تحریر: ریاض فردوسی، پٹنہ 9968012976
غلامی کی زنجیر میں لپٹا ہندستان، اور چند مردانِ آزادی کو جس شدت سے اس ذلالت کا احساس تھا ،ان کے علاوہ اس غلامی کاماتم شائد ہی کوئی اور کررہا تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے ان کی عیاشی اور حکومت طلبی کی وجہ سے ہندوستان میں لگاتار کمپنی کا قبضہ ہوتا جارہا تھا۔کمپنی جس کا مختصر تعارف یہ ہے۔شروعات میں کمپنی یہاں کاروبار کے سلسلے میں آئی تھی۔برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی یا برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی یا برطانوی شرق الہند کمپنی جسے انگریزی (British East India Company) کہا جاتا ہے، ہمارے ملک ہندوستان میں کاروباری مواقع کی تلاش کے لیے تشکیل دیا گیا ایک تجارتی ادارہ تھا تاہم بعد ازاں اس نے برصغیر میں کاروبار پر نظریں مرکوز کر لیں اور یہاں برطانیہ کے قبضے کی راہ ہموار کی،اور یہی اس کا مقصد اصلی تھا۔کاروبار معاملہ توصرف ایک بہانہ تھا۔لیکن چند سرفرشوں کو غلامی قبول نہیں تھی۔شمالی ہند اور بنگال میں انگریز اپنے مقبوضات میں اضافے کر رہے تھے،تب جنوبی ہند میں دو ایسے مجاہد پیدا ہوئے جن کے نام کو تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کر سکے گی۔ حیدر علی اور ٹیپو سلطان۔ بنگال اور شمالی ہند میں انگریزوں کو ہندوستانیوں کی طرف سے کسی سخت مقابلے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ان کی منظم افواج اور برتر اسلحے کے آگے کوئی نہ ٹھہر سکا لیکن جنوبی ہند میں یہ صورت نہیں تھی۔ یہاں حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے قدم قدم انگریزوں کی جارحانہ کاروائیوں کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے بے مثل سیاسی قابلیت اور تدبر کا ثبوت دیا اور میدان جنگ میں کئی بار انگریزوں کو شکستیں دیں۔ انہوں نے جو مملکت قائم کی اس کو تاریخ میں سلطنت خداداد میسور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔میسور یا میسورو بھارت کی ریاست کرناٹک(آج کانام) میں واقع مشہور شہر ہے۔ یہ سلطنتِ خداداد سلطنتِ میسور کا حصّہ تھا۔ یہ ایک سیاحتی مقام بھی ہے۔ یہ ریاست کرناٹک کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ کرناٹک کا پرانا نام میسور تھا۔جنوبی ہند کے وسیع چڑیاگھر یہیں واقع ہے۔میسور محل یہیں واقع ہے۔
سلطنت خداداد میسورتاج محل کے بعد ہندستان میں سب سے زیادہ مشہور سیاحتی مقام میں سے ایک ہے۔ میسور کی تاریخ دو مد مجاہد آزادی کے بغیر ادھوری ہے۔ سلطان حیدر علی اور ان کے لائق فرزند شہیدسلطان ٹیپو۔لیکن آج کے پڑھے لکھے جاہلوں نے اپنی ناسمجھی اور جہالت کو ٹیکنالوجی کے ذریعے سلطان ٹیپو کی اور ان کے والد کی خوب مذمت کی ہے۔یہ ان کی ناسمجھی اور جہالت کانتیجہ ہے۔ٹوئٹر جو جذبات کو ظاہر کرنے کاذریعہ ہے۔ٹوئٹر کے ایک صارف کا کہنا تھا کہ ’فرقہ پرست ٹیپو کو روادار اور سیکولر رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘
ایک شخص نے لکھا: ’یارو کم سے کم یومِ جمہوریہ پر توان ظالموں کو یاد نہ کرو۔‘ ایک شخص جو پروفیسر بھی ہے وہ کہتے ہیں،ہم لوگ ووٹ کے فائدے کے لیے ظالم و جابر حکمرانوں کی بھی تعریف کردیتے ہیں۔ معروف تاریخ داں عرفان حبیب نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ہے کہ: ’ٹیپو کی غلط شبیہ پیش کرنا بھی صنعت بن چکا ہے۔ ہندو اور مسلمان دونوں قسم کے شدت پسند ان کی وراثت کے ساتھ نا انصافی کر رہے ہیں۔ بیج تو انگریزوں نے ہی بویا تھا۔‘ تاریخ داں عطیہ زیدی نے اپنی ٹویٹ میں کہاکہ: ’ایک اچھے حکمراں پر تہمت لگانے سے ہمیں باز رہنا چاہیے‘
واضح رہے کہ ٹیپو سلطان انگریز ی حکومت کے مخالف تھے اور انھوں نے انگریزوں سے چار جنگیں لڑیں اور ایک جنگ میں شہید ہوئے۔ٹیپو سلطان ان چند حکمرانوں میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے برطانوی حکومت کے خلاف جنگیں لڑی تھیں،اور ان کو ان کی حیثیت سے روشناس کرایا تھا۔کیا یہ سب انگریزوں سے دشمنی کی سزا ہے؟جو بھی حکمراں انگریز وںکے خلاف لڑا،اسے انگریزوں نے کبھی خود سے،کبھی اپنے خریدے ہوئے ایمان فروشوں اورغداروں کے ذریعے اور باقی کاکام تو یہ جاہل پڑھی لکھی بھیڑ کرتی ہے جو بندر کی طرح نقل اتارنے میں ماہر ہے۔انہیں ہر طریقے سے بدنام کرنے کی سازش کی ۔انہیں ظالم وجابر قرار دیا گیا۔کوئی تحقیق نہیں بس جو انٹرنیٹ پر آگیا وہی حق ہے،انٹرنیٹ نہ ہوا کوئی دیودوت ہوا،پیغامبر ہوا کوئی اوتار ہوا، کہ اس کی بات پر ایمان لانا مذہبی فریضہ ہے۔بھائیوں ہم باشعور انسان ہیں ذرا غور کرکے فیصلہ کریں؟ کیا حق ہے اور کیا باطل۔۔۔۔۔۔۔۔؟
شمس الملک، امیر الدولہ،نواب حیدرعلی کی پیدائش1721ء بدیکوٹ، کولار، کرناٹک میں ہوئی۔آپ کی وفات7دسمبر1782ء(60یا61سال میں)چتور، آندھرا پردیش میں ہوئی۔تدفین سرنگاپٹنا،کرناٹک میں ہوئی۔ والدکانام فتح محمد ریاست علی تھا،اور آپ افغان نسل کے تھے۔دادا گلبرگہ(دکن) میں آکرآبادہوئے تھے۔تاریخ میں یوں شجرہ درج ہے۔حیدر علی ابن ریاست علی ابن فتح محمدعلی ابن افضل علی ابن لیاقت علی ابن نیابت علی ابن کرامت علی ابن قائم علی وغیرہ۔(از تاریخ کرناٹک و میسور(1946.۔مطبوعہ کتاب الہند،لاہور)۔از ۔مزمل علی قادری۔صفحہ۔208,311,124)
آپ کے والد میسور کی فوج میں فوجدار تھے۔ حیدر علی خاں جب پانچ برس کے ہوئے تو والد ایک لڑائی میں مارے گئے۔ ان کے چچانے ان کی پرورش کی اور وہی حیدر علی خاں نے فنون سپہ گری سکھائی۔حیدر علی نے فن سپہ گری، تیغ زنی، تفنگ اندازی اور گھڑسواری سیکھنے میں جلدی مہارت حاصل کرلی۔
1752ء میں فوج میں ملازمت اختیارکی،اپنی بہادری اور جانثاری سے بادشاہ میسور کادل جیت لیا۔مرہٹوں کی بغاوت کو کچل کررکھ دیا۔بادشاہ نے انکی جانثاری اور کارگزاری سے خو ش ہوکر
1755ء میں فوج کا سپہ سالار بنا دیا۔ میسور کی بدانتظامی اور راجا کی نااہلی کے سبب بالآخر حیدر ع
لی نے 1766
ء میں راجا کو وظیفہ مقرر کرکے حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی۔ حیدر علی خاں کی تخت نشینی کے وقت ریاست میسور میں صرف 33 گاؤں تھے۔ مگر انہوں نے تھوڑے ہی عرصے میں اسی(۸۰ )ہزار مربع میل علاقے میں اپنی حکومت قائم کرلی۔حیدر علی کواپنے 20 سالہ دور حکومت میں مرہٹوں، نظام دکن اور انگریزوں تینوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔انگریزوں کے خلاف سلطان حیدر علی نے دو جنگیں لڑیں۔ پہلی جنگ میسور 1766ء تا 1769ء میں حیدر علی نے مدراس کی دیواروں کے نیچے پہنچ کر انگریزوں کو صلح پر مجبور کر دیا۔ دوسری جنگ میسور 1780ء تا 1784ء میں انہوں نے کرنل بیلی اور میجر منرو کو فیصلہ کن شکستیں دیں۔ اسی جنگ کے دوران میں دسمبر 1784ء میں سلطان نے بعارضہ سرطان وفات پائی۔
حیدر علی پانچ مختلف زبانوں میں بات چیت کرسکتے تھے۔قوت حافظہ بہت تیز تھی،بیک وقت کئی احکامات جاری کرتے۔حیدرعلی خاں اگرچہ والد کے انتقال کے سبب پڑھ نہیں پائے لیکن اللہ نے حکمت کے خزانے آپ کے لیے کھولے تھے،آپ پیچیدہ گھتیوں کو فوراً حل کر لیتے،شخصی خوبیوں کو بھانپنے میں انہیں کمال حاصل تھا۔آپ کی حکمت بھری نگاہوں نے مغلیہ حکومت کے آخر میں آنے والے حکمرانوں کی نااہلی کے سبب ہونے والی تباہ و بربادی اور زوال ہندوستان کو دیکھ لیا تھا۔ایسٹ انڈیا کمپنی کے ناپاک منصوبوں کوحیدرعلی خان نے بخوبی سمجھ لیا تھا۔اس لیے انگریزوں کو بھگانے کے لیے حکمت عمل شروع کی۔(1780ء تا 1784ء) میںانگریزوں کو کئی بار شکست دی۔ دوسری جنگ میں حیدر علی نے نظام دکن اور مرہٹوں کو ساتھ ملا کرانگریزوں کے خلاف متحدہ محاذ بنایا تھا اور اگر مرہٹے اور نظام اس کے ساتھ غداری نہ کرتے اور عین وقت پر ساتھ نہ چھوڑتے تو کم از کم جنوبی ہند سے حیدر علی خاں نے انگریزی اقتدار کا خاتمہ ہمیشہ ہمیش کے لئے کردیا تھا۔حکمراں جب جب عیاشی کو اپنا مذہب بناتے ہیں تو تب تب ان پر زوال آتا ہے۔مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد مسلمانوں کی جو خود مختار ریاستیں بر صغیر میں قائم ہوئیں ان میں سب سے بڑی اور طاقتور ریاست حیدر آباد دکن کی مملکت آصفیہ تھی۔ اس مملکت کے بانی نظام الملک آصف جاہ تھے، چنانچہ اسی نسبت سے اس ریاست کو مملکت آصفیہ یا آصف جاہی مملکت کہا جاتاتھا۔یہ خودمختاری اور اپنی بادشاہت کو قائم کرنے کا ذریعہ تھی۔حیدر علی خان ہر مذہب اور ہر فرقے کے لوگوں سے یکساں سلوک کرتے اور عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے میں کسی سے رعایت نہ کرتے۔( نوٹ۔آپ کی وفات کے بعد آپ کے فرزند ٹیپو سلطان تخت میسور پر بیٹھے۔حیدر علی پھر سلطان ٹیپو کی شہادت(ملک کی آزادی کے لیے) کے بعد 1799ء چوتھی اینگلو میسور جنگ کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف سے ریاست میسور عمل میں لایا گیا جو 1947ء تک قائم رہی، جب اس نے ڈومنین بھارت کے ساتھ الحاق کر لیا۔نوابی ریاست میسور سے 1761ء اور 1799ء کے درمیان حیدر علی اور ٹیپو سلطان کی قائم کردہ سلطنت خداداد میسور کا بیشتر حصہ اس سے الگ کر دیا )
ایمان فروشوں نے ہر دور میں اپنی غداری اور دغابازی سے تاریخ کو بدل ڈالہ ہے،مکہ کے کافروں سے زیادہ مدینہ شریف کے منافق خطرناک تھے،جو ہر وقت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سازیشیں کرتے اور فتنہ پھیلاتے رہتے تھے۔ناصر الدین علقمعی نے ایمان فروشی اور غداری سے تاریخ اسلام کوکشت وخون میںڈبو دیااور بغداد کی درودیوارایمان فروشی اور غداری کی گواہ بنی۔میر صادق بھی ان ایمان فروشوں کی جماعت کی ایک کڑی ہے۔میر صادق ریاست حیدرآباد دکن کے ایک شہری تھا۔ یہ حیدر علی کا معتمد خاص تھا حیدرآباد دکن کے میر عالم کا بھائی تھا مذہبی شیعہ اور عجمی النسل تھا میر صادق متحدہ ہندوستان میں میسور کے سلطان ٹیپو کے دربار میں وزیر کے عہدے پر فائز تھا۔ سلطان حیدر علی خاںنے ایک مرتبہ اسے معزول کر دیا اگرچہ پھر بحال بھی کر دیا لیکن میر صادق نے یہ بات دل میں رکھی اوراپنی توہین کے انتقام پر تلا ہوا تھا تیسری میسور کی جنگ کے بعد ٹیپو سلطان نے اصلاحات کیں ایک مجلس قائم کی جس کا نام ’’زمرہ غم نباشد‘‘ رکھا اس مجلس کے قیام کی وجہ یہ تھی کہ عوام میں سلطنت کی ذمہ داری کا احساس پیدا ہو میر صادق نے اسے ناکام بنا دیا۔اس نے اپنی مکاری اور عیاری سے دربار کے بہت سے لوگوں کو اپنا موافق بنا لیا۔بہت سے فوجی عہدیدار بھی اس کے بہکاوے میں آگئے۔بہت ہی میٹھی زبان سے وہ لوگوں کو برغلاتا تھا۔
میر صادق کے اثر ورسوخ کا یہ عالم تھا کہ وہ سلطان تک کوئی خبر ہی نہ پہنچنے دیتا اسی وجہ سے تیسری اورچوتھی انگلو میسور جنگ میں ٹیپو سلطان نے شکست کھائی میر صادق کے بارے میں تمام تاریخ نویسوں نے کہا ہے کہ اس نے ٹیپو سلطان سے غداری کی اور سلطنت برطانیہ کا ساتھ دیا سرنگا پٹم کے محاصرے کے دوران آخری دن کو انگریزوں کی آمد کی خبر سن کر جب ٹیپو سلطان ڈگی دروازے سے باہر نکلا تو میر صادق نے دروازہ اند ر سے بند کرا دیا اس غدار کو خوف تھا کہ سلطان واپس آکر انگریزوں سے صلح نہ کر لے دروازے بند کر دینے کے بعد اس نے فصیل قلعہ پر سلطان کی موجودگی کی اطلاع انگریزوں کو دی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انگریز فوج نے تین طرف سے سمٹ کر فصیل قلعہ پر گولیاں برسائیں جس کی وجہ سے میسور میں اس جنگ کے دوران ٹیپو سلطان کو شہید کر دیا گیا اس شکست سے اسلامی ریاست میسور ختم ہو گئی۔میر صادق کو 1799ء میں سرنگاپٹم کی جھڑپ کے دوران قتل کر دیا گیا تھا۔ علامہ اقبال نے میر صادق کی غداری کے بارے میں کہا ہے۔
جعفر از بنگال و صدق از دکن
ننگ آدم ننگ دین ننگ وطن
ٹیپو سلطان 20 نومبر، 1750ء (بمطابق جمعہ 20 ذوالحجہ، 1163ھ) کو دیو
انہالی
میں پیدا ہوئے۔ موجودہ دور میں یہ بنگلور دیہی ضلع کا مقام ہے جو بنگلور شہر کے 33 کلومیٹر (21 میل) شمال میں واقع ہے۔ ٹیپو سلطان کا نام آرکاٹ کے بزرگ ٹیپو مستان اولیا ء کے نام پر ہے۔ اسے اپنے دادا فتح محمد نام کی مناسبت سے فتح علی بھی کہا جاتا تھا۔ حیدر علی نے ٹیپو سلطان کی تعلیم پر خاص توجہ دی اور فوج اور سیاسی امور میں اسے نوعمری میں ہی شامل کیا۔ 17 سال کی عمر میں ٹیپو سلطان کو اہم سفارتی اور فوجی امور پر آزادانہ اختیار دے دیاگیا۔ اسے اپنے والد حیدر علی خاںجو جنوبی بھارت کے سب سے طاقتور حکمران کے طور پر ابھر کر سامنے آئے کا دایاں ہاتھ سمجھا جاتا تھا۔ٹیپو سلطان کا پورا نام فتح علی ٹیپو تھا۔ آپ بنگلور، ہندوستان میں 20 نومبر، 1750ء میں حیدر علی کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سلطان حیدر علی نے جنوبی ہند میں 50 سال تک انگریزوں کو بزورِ طاقت روکے رکھا اور کئی بار انگریزافواج کو شکست فاش بھی دی۔ٹیپو سلطان کا قول تھا۔
شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔
ٹیپوسلطان نے برطانوی سامراج کے خلاف ایک مضبوط مزاحمت فراہم کی اور برصغیر کے لوگوں کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرنے کے لیے سنجیدہ و عملی اقدامات کیے۔ سلطان نے انتہائی دوررس اثرات کی حامل فوجی اصلاحات نافذ کیں، صنعت و تجارت کو فروغ دیا اور انتظامیہ کو ازسرنو منظم کیا۔ سلطان کو اس بات سے اتفاق تھا کہ برصغیر کے لوگوں کا پہلا مسئلہ برطانوی اخراج ہے۔ نظام اور مرہٹوں نے ٹیپو کی طاقت کو اپنی بقا کے لیے خطرہ سمجھا اور انگریزوں سے اتحاد کر لیا۔ٹیپو سلطان نے ترکی، ایران، افغانستان اور فرانس سے مدد حاصل کرنے کی کوشیشیںبھی کیں مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ میسور کی آخری جنگ کے دوران جب سرنگاپٹم کی شکست یقینی ہوچکی تھی ٹیپو نے محاصرہ کرنے والے انگریزوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کی اور قلعے کو بند کروادیا لیکن غدار ساتھیوں نے دشمن کے لیے قلعے کا دروازہ کھول دیا اور قلعے کے میدان میں زبردست جنگ چھڑ گئی۔ بارُود کے ذخیرے میں آگ لگ جانے کے باعث مزاحمت کمزور ہو گئی اس موقع پر فرانسیسی افسر نے ٹیپو کو چترادرگا بھاگ جانے اور اپنی جان بچانے کا مشورہ دیا مگر ٹیپو راضی نہ ہوئے اور 4 مئی، 1799ء کو میدان جنگ میں انگریزوں سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔اس واقعے سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ نواب سراج الدولہ،نواب واجد علی شاہ اوربہادر شاہ ظفر وغیرہ کے مقابلے میں سلطان ٹیپو کی شہادت کی کیا اہمیت تھی۔ انگریز جنرل ہیرس کو سلطان کی موت کی اطلاع ہوئی تو وہ چیخ اٹھا کہ ”اب ہندوستان ہمارا ہے”۔ انگریزوں نے گرجوں کے گھنٹے بجا کر اور مذہبی رسوم ادا کرکے سلطان کی موت پر مسرت کا اظہار کیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے ملازمین کو انعام و اکرام سے نوازا۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ اب ہندوستان میں برطانوی اقتدار مستحکم ہو گیا اور اس کو اب کوئی خطرہ نہیں۔شاعر مشرق علامہ اقبال کو ٹیپو سلطان شہید سے خصوصی محبت تھی۔ 1929ء میں آپ نے شہید سلطان کے مزار پر حاضری دی اور تین گھنٹے بعد باہر نکلے تو شدّت جذبات سے آنکھیں سرخ تھیں۔ انہوں نے فرمایا:
””ٹیپو کی عظمت کو تاریخ کبھی فراموش نہ کرسکے گی وہ مذہب ملّت اور آزادی کے لیے آخری دم تک لڑتا رہا یہاں تک کہ اس مقصد کی راہ میں شہید ہو گیا۔”
ٹیپو سلطان ہفت زبان حکمران کہے جاتے ہیں۔ آپ کو عربی، فارسی، اردو، فرانسیسی، انگریزی سمیت کئی زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔ آپ مطالعے کے بہت شوقین تھے اور ذاتی کتب خانے کے مالک تھے جس میں کتابوں کی تعداد کم و بیش 2000 بیان کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ آپ سائنسی علوم میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے۔ہر جنگ میں اپنی افواج کے شانہ بشانہ رہنے والے ٹیپو سلطان اپنے زمانے کے تمام فنون سپہ گری سے واقف تھے۔ اپنی افواج کو پیادہ فوج کی بجائے سواروں اور توپ خانے کی شکل میں زیادہ منظّم کیا۔ اسلحہ سازی، فوجی نظم و نسق اور فوجی اصلاحات میں تاریخ ساز کام کیا۔
آپ کو برصغیر میں راکٹ سازی کا موجد کہا جاتا ہے۔لندن کے معروف سائنس میوزیم میں ٹپیو سلطان کے کچھ راکٹ رکھے ہیں۔ انگریز انہیں 18 ویں صدی کے آخر میں اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
یہ راکٹ دیوالی میں جلائے جانے والے راکٹ بموں سے تھوڑے ہی بڑے نظر آتے ہیں۔ سابق صدر اور ’میزائل مین‘ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام نے اپنی کتاب ‘ونگز آف فائر’ میں لکھا ہے کہ انہوں نے ناسا کے ایک سینٹر میں ٹیپو کی فوج کی راکٹ والی پینٹنگ دیکھی تھی۔ٹیپو سلطان اور ان کے والد حیدر علی نے جنوبی بھارت میں لڑی جانے والی جنگوں میں اکثر راکٹ کا استعمال کیا۔ یہ راکٹ ان کو زیادہ کامیابی نہیں دلا سکے لیکن یہ دشمن میں کھلبلی ضرور مچا دیتے تھے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اورنگ زیب عالمگیر کے انتقال کے بعد اسلامی ہند میں حیدر علی اور ٹیپو سلطان جیسی حیرت انگیز صلاحیت رکھنے والا تیسرا کوئی حکمران نظر نہیں آتا۔ خاص طور پر حیدر علی اور ٹیپو سلطان کوہندوستانی تاریخ میں اس لیے بلند مقام حاصل ہے کہ انہوں نے دور زوال میں انگریزوں کا بے مثل شجاعت اور سمجھداری سے مقابلہ کیا۔ یہ دونوں باپ بیٹے دور زوال کے ان حکمرانوں میں سے ہیں جنہوں نے نئی ایجادوں سے فائدہ اٹھایا۔ وقت کے تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش کی اور اپنی مملکت میں فوجی، انتظامی اور سماجی اصلاحات کی ضرورت محسوس کی۔ انہوں نے فرانسیسیوں کی مدد سے اپنی افواج کی جدید انداز پر تنظیم کی جس کی وجہ سے وہ انگریزوں کا 35 سال تک مسلسل مقابلہ کرسکے اور ان کو کئی بار شکستیں دیں۔ یہ کارنامہ اٹھارہویں صدی کے نصف آخر
میں کو
ئی دوسرا حکمران انجام نہیں دے سکا۔ حقیقت یہ ہے کہ بر صغیر میں انگریزوں کا جتنا کامیاب مقابلہ حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے کیا کسی اور مسلم اور غیر مسلم حکمران نے نہیں کیا۔ ٹیپو سلطان سلطنت عثمانیہ کے سلیم ثالث کا ہمعصر تھا۔
علامہ اقبال نے ٹیپو کی شان میں کیا خوب نظم کہا ہے۔
تو رہ نوردِ شوق ہے، منزل نہ کر قبول
لیلی بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول
کھویا نہ جا صنم کدہ کائنات میں
محفل گداز گرمی محفل نہ کر قبول
صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئل نے
جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول
باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے
شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول (کلیات اقبال)
(ماخوذ۔مردِ حریت سلطان ٹیپو، ڈاکٹر وائی، یس، خان، بنگلور، صفحہ: 176 ناشر: کرناٹک اردو اکادمی بنگلور۔
کمپنی کی حکومت از باری صفحہ227(مطبوعہ نیا ادارہ لاہور 1969ء
تاریخ سلطنت خدادا میسور: محمود خان محمود بنگلوری صفحہ 380
1799ء میں میسور کے حکمران اور حکام۔
The Sword of Tipu Sultan.By (1976.)Bhagwans S. Gidwani
Mohibbul Hasan (2005)۔ History of Tipu Sultan۔ Aakar Books۔
”Tipu Sulatan (A Life History), Mohyammed Ilyas Nadvi Bhatkali, Institute of Objective Studies, New Delhi,2009,p.204”
One day the lion’s life. William.r.ford page no.198,287 )