مذہبی مضامین

علماے اہل سنت افواہوں کی بنیاد پر فتویٰ دینے سے گریز کریں!

تحریر: محمد علاؤالدین قادری رضوی
صدرافتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء، میراروڈ ممبئ


اسلام میں فتویٰ نویسی کے کچھ اصول ہیں چونکہ فتویٰ نویسی یا فتویٰ صادر کرنا یہ خالص دین و سنت سے متعلق ہےاور مفتی اللہ تبارک و تعالیٰ اور بندوں کے درمیان حق و صداقت پر مبنی پیغامات پہنچانے کا داعی ہے۔ اسی سبب مفتیان کرام و علمائے ملت اسلامیہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے نائب ہیں جو احکام شرعیہ میں لوگوں کی صحیح رہنمائی کا حق ادا کرتے ہیں ۔
علامہ شاطبی اپنی کتاب ــ’’ الموافقات‘‘ جلد چار صفحہ ۲۴۴ ؍ میں بڑی تفصیل کے ساتھ لکھتے ہیں کہ ’’ اگر مفتی درست مسئلہ بتائے گا تو اپنے ذمہ سے عہدہ برآ ہو کر اجر و ثواب کا مستحق ہوگاورنہ غلط مسئلہ بتانے کی صورت میں پوچھنے والے کی عمل کا وبال بھی اسی کے سر ہوگا۔،،
اس اقتباس سے یہ معلوم ہوا کہ فتویٰ اسی وقت دیا جانا چاہئے جب سائل کسی ضروری و دینی امر میں مفتی سے رجوع ہوں۔ بے وجہ یا محض افواہوں کی بنیاد پر فتویٰ دینا یہ از خود اصول فتویٰ سے نا واقفیت کی دلیل ہے۔ اس سلسلے میں سلف صالحین کے اقوال اور فتاویٰ جات کی طرف رجوع از حد ضروری ہے تاکہ ایک مفتی کو اپنے منصب کی نزاکت و حساسیت کا اندازہ ہو۔ حالیہ دنوں ممبئ کے چند علمائے اہل سنت نےکورونا ویکسین کے استعمال یا عدم استعمال کے حوالے سے جو فتویٰ صادر کیا وہ یقیناً مسلم قیادت کا کھلا مذاق تھا ساتھ ہی فتویٰ جاری کرنے کے جو اصول و ضوابط ہوتے ہیں اسے قصداً یا پھر سہوانظر انداز کیا گیا۔ یہ مسئلہ واضح ہے اور متفق علیہ ہے کہ خنزیر کا گوشت ، چربی، ہڈی ، کھال اس کے بال ہی کیوں نہ ہوں اس کا استعمال حرام اشد حرام ہے۔ اور جب یہ بات متحقق ہی نہیں کہ وہ ویکسین جس کا استعمال ملک عزیز بھارت میں کیا جانا ہے اس میں خنزیر کی چربی کا استعمال کیا بھی گیا ہے یا نہیں۔ تو پھر وقت سے پہلے چند علمائے اہل سنت ممبئ کو اس طرح غیر ذمہ دارانہ بیان میڈیا میں دینے یا چھاپنے کی ضرورت ہی کیوں آن پڑی ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
یہ امر واضح ہے کہ قرآن و حدیث کے احکام میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی،وہ احکام ہمیشہ اپنی اصل پر باقی رہیں گے۔ لیکن اجتہادی احکام کی بنیادبعض اوقات ، حالات ، رواجات اور موجودہ آلات و وسائل پر موقوف ہوتی ہے۔ اور مفتیان اسلام سائل کے پیچیدہ مسائل کا بدلتے ہوئے حالات کے موافق شرعی حدود و قیود میں جوابات قلمبند کرتے آئے ہیں۔ اسلامی قانون میں بعض احکامات ایسے ہیں جو ہمیشہ اپنی حالت پر قائم رہتے ہیں تو دوسری طرف بعض حصوں میں مفتیان کرام اپنے عہد کی تبدیلیوں کے موافق فتویٰ صادر فرمایا کرتے ہیں۔ مرکز اہل سنت بریلی شریف اور جامعہ اشرفیہ کی فقہی سیمیناروں میں ان گنت جدید مسائل پر مفتیان کرام نے اپنے آرا پیش کیا ، بعد ہٗ صدر مفتی نے ان اختلافی مسائل میں اپنی تحقیق پیش کرتے ہوئے جو موقف اختیار کر لیا اور دیگر علماء نے دستخط ثبت کرکے تصدیق فرما دی تو اسے متفقہ طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ اور یہ عمل یقیناً مسلم امہ کے لئے اور خود مجتہدین کرام کے لئے مستحسن ثابت ہوا۔ یہ فرق ذہن نشین ہونا چاہئے کہ فتاویٰ میں تبدیلی سے مراد یہ ہے کہ انسان کے کسی عمل کا جو حکم ما قبل میں بیان کیا گیا تھا۔ اب موجودہ حالات کی وجہ سے اس کے بجائے دوسرا حکم لگا دیا جائے۔ جیسے کسی چیز کو ماضی کے فقہا نے اپنے قوت اجتہاد سے نا جائز قرار دیا تھا لیکن بعد کے فقہا نے زمانہ کے حالات کا اعتبار کرتے ہوئے اسے مباح قرار دے یا کسی گزشتہ فقیہہ نے ایک چیز کو جائز قرار دیا تھا لیکن بعد کے فقہا نے اندیشۂ فتنہ یا تغیر زمانہ کے لحاظ سے اس کے نا جائزہونے کا فتویٰ دے دیا۔
ان تمام کی مثالیں میں قرن اول کے فقہا کی کتب میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ اور جن فتویٰ کی بنیاد قرآن مجید احادیث صحیحہ یا اجماع پر ہو ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ اس امر میں تبدیلی کا مطالبہ گمراہی اور دین سے سراسر انحراف ہے۔ لیکن وہ فتاوے کہ جن کی بنیاد قیاس و اجتہاد ، عرف و رواج یا کسی خاص زمانے کی مصلحت پر ہو ان میں تبدیلی ممکن ہے۔ بلکہ بعض صورت میں واجب ہو جاتی ہے اور سلف صالحین کا ہمیشہ سے اس پر عمل رہا ہے۔ جیسے علامہ ابن عابدین شامی ، علامہ ابو اسحاق شاطبی اور امام اہل سنت فاضل بریلوی رحمہم اللہ ۔
ایسے مسائل جن میں احادیث یا صحابہ کے فتاویٰ بظاہر متعارض ہوں یا کسی حدیث کی روایت میں فقہا اور محدثین کے درمیان اختلاف رائے ہوں یا مختلف علماء نے اپنی اجتہادی ، فکری جولانیت کے مطابق ترجیح سے کام لیا ہو تو ان تمام صورتوں میں عہد کی تبدیلیوں اور ضرورتوں کے اعتبار سے ترجیحات میں تبدیلی ممکن ہے۔ مذاہب اربعہ کے فقہا نے بھی بوقت ضرورت اپنے امام کی فکر و اجتہاد کے بجائے دوسرے امام کی فکر سے استفادہ کیا ہے۔ فتاویٰ میں تبدیلی کی ضرورت کے کچھ بنیادی اسباب ہوتے ہیں۔ مثلاً عرف و عادت میں تبدیلی، اخلاقی قدروں کا انحطاط ، جدید آلات و وسائل کے اعتبار سے حکم شرع ، مقام میں تبدیلی جیسے مسلم ، غیر مسلم ممالک کا فرق ، اقتصادی اور سیاسی نظام میں تبدیلی، یہی وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے فتویٰ میں تبدیلی کی ضرورت آن پڑتی ہے۔ لیکن فقہا کے لئے یہ بات ضروری ہوتی ہے کہ ان کا فتویٰ اجماع اور دلیل قطعی کے خلاف نہ ہوں۔ شریعت کے بنیادی مقاصد سے متصادم نہ ہوں۔ شبہات ، گمان اور افواہوں کی بنیاد پر فتویٰ صادر کرنا یہ اصول فتویٰ نویسی کے خلاف ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے علماء آئندہ افواہوں کی بنیاد پر فتویٰ دینے کا عمل ترک کر دیں گے اور لوگوں کو اضطراب میں مبتلا کرنے کے بجائے مشکل حالات میں بھی صبر و شکر کا دامن پکڑے رہنے کی تلقین کرتے رہیں گ ے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے