سیاست و حالات حاضرہ

مشوروں سے اقتدار میں پائیداری ممکن ہے،

ازقلم: محمد عارف رضا نعمانی مصباحی
پیام برکات ،علی گڑھ

آج علی الصباح اخبار پر نظر پڑی تو سابق وزیراعظم کا بیان دیکھتے ہی یہ سوال ذہن میں آیا کہ کیا ہوا بھئی؟ کیوں کہ طویل عرصے بعد سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، معیشت کی خستہ حالی اور بے روزگاری پر لب کشائی کرتے ہوئے موجودہ حکومت کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا، مختلف سیکٹرز میں خستہ حالی اور ملک کی معیشت کی بدحالی کا اصل سبب نوٹ بندی کو قرار دیا، اور یہ خاص بات کہی کہ کسی بھی معاملے میں ریاستوں سے مستقل طور پر مشورہ نہیں کرتے ہیں، کیوں کہ نوٹ بندی کا فیصلہ بھی اس کی عکاسی کرتا ہے،
جب آپ اپنی حکومت کو عوام سے بالا تر جانیں گے اور ان کو اپنے فیصلوں کے نفاذ کے سلسلے میں مشورہ نہیں کریں گے تو ضرور پستی میں گر جائیں،
نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کا مطالعہ کریں اور آپ کی حکومتوں پالیسیوں پر غور کریں تو ایک اہم چیز نکل کر سامنے آئے گی وہ ہے باہم مشورے سے کام کرنا،
جب کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو تائید غیبی حاصل تھی، وہ اس کے مطابق کام کرتے پھر بھی آپ نے باہم راے مشورے کرنے کا حکم دیا،، مشورہ کیا بھی، یہ تعلیم امت کے لیے تھا تاکہ مسلم حکمراں کس حکمت عملی اور تدبیر کے ساتھ رعایا کی خبر گیری کرے اور اس کے فیصلوں سے امن و امان کا قیام ہو سکے،
اسی طرح ہمارا کنبہ بھی ایک ریاست کی مانند ہے اور اس کے مکین رعایا، تو کنبے کے ذمہ دار کو چاہیے اپنے فیصلوں میں دیگر افراد خاندان سے مشورہ کرے تاکہ وہ ایک اچھا اور مفید فیصلہ کر سکے جو ہر کسی کے حق میں بہتر ہو، ایسے گھرانوں میں اتحاد قائم رہتا ہے، اور آپسی میل محبت میں پائیداری ہوتی ہے، خاندان کی ترتیب و تنظیم بھی ایک بڑی ذمہ داری ہے، مولیٰ تعالٰی ہم پر فضل فرمائے، اور بہتر طریقے سے گھرانوں میں نظم و ضبط قائم فرمائے
اے کاش ہمارے حکمرانوں کی آنکھیں کھل جاتیں اور ان کو عوام کی بہتر خدمت کرنے کی توفیق ملتی،
ملک کا قائد قوم کا خادم ہوتا ہے جب کہ ہمارا نظریہ اس کے بالکل برعکس ہے ہم قائد بن کر حاکم اعلیٰ کا تصور کر لیتے ہیں، جب کہ حاکم اعلیٰ تو جگ میں ایک ہی ہے، وہ ہے اللہ، اسی کی ہر دل پر حکمرانی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے