مضامین و مقالات

دوسروں کی آنکھوں کا تنکا دیکھنے سے قبل اپنی آنکھوں کا شہتیر دیکھیں

ازقلم: غیاث الدین احمد عارف مصباحی
استاذ: مدرسہ عربیہ سعیدالعلوم یکما ڈپو، لکشمی پور، مہراج گنج

حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک خوبصورت عورت اپنا منہ کھولے ننگے سر انتہائی غصے کی حالت میں میرے پاس آئی اور اپنے شوہر کی شکایت کرنے لگی،تو میں نے کہا کہ پہلے اپنا ہاتھ اور چہرہ تو چُھپا لو، اتنا بھی کیا غصہ؟ کہ تم نے پردے کا خیال تک نہ کیا تو عورت فوراً بول پڑی کہ میں تو اپنے شوہر کے عشق میں اس قدر پاگل ہوئی کہ میری عقل کھو گئی اور مجھے اپنے آپ کا خیال بھی نہ رہا کہ میں بے پردہ ہوں یا باپردہ مگر آپ کیسے عاشق ہیں کہ عشقِ الہی کا دعوی بھی کرتے ہیں اور غیر کی طرف نظر بھی رکھتے ہیں لگتا ہے کہ آپ کواپنے محبوب سے سچا عشق نہیں ہے۔حضرت خواجہ حسن بصری فرماتے ہیں کہ اس عورت نے میرے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا اور میں اپنے آپ کو اندر ہی اندر کوسنے لگااور یہ سوچنے لگا کی واقعی یہ عورت جو کہتی ہے وہ بالکل صحیح کہتی ہے۔
احباب گرامی وقار! اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق تو ملتا ہی ہے کہ ہمیں اللہ پاک سے سچی محبت کرنی چاہیے مگر اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ ہمیں دوسروں کے عیوب کی طرف نظر ڈالنے سے پہلے اپنے دامن کوضروردیکھنا چاہیے، ہم دوسروں کا داغدار دامن دیکھنے سے پہلے اپنے دامن کا داغ نظر انداز کر دیتے ہیں اگر ہم دوسروں کے عیوب پر نظر ڈالنے سے قبل اپنے آپ کو دیکھنے کی کوشش کرنے لگیں تو دوسروں کی پردہ پوشی کا جذبہ بھی بیدار ہو گا اور ہمیں اپنے عیبوں کو سدھارنے کی توفیق بھی ملے گی۔
اگر آج ہم اپنے معاشرے پر ایک اُچٹتی نظر ڈالیں تو ہم میں سے بیشتر کا حال یہی ہے کہ ہمیں دوسروں کی آنکھ کا تنکا تو نظر آ جاتا ہے مگر اپنی آنکھ کا شہتیر بھی نظر نہیں آتا ، ایک لمحے کےلیے کسی محفل میں بیٹھ جائیں تو ایک دوسرے کی پردہ دری کا دور شروع ہوجاتا ہے،بڑے چاؤ سے دوسروں کے عیوب بیان کئے جاتے ہیں اور ہم کان لگا کر ایسے سننے میں مست و مگن رہتے ہیں جیسے ہمیں من و سلویٰ کا ذائقہ مل رہا ہو۔
مگر ذرا رُکیں اور قرآن کھول کر دیکھیں، ہمارا رب ہمیں کیا حکم فرماتا ہے ؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے ” وَ لَا تَجَسَّسُوْا (پ26،حجرات:12) ترجمۂ کنزالایمان: اور عیب نہ ڈھونڈو۔”
آپ ذرا اندازہ لگائیں کہ ہمارا رب جو کُل کائنات کا خالق و مالک ہے جس نے ساری دنیا کو پیدا کیا ہے جس کے علم سے کوئی بھی شے پوشیدہ نہیں ہے،وہ عالم الغیب و الشہادہ ہے، مگر اس کی کرم نوازی اور ستاری تو دیکھئے کہ وہ اپنے بندوں کے عیوب کی نہ صرف پردہ پوشی فرما تا ہے بلکہ پردہ پوشی کا حکم بھی دیتا ہے۔
اور اب محبوب ربِ کائنات تاجدار دو عالم کی بارگاہ میں آئیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:کہ جو اپنے مسلمان بھائی کے عیب تلاش کرے گا اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کے عیب کھول دے گا اور جس کے عیب اللہ عَزَّوَجَلَّ ظاہر کرے وہ مکان میں ہوتے ہوئے بھی ذلیل و رسوا ہوجائے گا۔(ترمذی،ج 3،ص416، حدیث: 2039)
اور ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَہُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ ’’جو شخص کسی مسلمان کی عیب پوشی کرے گا‘اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی عیب پوشی فرمائے گا‘‘
اس لئے ہمیں چاہئے یے کہ اگر کسی کا ایسا ذاتی عیب ہمارے علم میں آجائے جس سے دین یا قوم کا نقصان نہ ملحق ہو تو ہم اس کی پردہ پوشی کریں اور اسے برسرعام رسوا کرنے کے بجائے خود اس سے کہیں اور بطریق احسن سمجھانے کی کوشش کریں ورنہ یہ بات دھیان میں رکھیں کہ جب آپ کسی کو بدنام کریں گے تو قدرت آپ کو بَدنام کر دے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے