غزل
غزل: میرے نصیب میں لگتا ہے وہ لکھا بھی نہیں

کسی سے کوئی شکایت نہیں گلہ بھی نہیں
میرے نصیب میں لگتا ہے وہ لکھا بھی نہیں
اُسے یہ کیسے خبر ہو گئی پتہ بھی نہیں
مُجھے جو کہنا تھا میں نے ابھی کہا بھی نہیں
تمہاری کوششیش سب رائیگاں ہی جائیں گی
وہ جا رہا ہو اگر اُس کو روکنا بھی نہیں
ہنر یہ میرے علاوہ کسی کو کب آیا
اُسی کو چاہنا اور اُس سے بولنا بھی نہیں
وہ حق بیانی سے ہر گز نہ باز آئے گا
وہ بولتا ہے اُسے کوئی ٹوکنا بھی نہیں
اُسی کی سوچ کی کِرنیں ہیں میرے چاروں طرف
کسی کے بارے میں اب مُجھ کو سوچنا بھی نہیں
تم ہی ہو جسکو ہمارا یہ قُرب حاصل ہے
ہمیں یہ عشق کسی سے کبھی ہُوا بھی نہیں
بسا ہوا ہے میرے دل میں اِس طرح فیضان
وہ میرے پاس نہیں ہے مگر جُدا بھی نہیں