حضور حافظ ملت

حضور حافظ ملت ایک کامل شخصیت

محمد نفیس القادری امجدی
خطیب وامام: جامع مسجد منڈیا گنوں سہالی
استاذ: جامعہ قادریہ مدینۃ العلوم گلڑیامعافی،مرادآباد،یوپی،الہند
موبائل نمبر 8923604732

حضور حافظ ملت، استاذ العلما جلالۃ العلم علامہ شاہ عبدالعزیز محدث مراد آبادی علیہ الرحمۃ والرضوان کی حیات طیبہ راہ حق کے مسافروں کے لئے اسوۂ حسنہ و لائقِ تقلید تھی ۔
بلاشبہ ایک عالم باعمل اور صوفی کامل کے لئے جو محاسن ہونے چاہئیں وہ سب حضور حافظ ملت کے اندر بدرجہ اتم موجود تھے۔

ولادت باسعادت
ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے مغربی اطراف میں واقع مردم‌خیز ضلع مرادآباد کے قصبہ بھوجپور می۔1312ھ بمطابق 1894ء بروز دو شنبہ آپ نے ایک غریب مگر دیندار گھرانے میں آپ نےآنکھیں کھولیں ۔
پھر آگے چل کر یہی بچہ فخر الاماثل نخبۃ الافاضل قدرۃ السالکین زبدۃ العارفین امام العلماء شیخ الحفاظ حضور حافظ حضرت علامہ شاہ عبدالعزیز علیہ الرحمہ (نوراللہ مرقدہ) مرادآبادی کے نام سے مشہور ہوۓ۔

نام و نسب
آپ کا اسم مبارک عبد العزیز بن حافظ غلام نور بن عبد الرحیم۔ آپ کا یہ نام آپ کے دادا محترم عبد الرحیم صاحب نے شیخ عبد العزیز محدث دہلوی کی نسبت سے رکھا اور فرمایا کہ میرا یہ بیٹا بڑا عالمِ دین بنے گا۔ وقت ولادت پاس پڑوس کی عمر رسیدہ عورتوں نے ’’پیرا‘‘ کہا، کہ آج دنیاۓ اسلامیات میں استاذ العلماء جلالۃ العلم اور حافظ ملت جیسے القابات سے یاد کیے جاتے ہیں۔

تعلیم و تربیت
آپ کے آبا و اجداد کا تعلق انصاری برادری سے ہے۔ معاشی حالت اگرچہ ہمیشہ کمزور رہی لیکن شرافت نجابت میں قصبہ بھوج پور میں یہ گھرانہ مشہور ومعروف تھا۔ گھر کا ماحول اسلامی قوانین و ضوابط کا پابند تھا۔ والد اور جد اعلیٰ انتہائی مذہبی اور اسلامی،دینی مزاج رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی ابتدائی تعلیم ناظرہ قرآن سے شروع ہوئی۔ چنانچہ آپ نے ناظرہ، و حفظ قرآن کی تکمیل والد سے فرمائی، پرائمری درجات کی تعلیم بھوج پور میں ہوئی۔ فارسی کی ابتدائی تعلیم مولوی عبد المجید مراد آبادی سے اور پیپل سانہ میں حافظ نور بخش اور حکیم مولوی مبارک ﷲ سے گلستان تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد تعلیمی سلسلہ منقطع کر کے قصبہ بھج پور کی بڑی مسجد کے خطیب و مدرسہ حفظ القرآن کے مدرس مقرر ہو گئے۔ شب وروز یونہی گزرتے رہے۔ ماہ رمضان المبارک میں ہر سال شبینہ خوانی کے لیے شہر مراد آباد لوگوں کی دعوت پر تشریف لے جاتے۔ آپ کی صحتِ قرأت اور زود خوانی کا چرچا جلد ہی پورے شہر میں ہو گیا۔ عالم یہ تھا کہ پورا قرآن شریف تنہا محراب شریف میں سنا کر اٹھتے اور ذرہ برابر تھکان محسوس نہیں کرتے۔ پانچ سال تک یہی سلسلہ رہا۔ تعلیمی سلسلہ منقطع، گھریلو ذمہ داریوں اور کاموں کا بوجھ پھر عمر کا کافی حصہ بھی گزر چکا تھا۔ تعلیم و تعلم کا کسے خیال ہوتا؟ مگر جد کریم کی پیشن گوئی بہرحال پوری ہونی تھی۔ شہر مراد آباد کے طبیب حاذق جناب مولوی حکیم محمد شریف صاحب حیدرآبادی تلمیذ رشید حضرت مولانا عبد الحق خیر آبادی گاہے بگاہے بسلسلہ علاج و معالجہ بھوج پور تشریف لایا کرتے تھے اور نماز کا وقت ہوتا تو حافظ ملت کی اقتداء میں نماز ادا کیا کرتے تھے۔ ایک دن فرمانے لگے۔ حافظ صاحب آپ قرآن بہت عمدہ پڑھتے ہیں اور بڑی محبت سے فرمایا آپ طب بھی پڑھ لیجئے۔ میں آپ کو حکمت پڑھاؤں گا۔ حافظ ملت نے فرمایا۔ میں غریب آدمی مسجد کی امامت اور مدرسہ کی تدریس میرا ذریعہ معاش، روزانہ آمدورفت میرے لیے ممکن نہیں۔ حکیم صاحب نے فرمایا۔ آپ بذریعہ ٹرین مراد آباد آجائیں اور سبق پڑھ کر ٹرین ہی سے بھوج پور چلے جائیں۔ کرایہ میں جو صرف ہوگا وہ میں خود برداشت کروں گا۔ آپ نے والد صاحب سے عرض کیا۔ انہوں نے اجازت دے دی اور فرمایا روز کا آنا جانا مناسب نہیں۔ مراد آباد رہ کر ہی پڑھو۔ الغرض! ملازمت ترک فرما کر آپ حکیم صاحب کے پاس تشریف لے گئے۔ انہوں نے گلستان کا امتحان لے کر فرمایا آپ کا دماغ عربی کے لائق ہے اور میزان و منشعب وغیرہ شروع کرایا۔ وہ سب بھی دو ماہ کے اندر اندر ختم ہوگئیں۔

نہ جانے حکیم صاحب کو کیا سمجھ میں آیا کہ اس کے بعد خود پڑھانا چھوڑ دیا اور کہا کہ اب مجھے مطالعہ کرنا پڑے گا اور میرے پاس وقت نہیں ہے۔ اس لیے اب آپ مدرسہ جایئے، چنانچہ حافظ ملت نے
حضور صدر الافاضل سید مفتی نعیم الدین علیہ الرحمہ کے قائم کردہ جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں داخلہ لے لیا۔ تین سال تک تعلیم حاصل کرتے رہے مگر شرح جامی سے آگے نہ بڑھ سکے۔ علم کی پیاس جو پرجوش شدت اختیار کرچکی تھی۔ وہ بھی کلی طور پر نہ بجھ پا رہی تھی۔ تعلیم حسب خواہش نہ ہونے کی وجہ سے کسی عمدہ مدرسے اور کسی مشفق، مہربان باصلاحیت استاذ کی جستجو شروع کردی۔
حسن اتفاق سے آل انڈیا سنی کانفرنس کا انعقاد مراد آباد شہر میں ہونا طے پایا۔ اس میں مشاہیر علماء اہلِ سنت کا اجتماع ہوا۔ غور و خوض کے بعد رجحان قلب حضور صدر الشریعہ علامہ مولانا امجد علی صاحب اعظمی کی طرف ہوا۔ درخواست پیش کی تو فرمایا۔ شوال المکرم سے اجمیر شریف آجاؤ۔ مدرسہ معینیہ میں داخلہ لے کر تعلیمی سلسلہ شروع کرادوں گا۔

حسب ہدایت حضور حافظ ملت، حضرت محدث اعظم مولانا سردار احمد صاحب اور مولانا غلام جیلانی صاحب میرٹھی وغیرہم اجمیر شریف 1342ھ میں پہنچے۔ اگرچہ آپ سب بھی حضرات اس وقت معیاری طالب علم نہ تھے مگر حسب وعدہ صدر الشریعہ نے داخلہ فرمالیا۔ درسی کتابیں دیگر مدرسین پر تقسیم ہوگئیں۔ حضرت صدر الشریعہ نے از راہ شفقت خارجی اوقات میں تہذیب اور اصول الشاسی کا درس دینا شروع کیا۔ ملاحسن تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد حافظ ملت نے معاشی تنگی اور خانگی مصروفیت کا تذکرہ کرکے تعلیمی سلسلہ ختم کر دیا اور دورہ لینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ حضرت صدر الشریعہ نے تاکیداًفرمایا ’’اگر زمین پھٹ جائے اور آسمان ٹوٹ پڑے یہ تو ممکن ہے مگر آپ کی ایک کتاب چھوٹے یہ ممکن نہیں‘‘ چنانچہ حافظ ملت نے اپنا ارادہ ملتوی فرمادیا اور پوری دل جمعی کے ساتھ حضرت کی خدمت میں رہے۔ 1350ھ میں تعلیمی سلسلہ دورہ حدیث کے بعد ختم ہوا۔ اجمیر شریف میں مدرسہ معینیہ سے سند فراغت حاصل کی۔

بیعت و ارادت:
آپ کو شرف بیعت،قبلہ اعلی حضرت مولانا سید علی حسین صاحب اشرفی میاں کچھوچھوی قدس سرہ سے حاصل ہے۔ انہوں نے مرید کرکے خلافت سے نوازا۔ حضور حافظ ملت کے استاذ محترم حضرت صدر الشریعہ مولانا امجد علی صاحب سے بھی آپ کو خلافت و اجازت حاصل ہے۔ حضور حافظ ملت سے سلسلہ امجدیہ کی توسیع و اشاعت سلسلہ اشرفیہ کی بہ نسبت زیادہ ہوئی ہے۔

مشاغل:
فراغت کے بعد ایک سال تک بریلی میں حضور صدر الشریعہ کی خدمت میں رہے۔ شعبان 1352ء میں حضرت مولانا صدر الافاضل مولانا محمد نعیم الدین مراد آبادی نے جامع مسجد آگرہ میں مولانا نثار احمد صاحب کانپوری کے وصال کے بعد متعین کرنا چاہا تو آپ نے انکار فرمادیا اور عرض کیا کہ میں ملازمت نہیں کروں گا۔ حافظ ملت کا خیال تھا کہ تجارت کریں گے اور حتی المقدور دینی خدمات فی سبیل ﷲ انجام دیں گے۔ لیکن اسی سال ماہ شوال المکرم کے آخر میں حضرت صدر الشریعہ نے آپ کو بریلی شریف بلوالیا اور مبارک پور مدرسہ اشرفیہ میں درس تدریس کے سلسلے میں ارشاد فرمایا۔ میں ہمیشہ باہر رہا اس کے باعث میرا ضلع خراب ہو گیا۔ بدمذبیت اور گمراہیت نے پورے ضلع پر قبضہ جمارکھا ہے۔ اس لیے دین کے لیے میں آپ کو مبارک پور بھیج رہا ہوں، آپ جائیے اور کام کیجئے۔ آپ نے عرض کیا۔ حضرت میں ملازمت نہیں کروں گا۔ اس پر حضور صدر الشریعہ نے فرمایا… میں نے ملازمت کے لیے نہیں کہا بلکہ خدمت دین کے لیے کہا ہے۔ اس پر آپ خاموش رہے۔ پھر فرمایا یہ مت دیکھنا کہ کیا مل رہا ہے۔

جامعہ اشرفیہ کا قیام :
آپ نے صدر الشریعہ علامہ امجد علی (صاحب بہار شریعت ) کے حکم پر تکمیل درسیات کے بعد اعظم گڑھ ضلع کے قصبہ مبارکپور تشریف لائے اس وقت یہاں ایک مدرسہ مصباح العلوم کے نام سے قائم تھا۔ حضور حافظ ملت کی بہت محنت کے باعث یہ مدرسہ ایک عظیم الشان پھل دار درخت کی حیثیت سے جامعہ اشرفیہ کے نام سے مشہور معروف ہوا۔ چنانچہ آج دنیاۓ اسلامیات اس گلشن کو الجامعۃالاشرفیہ کے نام سے جانتے ہیں اور جامعہ اشرفیہ
کے لاکھوں فاضلین آج بھی اس کے پرانے نام کی طرف نسبت کرتے ہوئے دنیابھر میں مصباحی کے نام سے مشہور و معروف ہیں۔

اخلاق و کردار:

حضور حافظ ملت ایک عظیم عہد ساز اور انقلاب آفریں شخصیت کے مالک تھے۔ حضور حافظ ملت نے زندگی کے قیمتی لمحات انتہائی خوبی سے دین ومسلک کی خدمت و اہتمام میں گزارے۔ آپ کے پاکیزہ اور روحانی کیفیات سے سرشار وجود میں بھی اخلاق کریمانہ اور اوصاف بزرگانہ کا ایک عالم آباد تھا۔ آپ اخلاق، جہد مسلسل، استقلال، ایثار، ہمت، کردار، علم، عمل، تقوی، تدبر، اسلامی سیاست، ادب، تواضع، استغناء، توکل، قناعت اور سادگی جیسے بے پناہ اوصاف سے بھی مزین تھے۔

وصال:
حضور حافظ ملت علیہ الرحمۃ والرضوان کا
84 برس کی عمر پا کر 1 جمادی الاخری 1396ھ مطابق 31 مئی 1976 ء بروز دوشنبہ وصال ہوا۔
لیکن حضور حافظ ملت علیہ الرحمۃ والرضوان کے خیالات، نظریات، تخلیقات، جذبات، فکریات، آج بھی زندہ ہیں۔
جسکی جیتی جاگتی مثال الجامعۃالاشرفیہ ہے اور فارغین اشرفیہ ہیں آج لاکھوں کی تعداد میں دین و ملت، مسلک ومذہب کا انجام دے رہے ہیں
اور ایک خاص موقع پر خود حضور حافظ ملت جامعہ نے جامعہ اشرفیہ کے جشن تاسیس کے ذریں موقع پر دار العلوم اشرفیہ کے ابنائے قدیم کے مجمع میں تقریر کے دوران ارشاد فرمایا تھا کہ:
” اشرفیہ کے کاغذی اشتہارات و اخبارات تو شائع نہیں کیے لیکن (حضرت علامہ شریف الحق امجدی، مولانا شاہ سراج الھدی گیاوی، حضرت علامہ ارشد القادری، حضرت علامہ ضیاء المصطفیٰ قادری، مولانا قمر الزماں اعظمی اور دیگر ممتاز شاگردوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا) یہ سب وہ زندہ جاوید اخبارات و اشتہارات ہیں جو بڑے اہتمام کے ساتھ خون جگر کی سرخیوں سے شائع کیے ہیں”۔ ]حیات حافظ ملت، ص: ۱۳۴[
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے کئی کتابیں تحریر کیں جن میں ارشاد القرآن، معارف حدیث، المصباح الجدید اور العذاب الشدید وغیرہ بہت اہم ہیں۔
آج مدارس اہلِ سنت اور علماء اہلِ سنت اور طالبان علوم نبوی ﷺ حضور حافظ ملت کے فیضان سے فیضیاب ہورہے ہیں

اللہ رب العزت اپنے پیارے حبیب ﷺ کے صدقے میں حضور حافظ ملت علیہ الرحمۃ والرضوان کی تربت پر رحمت و نور کی بارش برساۓ اور انکے فیوض و برکات سے ہمیں حصہ عطا فرمائے
اٰمین بجاہ النبی الکریم علیہ التحیۃ والتسلیم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے