غزل
ہائے دسمبر

بِن تمہارے صنم دسمبر میں
ہو گئے قُلفی ہم دسمبر میں
بھاری پتھّر کوئی جمے جیسے
جم گئے ایسے غم دسمبر میں
ہم کو رہ رہ کے یاد آتے ہیں
اُن کی زلفوں کے خم دسمبر میں
ذہن جم جائے تو بھلا کیونکر
شعر ہوگا رقم دسمبر میں
حرفِ آخر پہ اسم کے تیرے
جم گیا ہے قلم دسمبر میں
یہ صلہ ہے تری محبّت کا
آنکھ ہوتی ہے نم دسمبر میں
جان لے لیں گے اے فیضان آخر
اُن کے ناز و نعم دسمبر میں
ازقلم: فیضان علی فیضان، پاکستان