اولیا و صوفیا

حضرت مخدوم علی مہائمی نے فقہی و روحانی خدمات سے اکناف عالم کو فیض یاب کیا

تحریر: غلام مصطفیٰ رضوی
نوری مشن مالیگاؤں

    تاریخِ اسلام کی وہ شخصیات جن کے وجود سے اسلامی تعلیمات کا احیا ہوا اور دل کی دُنیا میں خوش گوار انقلاب رونما ہوا ان میں نمایاں و ممتاز نام تاج دارِ کوکن حضرت مخدوم علی قطب مہائمی رحمۃاللہ علیہ (وصال ۸۳۵ھ) کا ہے۔ جن کا آستانہ صدیوں سے محبتوں کا محور اور عقیدتوں کا مرجع بنا ہوا ہے۔

    علاقہ ممبئی و کوکن کی تجارتی اہمیت مسلّم رہی ہے۔ ساحلِ سمندر ہونے کے سبب یہاں عرب ہند تجارتی تعلقات رہے اور یہ علاقہ عربوں کی نگاہوں کا مرکز رہا ہے۔ یہاں کی بندرگاہ سے سامانِ تجارت عرب ملکوں سے آتے اور جاتے؛ ہندوستانی اشیا دوسرے ملکوں کو برآمد کی جاتیں۔ جب کہ تجارت کے ساتھ ہی داعیانِ دین صوفیا کی ہند آمد کا سلسلہ مدتوں جاری رہا۔ جن کے قدموں کی برکت سے سواحلِ ہند اسلام کے دامنِ رحمت میں آتے رہے۔

    حضرت مخدوم علی مہائمی کا عہد آٹھویں صدی ہجری کے اختتام و نویں صدی ہجری کے آغاز کا ہے۔ آپ کی ولادت ۱۰؍ محرم الحرام ۷۷۸ھ/۱۳۷۲ء میں مہائم میں ہوئی۔ آپ کا اسم علاؤالدین و علی ہے۔ کنیت ابوالحسن؛ لقب زین الدین ہے۔ علم فقہ و تفسیر میں عظیم شان رکھنے کے باعث فقیہ و مخدوم کے لقب سے مشہور ہوئے۔’سبحۃالمرجان‘ میں علامہ میر سید غلام علی آزاد بلگرامی چشتی علیہ الرحمہ(وصال۱۲۰۰ھ) نے ان الفاظ میں آپ کا ذکر کیا ہے:

    ’’مولانا شیخ علی ابن احمد المہائمی گروہ نوایت سے ہیں۔ یہ لفظ ثوابت کے وزن پر ہے۔ ایک قوم ہے جو دکن کے شہروں میں رہتی ہے۔ میں نے ان کا حال فارسی کتابوں میں دیکھا۔ طبری نے اپنی تاریخ میں تحریر کیا کہ نائتہ گروہ ہے قریش کا؛ جو مدینہ منورہ سے حجاج بن یوسف کے خوف سے نکلا اور دریائے ہند کے ساحل پہنچ کر سکونت اختیار کی۔‘‘

    تیسری صدی ہجری میں حضرت مخدوم مہائمی کے اجداد عرب سے ہند آئے اور کوکن میں فروکش ہوئے۔والد ماجد شیخ شاہ احمد؛ عالمِ باعمل تھے۔ صاحب زادے کو حدیث و فقہ و تفسیر وغیرہ علومِ دینیہ میں خصوصی تربیت دی۔ ذی علم خاندان تھا اس لیے علومِ دینیہ میں درک حاصل ہوا۔ مشہور ہے کہ آپ کی تربیت و کمال میں حضرت خضر علیہ السلام کا بھی فیض شامل ہے۔ آپ نے کمالِ علم حاصل کیا۔ روحانی مقام و منصب بھی ایسا کہ دور و نزدیک سے اہلِ دل فیض یابی کرتے۔ سیاحت بھی کی۔ ممبئی کے قاضی کے منصب پر بھی فائز رہے۔آپ نے خدمت علم دین بھی کی۔ یہی سبب ہے کہ کئی صاحبِ تصنیف تلامذہ ہیں جن میں علامہ محمد سعید کوکنی رتنا گیری و علامہ بدرالدین محمد بن ابوبکر الدماینی مشہور ہیں۔

    آپ کے بارے میں ’سبحۃالمرجان‘ میں علامہ سید غلام علی آزاد بلگرامی نے لکھا کہ: ’’شیخ علی مہائمی باریک بیں علمااور صاحبانِ عرفان میں تھے۔ توحید وجودی کا اثبات کرنے والے اور شیخ ابن عربی کے نقوشِ قدم پر گامزن تھے۔‘‘

    گزری صدی کے عظیم محقق، امام احمد رضا قادری محدث بریلوی (وصال۱۳۴۰ھ) بھی شیخ محی الدین ابن عربی کی تعلیمات کے داعی و موید تھے۔ جس کا سبب علوم ظاہری و روحانی میں کمال تھا۔ جب صوفی زاہد عالمِ باعمل ہو تو اس کا علم رحمت ہوتاہے اور وہ صراطِ مستقیم کی طرف لے جانے والا ہوتا ہے۔ حضرت مخدوم علی مہائمی نے زندقہ و گمرہی کا خاتمہ کیا اور اصل اسلامی تصوف کی تعلیم دی؛ انہیں تعلیمات کی اشاعت گزری صدی میں امام احمد رضاقادری نے کی۔ غیر اسلامی متصوفانہ افکار کی تردید کر کے سُنّت کو زندہ کیا۔

    حضرت مخدوم مہائمی کا عقد والیِ احمد آباد سلطان احمد شاہ نے اپنی ہمشیرہ سے کیا۔ آپ پیکرِ اخلاص و تقویٰ تھے۔ شریعت پر عامل اور خلافِ شرع راہوں سے متنفر تھے۔ حضرت مہائمی کے عہد میں معاصرین میں علم و روحانیت کے بڑے بڑے تاج ور موجود تھے۔ جن میں حضرت سید اشرف مخدوم سمنانی کچھوچھوی (۸۰۸ھ)، حضرت زین الدین شیرازی دولت آبادی (۸۱۳ھ)، خواجہ بندہ نواز گیسو دراز گلبرگہ (۸۲۵ھ)، حضرت بدیع الدین زندہ شاہ مدار مکن پور (۸۴۰ھ)، حضرت قطب عالم شاہ برہان الدین (۸۴۵ھ)، حضرت خواجہ شاہ احمد عبدالحق ردولوی (۸۳۶ھ) کا شہرہ تھا، ایسے میں علاقۂ کوکن میں حضرت مخدوم مہائمی نے بساطِ علم و عرفان آراستہ کی۔

    آپ کا وصال بروز جمعہ بوقتِ شب ۹؍ جمادی الآخر۸۳۵ھ/۱۴۳۱ھ میں ہوا۔بعض نے ۸؍ جمادی الآخر تاریخِ وصال لکھی۔ تدفین مہائم میں ہوئی۔”جنات الفردوس” مادۂ تاریخ ہے۔ مزارِ اقدس عالی شان تعمیر ہوا۔ متصل مسجد بھی ہے۔ ہر سال عرس کا اہتمام بڑی شان و شوکت سے ہوتا ہے۔ کثیر زائرین ہوتے ہیں۔ آپ کے دستِ مبارک کا لکھا ہوا قرآن مقدس کا نسخہ ۲۹؍ ویں شب رمضان المبارک میں زیارت کروایا جاتا ہے۔

    آپ کی تصانیف اسلاف کے مسلکِ عرفان کی ترجمان ہیں۔ فقہ شافعی کو آپ نے استدلال سے آراستہ کیا۔ تفسیر میں گُہر ہاے علمیہ لُٹائے۔ فتاویٰ بھی صادر فرمائے۔ آپ کی تصانیف میں مابعدالطبیعیات، رموزِ معرفت، فلسفہ و حکمت و تصوف کے گنج ہاے گراں مایہ مستور ہیں۔ آپ کی تصانیف کثیر ہیں جن میں کم ہی محفوظ ہیں۔ اکثر امتدادِ زمانہ کی نذر ہو گئیں۔ جب کہ مولانا محمد افروز قادری چریا کوٹی نے ۲۱؍ تصانیف کی فہرست ’’فقہ مہائمی‘‘ مطبوعہ ناسک کے مقدمے میں درج کیں۔

     حضرت مخدوم علی مہائمی کی فقہ شافعی پر ممتاز و عظیم تصنیف ’’المعتمد من مذہب الشافعی‘‘ قلمی مخطوطے کی صورت میں محفوظ ہے۔ جس کی زیارت محقق شافعیت حضرت مفتی سید رضوان احمد شافعی رفاعی کے دولت کدے پر راقم و احباب نے کی ہے۔جو چھوٹی تقطیع پر مشتمل ہے۔ متن سیاہ قلم سے اور فصول و ابواب کی عنوان بندی سرخ قلم سے ہے۔ اس کے تعارف میں مفتی سید رضوان احمد شافعی لکھتے ہیں:

    ’’المعتمد قلمی مخطوطہ تقریباً سات سو اڑتالیس صفحات پر ایک جلد دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ دو سو چھتیس صفحات پر ’کتاب الطہارت‘ سے ’کتاب الفرائض‘ تک ہے۔ جب کہ دوسرا حصہ دو سو سینتیس تا پانچ سو تین صفحات پر ’کتاب الفرائض‘ کی چند فصول سے ’کتاب العتق‘ تک ہے۔‘‘  (فقہ مہائمی،ص۱۳)

    اس کتاب کی جلد اول ابوابِ طہارت سے نماز تک کا ترجمہ ’’فقہ مہائمی‘‘ کے عنوان سے ایک جلد میں مفتی سید رضوان احمد شافعی رفاعی نے رفاعی مشن ناسک سے ۲۰۱۶ء میں شائع کیا، یہ ترجمہ عمدہ، سلیس، رواں،با محاورہ و علمی ہے، امید کہ بقیہ اجزا بھی ترجمہ ہو کر منصۂ شہود پر ہوں گے۔

    آپ کی تفسیر بڑی معرکہ آرا ہے جس کے کچھ حصوں کی ایک جلد میں اشاعت ہوئی ہے۔ اردو ترجمہ مفتی محمد عصمت بوبیرے شافعی مصباحی نے کیا ہے۔

    اللہ کریم ہمیں اسلاف کے دامن سے وابستہ رکھے۔ حضرت مخدوم مہائمی علیہ الرحمہ کے فیوض و برکات سے نوازے اور اسلاف کی مبارک تعلیمات پر عمل کی توفیق بخشے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین علیہ الصلوٰۃ والتسلیم۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے