سیاست و حالات حاضرہ

بدلتے سیاسی ماحول میں مسلمان کیا کریں؟

تحریر: غلام مصطفیٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی

حیدرآباد بلدیہ انتخاب میں بی جے پی نے لمبی چھلانگ لگائی ۔پچھلے انتخاب میں چار سیٹ جیتنے والی پارٹی اس بار 48 تک پہنچ گئی۔اس الیکشن کے بعد باشعور طبقے کو کچھ چیزوں کے بارے میں اپنی غلط فہمی دور کرلینا چاہیے اور کچھ چیزوں کو فراخ دلی کے ساتھ قبول کرلینا چاہیے۔ابھی تک ایک بڑا طبقہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ بی جے پی ہر الیکشن ای وی ایم کی بدولت جیت جاتی ہے۔لیکن حیدرآباد بلدیہ میں ای وی ایم نہیں بلکہ بیلٹ پیپر سے انتخاب ہوا ،اس کے باوجود بی جے پی نے تاریخی جیت حاصل کرکے یہ ثابت کردیا کہ وہ کسی بھی طرح کے الیکشن کو جیت سکتی ہے۔بی جے پی کی اس کامیابی کے پیچھے کچھ اہم وجوہات ہیں جنہیں سمجھنا بے حد ضروری ہے۔
🔹ملک کے جن علاقوں میں کوئی نامور مسلم حاکم گزرا ہے وہاں کی غیر مسلم عوام اس کے ظالم اور ہندو مخالف ہونے کے بی جے پی پروپیگنڈے پر بہ آسانی یقین کرلیتی ہے۔اس لیے بی جے پی ہر علاقے میں کسی مسلم حاکم کےمتعلق ظلم وستم کے جھوٹے پروپگنڈے شروع کردیتی ہے۔جیسا کہ حیدرآباد میں نظاموں کو لیکر کیا۔
🔹شمالی اور جنوبی ہند کے مابین دھرم، زبان اور کلچر کا بنیادی فرق ہے۔اس لیے عرصہ دراز تک جنوبی ہند فرقہ واریت سے محفوظ رہا لیکن اب بی جے پی ،آر ایس ایس نے جنوبی ہند کے تعلیم یافتہ لوگوں بھی مسلم منافرت کا زہر پلا دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کرناٹک کے بعد اب تلنگانہ میں بھی بی جے پی قدم جماتی جارہی ہے۔
🔹ملک کا اکثریتی طبقہ روزگار اور تعلیم کے بجائے "ہندو راشٹر” کے قیام اور مسلم حکمرانوں کے "مبینہ ظلم و ستم” کا بدلہ لینے کے لیے ووٹنگ کر رہا ہے۔
🔹بی جے پی کی پروپیگنڈہ مشنری اس قدر مضبوط ہے کہ لُٹا پِٹا بے روزگار اور دھکے کھانے والا غیر مسلم بھی کسی پارٹی کی کوئی بات سننے تیار نہیں ہے۔

__بی جے پی ہر الیکشن میں مسلم مخالف ایجنڈا چلارہی ہے اور نام نہاد "سیکولر پارٹیاں” بی جے پی کے پروپیگنڈے کی کاٹ نہیں کر پارہی ہیں یا شاید کاٹ کرنا نہیں چاہتیں؟
بی جے پی الیکشن میں دفعہ 370اور 35Aکی منسوخی ،طلاق ثلاثہ پر پابندی اور یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی بات کرتی ہے۔بھارت کا اکثریتی سماج اس بات پر بے حد خوش ہے کہ پہلی بار ڈنکے کی چوٹ پر اسلامی احکام اور مسلم تہذیب پر پابندیاں لگائی جارہی ہیں۔مسلم شہروں کے نام بدلے جارہے ہیں۔مسلمانوں پر ہندوؤں کا غلبہ بڑھتا جارہا ہے۔ اسی بات سے خوش ہوکر اکثریتی طبقہ بی جے پی کو ووٹ کرتا ہے کہ بی جے پی مسلمانوں کو لگاتار ذلیل کر رہی ہے۔لیکن سیکولر پارٹیاں ان مُدّوں پر بالکلیہ خاموش ہیں یا پھر گھما پھرا کر بات کرتی ہیں۔ان کے طرز عمل سے ایسا لگتا ہے کہ وہ اس "مناسب وقت” کا انتظار کر رہی ہیں جب اکثریتی سماج خود بی جے پی کے ہارڈ ہندتوا سے عاجز آجائے۔اس لیے ساری سیکولر پارٹیاں سافٹ ہندتوا کے ساتھ میدان سیاست میں موجود ہیں۔کوئی بھی سیکولر پارٹی ہندو مسلم کی تقسیم والی سیاست کے خلاف کھل کر نہیں آرہی ہے۔یہ پارٹیاں اپنے ووٹروں کو نرم ہندتوا کی جانب بلا رہی ہیں۔ایسے ماحول میں مسلمان کون سی حکمت عملی اختیار کرے کہ اس کی جان ومال اور دین وایمان بھی محفوظ رہے اور ملک کا ماحول بھی پر امن رہے۔اس سلسلے میں تین بنیادی نظریات ہیں۔
1- بی جے پی کے فاشزم کو روکنے کے لیے سیکولر پارٹیوں کابھرپور ساتھ دیا جائے۔(حالانکہ مسلمان 70 سال سے یہی کر رہے ہیں)
2- دلت اور او بی سی پارٹیوں کو بڑھایا جائے/ان کے ساتھ اتحاد کیا جائے۔(یہ تجربہ بھی پچھلے 30 سال سے جاری ہے لیکن استثنائی فائدے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا)
3-بعض اس بات کے لیے کوشاں ہیں کہ اپنی پارٹی کو مضبوط کیا جائے۔(بہار الیکشن میں مجلس کی کامیابی کے بعد یہ نعرہ مضبوط ہوا ہے۔)
طبقہ اول کی دلیل یہ ہے کہ اگرچہ سیکولر پارٹیوں نے مسلمانوں کو کچھ نقصان پہنچایا ہے مگر زیادہ تر فوائد بھی انہیں کے دور حکومت میں حاصل ہوئے ہیں۔پھر صوبائی اور ملکی سطح پر مسلمانوں کے پاس سیکولر پارٹیوں کے علاوہ کوئی متبادل بھی نہیں ہے اس لیے فاشزم کو روکنے کے لیے سیکولر پارٹیوں کو مضبوط کرنا ہی سب سے بہتر ہے۔ان حضرات کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسلم پارٹیاں ملک کے محدود حصے میں سرگرم عمل ہیں اور وہیں پر کامیاب ہوسکتی ہیں لیکن ان کی تقاریر اور طرز عمل سے ہندو کمیونٹی یکجا ہوکر بی جے پی کو ووٹنگ کرتی ہے۔ بی جے پی کو روکنے کا بہترین راستہ سیکولر پارٹیوں کو بڑھانا ہے تاکہ ووٹوں کا پولرائزیشن نہ ہوسکے۔

__طبقہ دوم کی دلیل یہ ہے کہ سیکولر پارٹیوں کو مسلمان پچھلے 70 سال سے آزماتے آرہے ہیں۔غیر مشروط وفاداری کے باوجود مسلمان پچھڑتا چلا گیا۔اگر یہ پارٹیاں مسلمانوں کے حق میں مخلص ہوتیں تو مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بدتر نہ ہوتی۔ان کا ماننا ہے کہ سیکولر پارٹیاں ہندو اپر کاسٹ کا غلبہ چاہتی ہیں اس لیے اگر دلت پارٹیوں کو بڑھاوا دیا جائے یا ان سے اتحاد کیا جائے تو دلت اور مسلم مل کر ایک بڑی سیاسی قوت بن سکتے ہیں۔دلت سماج صدیوں سے مظلوم رہا ہے۔آزادی کے بعد سے مسلمان بھی ظلم وستم اور اکثریتی سماج کے تعصب ونفرت کا نشانہ بن رہے ہیں۔ایسے میں دونوں مظلوم طبقات ایک دوسرے کے قریب آسکتے ہیں۔طبقہ دوم کا یہ بھی ماننا ہے کہ مسلم پارٹی بنا کر بھی اپنے حقوق حاصل نہیں کیے جاسکتے کیوں کہ مسلم پارٹی کو سوائے مسلمانوں کے کوئی ووٹ نہیں دے گا نتیجتاً چند سیٹوں پر کامیابی کے علاوہ مسلم پارٹی کچھ نہیں کر پائے گی۔

__طبقہ سوم کا یہ کہنا ہے کہ مسلمانوں نے آزادی کے بعد تقریباً 40/50سال تک سیکولر پارٹیوں کو غیر مشروط طور ووٹ کیا۔ہر الیکشن میں بغیر کسی یقین دہانی کے تن من دھن سے سپورٹ کیا لیکن اتنی وفاداری کے باوجود مسلمان حاشیہ پر پہنچا دیا گیا۔سیکولر پارٹیوں کو چھوڑ کر دلتوں اور او بی سی پارٹیوں کو پروان چڑھایا۔جب تک یہ پارٹیاں کمزور رہیں تو مسلمانوں کے حقوق کی بات کرتی رہیں لیکن اقتدار ملتے ہی یہ پارٹیاں بھی اپر کاسٹ ہندو پارٹیوں کی طرح پیش آتی ہیں اور مسلمانوں کو معمولی چیزوں سے بہلا کر اپنا سیاسی پِچھ لَگّو بنائے رکھتی ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ اپنی ہی قیادت کو مضبوط کیا جائے تاکہ مسلمان خود اپنے جمہوری حقوق کی حفاظت کے قابل ہوسکیں۔ان کا ماننا ہے کہ جب تک مسلم قیادت کو مضبوط نہیں کیا جائے گا تب تک کوئی بھی سیکولر، دلت یا او بی سی پارٹی، مسلم پارٹی سے اتحاد نہیں کرے گی۔اتحاد اسی وقت ممکن ہے جب اپنی سیاسی طاقت ہو اس کے بغیر اتحاد کی بات ایک ایسا خواب ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں !!

اگر تینوں ہی طبقات کو مخلص مان لیا جائے تو تینوں ہی کی دلیلوں میں ایک حد تک وزن ہے۔ہاں پہلے دو طبقات کے دعووں میں یہ بنیادی کمزوری ہے کہ مسلمان تقریباً دونوں طبقات کے فارمولوں کو آزما چکا ہے لیکن نتیجہ اچھا نہیں رہا۔طبقہ ثالث کا مطالبہ اس لیے بھی زیادہ مضبوط ہوجاتا ہے کہ ابھی تک اسے مکمل طور پر آزمایا نہیں گیا۔اس طبقے کی یہ دلیل مضبوط ہے کہ ایک بار اگر مسلم قیادت مضبوط ہوجاتی ہے تو دیگر سیکولر اور دلت پارٹیاں خود بخود اتحاد کے لیے مجبور ہوں گیں۔
حالیہ منظر نامے میں بی جے پی کی جارحانہ مہم کی وجہ سے سیکولر پارٹیاں بھی نرم لہجے میں بی جے پی کی ہی بولی بول رہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ راہل گاندھی مندر مندر جاکر اپنا جَنیوو دکھاتے ہیں۔اکھلیش یادو ہر ضلع میں پرشورام کی مورتی لگوانے کی بات کرتے ہیں۔اس کے باوجود اکثریتی سماج انہیں قبول نہیں کر رہا ہے کیوں کہ جب بی جے پی کی شکل میں اصلی ہندتوا کھلاڑی موجود ہے تو ڈپلی کیٹ کھلاڑی پر کیا داؤں لگانا؟اس لیے ہر گزرتے دن یہ پارٹیاں سکڑتی جارہی ہیں اگر یہی ماحول دس سال بنا رہ گیا تو بی جے پی ان پارٹیوں کی ساری سیاسی زمین چھین لے گی۔چار ناچار ان پارٹیوں کو ہارڈ ہندتوا کی جانب ہی لوٹنا پڑے گا۔یہی وہ وقت ہوگا جب فرضی سیکولرزم کے نام پر تھوک کے بھاؤ ملنے والا ووٹ بند ہوجائے گا اور ہندتوا کی وراثت پر گھمسان ہوگا۔
اِس وقت بی جے پی بڑی سہولت کے ساتھ نظریاتی سیاست کر رہی ہے کیوں کہ میدان خالی ہے۔مشہور کہاوت ہے کہ نیتا مرتے دم تک نیتا ہی رہتا ہے۔سیاست کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا اس لیے بخوشی یا بمجبوری اسے ہارڈ ہندتوا اختیار کرنا ہی ہوگا۔ایک بار دیگر پارٹیاں بھی ہندتوا کی سیاست پر اتر آئیں تو جم کر مقابلہ ہوگا۔جب معاملہ اقتدار کا ہوجائے تو سارے نظریات رکھے رہ جاتے ہیں۔اصلی نشانہ اقتدار ہوتا ہے۔اگر آپ کی سیاسی پوزیشن مضبوط رہے تو آپ کے نظریاتی مخالف بھی آپ کے ساتھ اقتدار ساجھا کر سکتے ہیں۔تحریک آزادی کے زمانے میں ہندو مہا سبھا جیسی کٹر مسلم دشمن جماعت، مسلم لیگ کے ساتھ شریک اقتدار رہ چکی ہے۔ماضی کے علاوہ کچھ وقت پہلے کشمیر میں بی جے پی نے اس پی ڈی پی کے ساتھ اقتدار ساجھا کیا جسے پانی پی پی کر کوستی تھی۔اقتدار کے آگے سارے نظریات رکھے رہ گئے۔ہاں ایسے مقام پر آپ کی قیادت کی آزمائش ہوگی اگر قائد نظریاتی طور پر مضبوط ہے تو دشمن کے ساتھ رہ کر بھی اپنے مفادات کا تحفظ کیا جاسکتا ہے اور بہ کمال حکمت دشمن کی طاقت کو کمزور بھی کیا جاسکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے