شعر و شاعری

غزل: رنج و غم کا سال 2020

نتیجۂ فکر: سلمان رضا فریدی مصباحی، مسقط عمان

رنج و اَلم کا سال رہا دو ہزار بیس
صَدموں کا اک نشان بنا دو ہزار بیس

اَفسُردہ آسمان ، سِسَکتی ہوئ زمین
اک آتشِ وبا و بَلا ، دو ہزار بیس

یادوں کا درد اوڑھ کے بیٹھے ہوئے ہیں ہم
کتنے عزیز لے کے گیا دو ہزار بیس

علمی فلک کے سیکڑوں خورشید چُھپ گیے
دے کر گیا ہے آہ و بُکا دو ہزار بیس

ساتھی کئ بچھڑ گیے راہِ حیات میں
پہنا گیا حجابِ قضا دوہزار بیس

باطل نے اہل حق پہ بڑھائے ستم کے وار
سازش کا ایک جال رہا دو ہزار بیس

جن پر ہمیشہ روئے گی باغِ جہاں کی آنکھ
ایسے گلوں کو لیکے اٹھا دوہزار بیس

بیچین و مضطرب ہے گلستانِ زندگی
کر کے چلا ہے حشر بپا دوہزار بیس

موضوعِ گفتگو رہے اموات و حادثات
جیسے ہو اک دیارِ عَزا دوہزار بیس

اُن سارے حق پرستوں پہ فضل خدا رہے
جن کو بھی ساتھ لے کے گیا دو ہزار بیس

یارب سبھی کے نور کا نعمُ البَدَل ملے
جتنے دییے بجھا کے چلا دوہزار بیس

دیتے ہیں یہ حوادث و آفات بھی سبق
ہے اک نقیب صبر و رضا دو ہزار بیس

اللہ پر یقین ، سبھی مشکلوں کا حل
ہم کو یہ درس دے کے گیا دوہزار بیس

چشمِ جہاں سے پوچھا کہ ہے غم کا سال کون
گر کر یہ آنسوؤں نے کہا ، دوہزار بیس

جب جب چلے گی زندگئِ سوختہ کی بات
یاد آئے گا فریدی سدا دوہزار بیس

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے