اصلاح معاشرہ سیاست و حالات حاضرہ

اے کاش! ہوجائے محبت کا چمن: ہمارا وطن، پیارا وطن

تحریر: عین الحق امینی قاسمی
نائب صدر جمعیة علماء، بیگوسرائے (بہار) انڈیا

یوم جمہوریہ ،ملک کے تئیں ہمارے اسلاف کی قربانیوں کو یاد کرنے اور انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کا سنہرا موقع فراہم کرتا ہے اور جشن جمہوریہ کے ان حسین لمحوں میں اپنی متحدہ قوتوں کو یاد کرنے کے حوالے سے بھی یہ ایک ایسا تاریخی ویادگار لمحہ ہے ،جہاں ماضی کو حال سے جوڑنے اور مستقبل کے لئے لائحہ عمل تیار کر ملک میں بسے تمام طبقات کے لئے دستوری حقوق سے آگاہی فراہم کرتا ہے،یہ ایسا حسین لمحہ ہے جہاں رک کر ہم اپنے سماج ومعاشرے کا احتساب بھی کرسکتے ہیں کہ ایک سوتیس کروڑ آبادیوں والا یہ ملک بھارت ،جہاں محبتوں کا ترانہ وردزباں ہوا کرتا تھا ,جہاں ہندو مسلمان شروع سے ایک ساتھ رہتے آئے ہیں ،آج کیوں نفرتوں کا مسکن بن گیاہے؟ یہی وہ پیاراملک ہے جس کی محبتوں کی مثال دی جاتی تھی ، جس کی جمہوریت کوآئڈیل مانا جاتا تھا ،یہی وہ ملک ہے ،جہاں ہندوو¿ں نے مسلمانوں کو پھانسی کے پھندوں سے اتار نے کا کام کیا تھا،جہاں مسلمانوں نے اپنے ہندو بھائیوں کو بچاکرخودپھانسی کے پھندوں میں لٹک جانا گوارا کیا تھا ، یہ تو وہ ملک ہے جس میں ہندو مسلمان ایک ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھایا کرتے تھے ، جہاں مسلمان ، ہندو بیٹیوں کے لئے سات پھیروں کا نظم کر ان کے گھر بسانے کی خدمت انجام دیتا تھا اور ہندو اپنے مسلم بھائیوں کی بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کر ان کے لئےساز وسامان مہیا کراتا تھا ،اسی بھارت میں ہندومسلم مائیں ایک دوسرے کے چولہے پر کھانا تیار کرتیں ، ہندو کے گھر سے مسلمان کا کھانا آتا، تو مسلم کے گھروں سے ہندو بھائیوں کا کھانا جاتا تھا ، مسلم مائیں اپنے ہندوپڑوسیوں کے بچوں کا مساج کرتیں تو ہندو بہنیں، مسلم بچوں کو لوریاں سناتیں۔ آج جب کہ نفرتوں کی کھیتی ہورہی ہے ،تب بھی مسلمانوں نے اپنی روش اور پروجوں سے ورثے میں ملی انسانیت کو زندہ رکھا ہوا ہے ، آج بھی ہمارے معاشرے میں کورونا سے متآثر ہوکر مرنے والوں کی ارتھی کو کوئی کاندھا دینے کوجب تیار نہیں، تو مسلمانوں کا ضمیر بے چین ہو گیا اور اپنے ملک کے سادھوسنت سمیت عام لوگوں کی ارتھی کو وہ لاک ڈاو¿ن کے باوجود نہ صرف کاندھا دے کر اسے شمشان گھاٹ تک لے گئے ،بلکہ آخری رسم کا نظم کیا۔
کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ مسلمانوں نے ہی سب سے پہلے دیش کو آزاد کرانے کی خاطر سفید فاموں سے لڑائی مول لی تھی ،کیا مسلمانوں نے ہی آزادی وطن کی خاطر انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا تھا ،کیاچاندنی چوک سے لاہور تک مسلمانوں کی لاشوں کو درختوں پر نہیں جھلایا گیا تھا ، کیا مسلمانوں نے تحریک خلافت آندولن برپا کر پورے ملک میں ہندو مسلم ایکتا کی لہر پیدا نہیں کی تھی ،کیا مسلمانوں نے ہی ہندوستان کو راکٹ ساز نہیں دیا ،کیا مسلمانوں نے میزائل مین عبد الکلام جیسا سپوت نہیں دیا ،جس نے پڑوسی ملک کی پیشکش کو ٹھکرا کر ہندوستان میں اجنبی بن کر جینا گوارہ کرلیا۔ کیا مسلمانوں نے ہی اس ملک کو سونے کی چڑیا نہیں بنایا تھا اور کیا مسلم حکمرانوں کے دور میں دیش غلام تھا ،کیا اس دور میں ہندو مسلم کی کوئی ایسی نفرت آمیز چلن تھی۔