صحابہ کرام

قرآن کریم میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا ذکر جمیل

از قلم: شاہد رضا مصباحی
استاذ مرکزی دارالقرءت جمشید پور

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
سَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَىۙ•الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَهٗ یَتَزَكّٰىۚ•وَ مَا لِاَحَدٍ عِنْدَهٗ مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰۤىۙ•اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْاَعْلٰىۚ•وَ لَسَوْفَ یَرْضٰى۠•
ترجمہ: اورعن قریب سب سے بڑے پرہیزگارکو اس آگ سے دور رکھا جائے گا۔ جو اپنا مال دیتا ہے تاکہ اسے پاکیزگی ملے۔اور کسی کا اس پر کچھ احسان نہیں جس کا بدلہ دیا جانا ہو ۔ صرف اپنے سب سے بلند شان والے رب کی رضا تلاش کرنے کے لیے ۔ اور بےشک قریب ہے کہ وہ خوش ہوجائے گا۔
ان آیات مقدسہ میں غور کریں،اللہ تبارک و تعالیٰ نے جس ذات کو "اتقی”فرمایا،اس کے چار اوصاف ذکر فرمائے۔
پہلا وصف:  یہ کہ”وہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر اپنا مال لٹاتا ہے۔”
دوسرا وصف: یہ بیان فرمایا کہ "اس پرکسی کا ایسا احسان نہیں،جس کا بدلہ دیا جائے۔”
اوراس ذات کی تیسری صفت یہ بیان ہوئی کہ "اسے اس سے صرف رضائے الہی مطلوب ہے۔”
اور آخری آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ خوش خبری  سنائی کہ "اسے رب کی رضا حاصل ہوگی۔”
یہ سارے اوصاف جس ذات پر صادق آتے ہیں،باجماع مفسرین وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔
امام رازی رحمۃاللہ علیہ تفسیر رازی میں فرماتے ہیں:أجمع المفسرون منا على أن المراد منه ابوبكر رضي الله عنه.اہل سنت کے مفسروں کا اجماع ہے کہ”اتقی”سے مراد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے