ازقلم: محمد معراج عالم مرکزی
(مقیم حال شیموگہ کرناٹک)
ذرا سوچئے! آج اگر روس کی جگہ کوئی دوسرا کلمہ گو ملک ہوتا تو سپر پاور امریکہ اور اس کے حلیفوں کا مزاج کیا ہوتا؟ کیا امن عالم کو برقرار رکھنے کے لیے حملہ آور ملک کی لگام کسنے میں تاخیر کرتے؟ جس طرح امن عالم کے نام پر عراق، شام اور افغانستان کے ساتھ کیا؟ آپ یہ نہ سمجھیں کہ میں روسی حملوں سے دو چار "یوکرین” کی مظلومیت کی داستان چھیڑنے جا رہا ہوں۔ ہر گز ایسا نہیں۔ کیونکہ ماضی قریب میں جب مظلوم فلسطینیوں پر ظلم کی آندھی چل رہی تھی تو "یوکرین” بھی دور بیٹھے مزے لے رہا تھا۔ اور آج یہ خود اسی کا سامنا کر رہا ہے۔
روس چونکہ ایک سپر پاور ملک ہے اس کے پاس ہتھیاروں کی بھر مار ہے۔آج اس کی لگام کسنے کے لیے امریکا اور اس کے حلیفوں(NETO) کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ لیکن یہی اگر عراق، ایران،شام، یمن، لیبیا اور افغانستان ہوتا تو امریکہ اپنے حلیفوں کے ساتھ دندناتا ہوا آتا اور اس قدر بمباری کرتا کہ آج کا "ماسکو” کھنڈر بن جاتا۔ اس کی فضا ، کالی گھٹا میں تبدیل ہوجاتی۔ اور امن عالم کے نام پر ہزاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا۔میں یہ نہیں کہہ رہا کہ روس _ یوکرین جنگ کو اور پنپنے دیا جائے اور انسانیت کا خون سر عام بہایا جائے۔ بلکہ میں دعوت فکر دیتا ہوں کہ اس سے اسلامی ممالک کو سبق حاصل کرنا چاہیے کہ امریکہ اور اس کے حلیف کس طرح ان کا استحصال کرتے ہیں؟ اور انہیں اپنے وجود اور ملکی طاقت کے تحفظ کے لئے کس قدر چاق وچوبند رہنا چاہیے۔
اسلامی ممالک میں "عراق” کو ایک بڑی طاقت تسلیم کیا جاتا تھا۔ مگر چونکہ آج کے بےلگام "روس ” کی طرح بھی اس کی ملکی طاقت نہیں تھی۔ جس کی بناء پر امریکہ اور اس کے حلیفوں کے لیے عراق کو کھنڈر بنانے میں دیری نہ لگی۔اگر حقیقتاً عراق، روس جیسا طاقتور ملک ہوتا تو امریکہ سے ایسا ممکن نہیں تھا۔ اور اسی طرح امریکا ، افغانستان کو نیست ونابود کر دینے میں مسلسل اپنی ساری توانائی خرچ کرتا رہا اور افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بھی بجا دی۔ مگر افغانی طاقت و جرأت اور حوصلے کے سامنے آخر کار امریکہ گھٹنے ٹیک دیئے۔ اور اپنی فوج کو واپس منگا لیا۔ لہذا اگر آج بھی اسلامی ممالک کو امریکہ اور اس کے حلیفوں کی غلامی سے آزاد یونا ہے تو اسے افغانستان جیسی قوت و ہمت پیدا کرنی ہو گی اور اپنے آپس میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا ساتھ ہی اپنی ملکی ایٹمی طاقتوں کو بھی مضبوط کرنا ہوگا۔ ورنہ اسے طاقتور ممالک کے مفادات کی بھینٹ چڑھنے میں دیری نہیں لگے گی۔ اور عراق، شام، فلسطین ،یمن، لیبیا، سوڈان اور افغانستان کی تازہ مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔
آج کا "یوکرین "ماضی میں کبھی ” روس” کا ہی حصہ ہوا کرتا تھا۔ مگر اس نے اپنی ساری توانائی "روس ” سے آزادی کی خاطر صرف کر دی۔ اور بدلے میں یوکرین کو آزادی بھی ملی۔ مگر چونکہ صرف آزاد ہونا بڑی بات نہیں ہے بلکہ آزاد ہوکر قائم رہ پانا یہ بڑی بات ہے۔ یوکرین آزاد تو ہوگیا مگر اسے بخوبی معلوم تھا کہ ہمارے پاس مستقبل میں "روس” سے مقابلہ کرنے کی کوئی ایٹمی طاقت نہیں ہے۔ جس کی بناء پر وہ نیٹو NETO (امریکہ، برطانیہ، فرانس سمیت تیس حلیفانہ ممالک کی تنظیم) سے شمولیت کی غرض سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ تاکہ یوکرین کو ایک ملکی طاقت مل سکے اور یوروپین ممالک میں اس کا بھی نام بن سکے۔ مگر روس کو اس "سوچ” سے خدشہ ہونے لگا اور نتیجۃً روس _ یوکرین جنگ کی تصویر سامنے آئی۔ اور مقابلہ اکیلے "یوکرین” کو کرنا پڑا۔
اور یہی حال آج اسلامی ممالک سعودی عرب اور ایران کے ساتھ ہورہا ہے۔ کہ ان کے آپس میں سپر پاور مفاد پرست ممالک تنازعات کو ہوا دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ سعودیہ اور ایران کے درمیان جنگ کا میدان گرم ہو اور وہ اپنی سیاست و لیڈر شپ کی روٹی دور سے سینکتے رہیں۔ نتیجۃً یوکرین کی طرح ان کا بھی جانی مالی نقصان ہو۔ لہذا مسلم ممالک کو یہ گندی سیاست سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اور کسی کے بہکاوے میں آکر کبھی غلط قدم نہ اٹھائیں اس سے بھی بچنے کی ضرورت ہے۔