نظم

نظم: جاں اپنی یوں گنوا گئی اک اور عائشہ

نتیجۂ فکر: محمد جیش خان نوری امجدی، مہراج گنج یوپی

جاں اپنی یوں گنوا گئی اک اور عائشہ
سب کو ابھی  رلا  گئی اک اور عائشہ

سابر متی میں کود کے اپنوں کو چھوڑ کر
دوزخ  گلے  لگا  گئی  اک  اور عائشہ

سہہ سہہ کے ان کے طعنے  شب و روز کیا کرے
گھر  کا  دیا  بجھا گئی  اک اور عائشہ

کیا رہ گئی کمی تھی جو پورا نہ کرسکی
مرتے  ہوئے  بتا  گئی  اک  اور عائشہ

ماں باپ رورہے ہیں اسے ڈھونڈتے ہوئے
نظریں کہاں چھپا گئی اک اور عائشہ

کیوں بیچتے ہو  بیٹے کو سونے کے بھاؤ میں
سب کو سبق سکھا گئی اک اور عائشہ

لیتے جہیز کیوں ہوامیری کے نام ہر
الزام   یہ  لگا  گئی  اک اور عائشہ

کیسے کروں میں پیار اے نوری بتاؤ تم
ہم کو  یہی بتا   گئی اک اور عائشہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے