اصلاح معاشرہ گوشہ خواتین مذہبی مضامین

ویلین ٹائن ڈے کی تفہیم

تحریر: ڈاکٹر صالحہ صدیقی
الہٰ آباد، یو۔پی۔ انڈیا

ویلین ٹائن ڈے یوں تو عشق و محبت کے نام پر پورا ایک ہفتہ الگ الگ ناموں سے جشن منا نے کا نام ہے جو 7 فروری سے شروع ہو کر14 فروری کو ختم ہوتا ہے ۔ 7فروری کو روز ڈے ،8فروری پرپوز ڈے،9فروری چاکلیٹ ڈے،10فروری ٹیڈی ڈے،11فروری پرومیس ڈے ،12فروری کس ڈے ،13 فروری ہگ ڈے اورپھر14 فروری کو ویلین ٹائن ڈے منایا جاتا ہیں ۔اس پورے ہفتے نوجوانوں کو لبھانے کے لیے الگ الگ طرح سے مارکیٹنگ کی جاتی ہیں۔بازاروں میں اس تہوار کے لیے بہت وسیع پیمانے پر تیاریاں کی جاتی ہیں ۔اس ایک ہفتے میں کروڑوں عربوں کا بزنس محبت کے نام پر کمپنیاں کر لیتی ہیں ۔
سینٹ ویلینٹائن ڈے جے جسے ویلینٹائن ڈے کا تہوار بھی کہا جاتا ہے آج ساری دنیا میں منانے کا فیشن عام ہیں ۔اس دن شادی شدہ اور غیر شادی شدہ جوڑے ایک دوسرے کو مذکورہ بالا الگ الگ دن الگ الگ تحائف دے کر اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں ۔اس ویلینٹائن ڈے ہفتے کو منا نے کی شروعات کب ؟ کہاں ؟ کیسے ؟ ہوئی یہ ایک اختلاف کن مسئلہ ہے جس کے بارے میں کئی رویات مشہور ہیں ۔لیکن ان سب میں مشترک ایک ہی بات ہے کہ پوری دنیا میں اسے ایک ہی تاریخ کو منایا جاتا ہے۔جیسا کہ پہلے کہا گیا اس دن کو سینٹ ویلینٹائن بھی کہا جاتا ہے ۔کیونکہ سینٹ ویلینٹائن ایک مسیحی راہب تھا جس سے جڑی ہوئی کچھ باتیں مشہور ہیں ۔اسے عاشقوں کے تہوار کی صورت میں اسی لیے منایا جاتا ہیںکیونکہ ’’بک آف نالج ‘‘ کے مطابق:
’’ویلنٹائن ڈے کے بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ اس کا آغاز ایک رومی تہوار لوپر کالیا(LUPER CALIA) کی صورت میں ہوا۔قدیم رومی مرد اس تہوار کے موقع پر اپنی دوست لڑکیوں کے نام اپنی قمیضوں کی آستینوں پر لگا کر چلتے تھے ۔بعض اوقات یہ جوڑے تحائف کا تبادلہ بھی کرتے تھے ۔بعد میں جب اس تہوار کو سینٹ ’ویلین ٹائن ‘ کے نام سے منایا جانے لگا تو اس کی بعض روایات کو بر قار رکھا گیا ۔اسے ہر اسے ہر اس فرد کے لیے اہم دن سمجھا جانے لگا جو رفیق یا رفیقہ حیات کی تلاش میں تھا۔ سترہویں صدی کی ایک پر امید دوشیزہ سے یہ بات منسوب ہے کہ اس نے ویلن ٹائن ڈے والی شام کو سونے سے پہلے اپنے تکیہ کے ساتھ پانچ پتے ٹانکے اس کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے وہ خواب میں اپنے ہونے والے خاوند کو دیکھ سکے گی ۔بعد ازاں لوگوں نے تحائف کی جگہ ویلنٹائن کارڈ کا سلسلہ شروع کر دیا ‘‘(۱)
ویلین ٹائن ڈے کے سلسلے میں محمد عطا ء اللہ صدیقی کا ایک اور نظریہ انتہائی اہم ہے،جس میں ویلنٹائن ڈے کو یوم محبت منانے کے پیچھے کے وجوہات پر بھر پور روشنی دالی گئی ہے ،لکھتے ہیں :
’’اس کے متعلق کوئی مستند حوالہ تو موجود نہیں البتہ ایک غیر مستند خیالی داستان پائی جاتی ہے کہ تیسری صدی عیسویں میں ویلینٹائن نام کے ایک پادری تھے جو ایک راہبہ (NUN) کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے ۔چونکہ مسیحیت میں راہبوں اور راہبات کے لیے نکاح ممنوح تھا ۔اس لیے ایک دن ویلن ٹائن صاحب نے اپنی معشوقہ کی تشفی کے لیے اسے بتایا گیا ہے کہ14 فروری کا دن ایسا ہے اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ صنفی ملاپ بھی کر لیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا ۔راہبہ نے ان پر یقین کیا اور دونوں جوش عشق میں یہ سب کچھ کر گزرے ۔کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اڑانے پر ان کا حشر وہی ہوا جو عموما ہوا کرتا تھا یعنی انہیں قتل کر دیا گیا ۔بعد میں کچھ منچلوں نے ویلن ٹائن صاحب کو ’شہید محبت ‘کے درجہ پر فائز کرتے ہوئے ان کی یاد میں دن منانا شروع کر دیا ۔چرچ نے ان خرافات کی ہمیشہ مذمت کی اور اسے جنسی بے راہ روی کی تبلیغ پر مبنی قرار دیا ۔‘‘
بہر حال وییلن ٹائن کی شروعات چاہے جیسے ہوئی ہو لیکن آج یہ عالمی سطح پر بڑی دھوم دھام سے منایا جانے والا تہوار کی صورت اختیار کر چکا ہے ۔اردو میں یوں تو بیشتر حصہ حسن و عشق کی باتوں سے بھرا پڑاہے۔ جس میں حسن و عشق کے ساتھ ہجر و وصال غرض کہ کی محبت سے متعلق تمام صورتوں کا بیان شعرأ نے پر اثر انداز میں کیا ہیں۔ویلین ٹائن ڈے کے موقع پر کچھ اشعار پیش خدمت ہیں :
اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو
دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے ( راحتؔ اندوری )
٭٭
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کا فر پہ دم نکلے (مرزا غاؔلب )
٭٭
ہوش والوںکو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے
عشق کیجیے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے ( ندا فاؔضلی )
٭٭
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے (حسرتؔ موہانی )
٭٭
کوئی سمجھے تو ایک بات کہوں
عشق تو فیق ہے گناہ نہیں (فراق ؔگورکھپوری )
اس طرح کے لاکھوں اشعار اردو کی شعری کائنات میں موجود ہیں ۔ویلنٹائن ڈے کو جتنا پسند کرنے والے اسے منانے والے لوگ ہیں اسی طرح نا پسند کرنے والے بھی ہیں ۔ہندستان میں ہندو انتہا پسند ’’بجرنگ دل ‘‘اور ’’ہندو مہا سبھا‘‘ جو ہر سال غیر شادی شدہ جوڑوں کو پکڑ کر مارتا پیٹتا ہے ،رسوا کرتا ہے ۔جس کے سنگین نتائج بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ہندو مہا سبھا کے لوگ تو کھلے عام یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر کسی نے آئی لو یو کہا تو اس کی زبر دستی شادی تک کرا دی جائے گی ۔اسی طرح عالمی سطح پر کچھ اسلامی ممالک میں بھی اس کی پر زور مخالفت کی جاتی ہے ۔اسی طرح ’’محبت ‘‘ کرنے کو اور اسے ویلین ٹائن ڈے کی صورت میں منانے کے نظریہ کو لے کر بھی اہل فکر و دانش الگ الگ نظریات پیش کرتے ہیں ۔وہ محبت کے خلاف نہیں لیکن محبت کے نام پر ہونے والی بے شرمی و بے حیائی اور اس کے برے نتائج کے خلاف ہیں۔یہ حقیقت بھی ہے کہ آج کا نوجوان محبت کے نام پر بھٹک رہا ہے ،برے کاموں می ں فیشن کے نام پر اس قدر مبتلا ہو چکاہے کہ اپنی زندگیاں تک تباہ و برباد کر رہا ہے۔ہر روز نئی نئی وارداتیں اخباروں اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر سرخیاں بنی رہتی ہیں ۔
بہر حال آج ویلین ٹائن ڈے پوری دنیا میں ’’محبت کا دن ‘‘ کے نام سے بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے ۔جسے لے کر مختلف لوگوں کے مختلف نظریا ت ہیں ۔لیکن سب سے زیادہ فائدہ اس سے مارکیٹ کو ہو رہا ہے ۔کمپنیاں نئے جوڑوں کو لبھانے کے لیے نئے نئے آفر مہینوں پہلے سے دینے لگتی ہیں۔آج ٹورسٹ پلیس سے لے کر مٹھائی کی دکان تک ایک ہفتہ محبت کا دن منانے کے بھیس میں بزنس کیا جاتا ہے ۔جسے نوجوان بڑی خوشی سے مناتاہے ۔انہیں کلمات کے ساتھ مین اپنی بات چند اشعار کے ساتھ ختم کرنا چاہونگی کہ :
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا ہی سمجھ لیجیے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے (جگرؔ مراد آبادی )
حواشی :
(۱) اقتباس از : ویلنٹائن ڈے : از محمد عطا ء اللہ صدیقی ، ص ۳۔
(۲) ایضا۔
(۳) اشعار آن لائن ریختہ ڈاٹ کام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے