مضامین کی اشاعت ہوگئی۔
کہاجاتا ہے کہ منزل کی تلاش میں تنہا ہی نکلنا ہوتا ہے اور جب قدم منزل کی طرف بڑھ جاتے ہیں تو لوگ آتے جاتے ہیں اور کارواں بن جاتا ہے، تھوڑی بہت کامیابی ملنے کے بعد اپنے چند ہم مزاج ساتھیوں کو اس کی طرف متوجہ کیا تو وہ حضرات بھی بخوشی جڑ گئے اور ایک مکمل ٹیم بن گئی۔ ایک دن خیال آیا کہ کیوں نا پورٹل پر شائع ہونے والے جملہ مضامین میں سے ان مضامین کو یکجا کیا جائے جنھیں قارئین نے زیادہ پسند کیا ہو اور پڑھا ہو پھر انھیں ترتیب دے کر ہر دو ماہ پر ایک ای میگزین کی شکل دے دی جائے، اس خیال کا اظہار ہماری آواز ٹیم سے کیا تو سبھی حضرات نے لبیک کہا، بلکہ کئی حضرات نے اسے دو ماہ کے بجاے ہر ماہ نکالنے کی پیش کش کی مگر بعد مشورہ طے ہوا کہ دو ماہی میگزین نکالنا ہی صحیح رہے گا تاکہ ایسا نہ ہو آج وقت کی فراہمی ہے تو کام ہوجائے اور کل وقت کی قلت دامن گیر ہوتو میگزین کھٹائی میں پڑ جائے۔ بہر حال قارئین وقلم کاران حضرات سے راے عامہ بھی
لی گئی توسب نے مثبت راے سے نوازا جس کے بعد کام شروع ہوا اور نتیجہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ آج بھی میں خیالات بنتا رہتا ہوں اور انھیں پروان چڑھانے کی کوشش کرتا ہوں، لیکن اب یہ خیالات صرف میرے نہ رہیں۔۔۔۔۔
محمد شعیب رضانظامی فیضی