سرزمین ہند پر مسلمانوں کے اثرات واحسانات کو گنا نا اور تاریخ کی ورق گردانی کرنا مقصد نہیں ،بلکہ سرسری احساس کو جگانا ہے کہ اتنی جلدی ہمارے ملک کو گہن کیسے لگ گیا ،اس کی روشن تاریخ پر نفرتوں کی کائی کیوں کر جم گئی ؟ان تمام سچائیوں کے باوجود فاصلہ بنانے کے نام پر ملک کی چاٹوکار گودی میڈیا نے جس طرح ہمیں خانوں میں بانٹ کر سماج میں زہر گھول نے کا کام کیا ہے ،اس سے ملک کا تانا بانا بکھر رہاہے،ہمارادیش بدنام ہورہا ہے ،سماج کا سنجیدہ طبقہ شرمسار ہے ،ان کے پاس بولنے کوالفاظ نہیں ،رونے کو آنسو نہیں ،وہ تنگ آ چکے ہیں ،ایسا نہیں ہے کہ یہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز بنانے والے بے چارے ہیں ،ںلکہ یہ سب کچھ سوچی سمجھی سازش اور پری پلان کیا جارہا ہے ،ان زہریلے سماج خوروں کی پشت پر مضبوط ہاتھ ہے ،جس سے شہ پاکر یہ اتپات مچا رہے ہیں ،آئے دن موب لیچینگ ،عصمت دری اور انسانیت سوز حرکتوں کا سلسلہ جاری ہے اور ہمارا ذمہ دار طبقہ چپکی سادھے تماشہ دیکھ رہا ہے ،سماج کو توڑنے والے ان غنڈوں کو لگام دیا جاسکتا ہے ،مگر مشکل یہ ہے کہ اسی پر تو اقتدار کی کرسی ٹکی ہوئی ہے ،کرسی بچانے اور دیر تک براجمانی کے لئے ہی تو یہ سارا ڈرامہ رچاجارہا ہے ،جب قاتل ہی منصف ٹھہرے تو انصاف کہاں اور کیوں کر !
یوم جمہوریہ 26/جنوری ،راشٹریہ پر و اور جشن جمہوریہ کے موقع پر ہم دیش کے ان تمام معماروں اورامن کے پیغامبروں کو سلام کرتے ہیں اور جارج عقیدت پیش کرتے ہیں ،جنہوں نے ملک کی تعمیر وترقی کے لئے اپنی قربانیاں پیش کیں اور جمہوری تانے بانے کو مضبوط اور مستحکم رکھنے کے لئے ملک کو عظیم دستور وآئین دینے کا تاریخی کام کیا۔ ضرورت ہے کہ سنجیدہ طبقہ سامنے آئے ،ملک سے سچی پکی محبت کرنے والے آگے آئیں ،آپسی محبتوں کے بیچ نفرتوں کی بنی دیوار کو بھسم کر دلوں کو جوڑنے کی مخلصانہ کوشش کریں ،تعلیم ،دعوت اور تنظیم کی راہوں ں سے انسانیت ،آدمیت اور اخلاقیت کے پیغام سے ایک ایک فرد کو جوڑنے کے لئے عملی سطح سے پہل کیا جائے ، ایک دن محبت ،پیار اور امن کی جیت یقینی ہے ،نفرت کو محبت سے ہی ختم کیا جا سکتا ہے ،برد باری اور تحمل ہی ملک کو جوڑنے کا راستہ ہے، خدمت خلق، جو اسلامی مزاج کا اہم حصہ ہے ،اس سے بہر حال سماج کو فائدہ پہنچایاجائے ،۔اسی طریہ بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپس میں ماضی کی طرح پیار ومحبت کا ماحول بنائے رکھیں،دکھ سکھ میں ساتھ رہیں اور اپنے ملک کی ترقی اس کی بھلائی کے لئے ہم سے جو کچھ بھی ہوسکتا ہو اس م یں پیچھے نہ رہیں ،ترقیاتی امور میں حکومت کا ساتھ دیں،ان کی طرف سے ہونے والے اچھے کاموں کی سراہنا کریں ،تعلیم کو عام کریں ،اسکول وکالج قائم کر غریبوں ،مزدوروں کسانوں کے بچوں کو بھی طاقت فراہم کریں ،عدلیہ کی مدد سے قانون کی بالادستی سب کے لئے یکساں ہونا چاہیئے ،انصاف کا حصول جلد اور آسان ہو ،مہاتماگاندھی اوردیگرمجاہدین آزادی کے خوابوں کا ہندوستان بنانے کے لئے بھیم راؤامبیڈ کر کے ذریعے لائے گئے ” آئین ہند” کو ہر حال میں شرپسندوں سے بچا جائے، شر پھیلانے والوں کی کوششیں ضرور ایک دن ناکام ونامراد ہوں گی ،حق اور سچ کی دعوت رنگ لائے گی اور ہمارا یہ ملک اے کاش!” ہوجائے محبت کا چمن ،ہمارا وطن ،پیارا وطن” کے نغموں سے دوبارہ مرغ زار ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے