غزل
اف دسمبر، ہائے دسمبر

لطف کیا ہے یہ کم دسمبر میں
ہوگئے ہیں بہم دسمبر میں
اک ادا ہے بس اور کچھ بھی نہیں
مسکرائے الم دسمبر میں
چاندنی آسمان سے آئی
چاند ہے دم بہ دم دسمبر میں
کانپتے ہیں دل وجگر دونوں
ہاں خدا کی قسم دسمبر میں
سال بھر کی اذیتیں بهولے
کب رہا ہے یہ دم دسمبر میں
بارشوں کی امید رہنے لگی
یوں ہوا ہے کرم دسمبر میں
بت کدے میں بهی اب نہیں ملتے
آپ جیسے صنم دسمبر میں
اپنی اپنی جگہ اکیلے ہیں
ایک تم ایک ہم دسمبر میں
سال جن کے بغیر گزرا ہے
ہیں وہی محترم دسمبر میں
سال بھر تو رہا فیضان میرا
توڑ ڈالا بهرم دسمبر میں
ازقلم: فیضان علی فیضان