رد بد مذہباں

ساجد خان دیوبندی کے اعتراضات کا مسکت اور دنداں شکن جواب

باسمہ تعالٰی ونصلی علی نبیہ الاعلی
میں آج اس سوال کے جواب کے درپے ہوں جو ان دنوں دیوبندیوں کی طوفانِ بدتمیزی کا موضوعِ خاص بنا ہوا ہے۔ ان کی طرف سے مسلسل سوشل میڈیا پر ایک ہنگامہ کھڑا کیا جا رہا ہے کہ حسام الحرمین میں جو رشید احمد گنگوہی کی طرف وقوعِ کذب والا فتوی منسوب ہے، اس کا آخر کیا ثبوت ہے؟ یہ فتویٰ کہاں ہے؟ اس سلسلے میں دیوبندیوں کے چند نمایاں اعتراضات درج ذیل ہیں:

یہ فتوی رشید احمد گنگوہی کی کس کتاب میں ہے؟

اگر واقعی یہ فتوی رشید احمد گنگوہی کا ہوتا تو وہ “فتاویٰ رشیدیہ” میں ضرور ہوتا۔ اس میں نہ ہونا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمہ نے محض جھوٹ باندھا ہے۔
3 فتاوی رشیدیہ میں اس کے برخلاف فتوی موجود ہے ۔لہٰذا وہ ثبوت پیش کیا جائے جو یہ ثابت کرے کہ یہ فتوی واقعی رشید احمد گنگوہی ہی کا ہے۔

اور اگر بالفرض تسلیم کر بھی لیا جائے کہ یہ فتوی کسی کاغذ پر لکھا ہوا ہے تو محض کسی تحریر یا خط کی مشابہت کو بنیاد بنا کر اسے قطعی فتوی کہنا سخت ناعاقبت اندیشی ہے۔ چاند کی رویت جیسے مسئلہ میں بھی خط و کتابت کا اعتبار نہیں ہوتا، کیونکہ الخط یشبه الخط تو کیا کفر و اسلام جیسے نازک اور حسّاس معاملے میں ایسی مشتبہ تحریر کو بنیاد بنا کر کسی کے کفر کا حکم لگا دینا انصاف کے دائرے میں آتا ہے؟
اب ذیل میں ان اعتراضات کا مفصل بالترتیب جواب دیاجاتا ہے جس سے حق کے متلاشی راہیاب ہونگے اور دیابنہ ذلیل

اعتراض1
یہ فتوی رشید احمد گنگوہی کی کس کتاب میں ہے؟
جواب
یہ اعتراض ہی کج فہمی اور عناد پر مبنی اور غلط ہے، کیونکہ امام احمد رضا قادری علیہ الرحمہ نے حسام الحرمین میں رشید احمد گنگوہی کے فتویٰ کا حوالہ کسی مطبوعہ کتاب سے نہیں دیا بلکہ اس فتویٰ کی قلمی تحریر کی فوٹو کاپی کا مشاہدہ فرما کر اس کا ذکر فرمایا۔ چنانچہ خود اعلی حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان فرماتے ہیں :
"پھر تو ظلم گمراہی میں اس کا یہاں تک بڑھا کہ اپنے ایک فتوے میں جو اس کا مہری دستخط میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا۔ جوممبی وغیرہ میں بارہا مع ردکے چھپا صاف لکھ گیا کہ جو اللہ سجنہ و تعالی کو بالفعل چھوٹا مانے اور تصریح کرے کہ (معاذ اللہ تعالی اللہ تعالی جھوٹ بولا اور یہ بڑا عیب اُس سے صادر ہو چکا تو اسے کفر بالائے طاق گمراہی در کنار فاسق بھی نہ کہو اسلئے کہ بہت سے امام ایسا ہی کہ چکے ہیں جیسا اُس نے کہا اور بس نہایت کار یہ ہے کہ اُس نے تادیل میں خطا کی”
(حسام الحرمین مع تمہید ایمان ص 15)
پس یہ واضح ہوا کہ اعلیٰ حضرت نے فتویٰ کی فوٹو کاپی کو بنیاد بنایا، اور دیوبندی آج تک اس کا جواب دینے سے قاصر ہیں، صرف صَغریٰ کبریٰ کی شعبدہ بازیاں کر کے اصل بات سے فرار چاہتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت تو فرماتے ہیں: "میں نے اپنی آنکھ سے مہری دستخط والا فتویٰ دیکھا”. اب سوال یہ ہے کہ جب امام نے مشاہدہ کی بنیاد پر بات کی تو اعتراض کی گنجائش کہاں رہتی ہےکہ دکھاؤں کس کتاب میں ہے ؟اور اس فتوی کا فوٹو ہندوستان میں پیلی بھیت شریف اور پاکستان میں دارالعلوم حزب الاحناف لاہور اور دیگر جگہ موجود ہے اور ہمارے اکابر تو صد سال سے للکار رہے ہیں کہ:”آؤ! ہم تمہیں وہی فتویٰ دکھاتے ہیں ” لیکن دیوبندی ہمیشہ کی طرح "جان بچاؤ” کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے فرار اختیار کر لیتے ہیں۔
اب میں وہی قلمی فتویٰ (جس کا امام احمد رضا نے حوالہ دیا ہے) مکمل نقل کرتا ہوں، تاکہ قارئین کے لیے حجت تمام ہو جائے۔ دستخط و مہری فتویٰ یہ ہے :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ما قولكم رحمكم الله – دو شخص كذب باری میں گفتگو کرتے تھے ایک کی طرف داری کے واسطے تیسرے شخص نے کہا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ان الله لا يغفران يشرك به ويغفر ما دون ذالك الخ لفظ ما عام ہے ، شامل ہے معصیت قتل مومن کو ، پس آیت مذکورہ سے معلوم ہوا کہ پروردگار مغفرت مومن قاتل بالعمد بھی فرما دیگا۔ اور دوسری آیت میں ہے من قتل مومنا متعمدا فجزاءه جهنم خالدا – الخ لفظ من عام ہے شامل ہے مومن قاتل بالعمد کو۔ اس سے معلوم ہوا کہ مومن قاتل مومن بالعمد کی مغفرت نہ ہوگی ۔ اس قائل کے خصم نے کہا کہ ۔آپ کے استدلال سے وقوع کذب باری ثابت ہوتا ہے کیونکر آیت میں ویغفر ہے نہ ویمکن ان یغفر یہ سنکر اس قائل نے جواب دیا میں نے کب کہا ہے کہ میں وقوع کا قائل نہیں ہوں۔ اور دوسرا قول اسی قائل کا یہ ہے کہ کذب علی العموم قبیح معنی منافر لطبع نہیں ہے۔اللہ تعالی نے بعض مواضع میں جائز رکھا ہے اور توریہ و عین کذب معنی بعض مواضع میں دونوں اولی ہیں۔ نہ فقط تو ریہ – آیا یہ قائل مسلمان ہے یا کافر ؟ اور مسلمان ہے تو بدعتی ضال یا اہلسنت و جماعت با وجود قبول کرنےکذب باری تعالیٰ کے ۔ بینوا وتوجروا۔الجواب : (رشید احمد گنگوھی صاحب لکھتے ہیں)اگر چہ شخص ثالث نے تاویل آیات میں خطا کی، مگر تا ہم اس کو کافر کہنا یا بدعتی ضال کہنا نہیں چاہئے کیونکہ وقوع خلف و عید کو جماعت کثیرہ علماء سلف کی قبول کرتی ہے چنانچہ مولوی احمد حسن صاحب ، رسالہ تنزیہ الرحمن اپنے رسالہ میں تصریح کرتے ہیں، بقولہ علاوہ اس کے مجوزین خلف وعید وقوع خلف کے بھی قائل ہیں چنانچہ ان کے دلائل سے ظاہر ہے حيث قالوا لانه ليس بنقص بل هو كمال الخ۔ اس سے ظاہر ہوا کہ بعض علماء وقوع خلف وعید کے قائل ہیں۔ اور یہ بھی واضح ہے کہ خلف و عید خاص ہے اور کذب عام ہے کیونکہ کذب بولتے ہیں قول خلاف واقع کو، سووہ گاہ وعید ہوتا ہے گاہ وعدہ گاہ خبر، اور سب کذب کے انواع ہیں اور وجود نوع کا وجو د جنس کو مستلزم ہے انسان اگر ہو گا تو حیوان بالضرور موجود ہو یگا لہذا وقوع کذب کے معنی درست ہو گئے اگر چہ بضمن کسی فرد کے ہو۔ پس بناء علیہ اس ثالث کو کوئی سخت کلمہ نہ کہنا چاہئے کہ اس میں تکفیر علماء سلف کی لازم آ تی ہے۔ ہر چندیہ قول ضعیف ہے، مگر تا ہم متقدمین کے مذاہب پر صاحب دلیل قوی کو تقلیل صاحب دلیل ضعیف کی درست نہیں۔ دیکھو کہ حنفی، شافعی پر اور بعکس بوجہ قوت دلیل اپنی کے طعن و تضلیل نہیں کر سکتا۔ انا مومن انشا اللہ کا مسئلہ کتب عقائد میں خود لکھتے ۔ لہذا اس ثالث کو تضلیل تفسیق سے مامون کرنا چاہئے البتہ بنرمی اگر فہمائش ہو بہتر ہے۔ البتہ قدرة على الكذب مع امتناع الوقوع مسئلہ اتفاقیہ ہے کہ اس میں کسی کا خلاف نہیں۔ اگر چہ اس زمانے میں لوگوں کو ابعاد بیجا ہو گیا ہے۔ قال الله ولو شئنا لاتينا كل نفس هداها ولكن حق القول منى لا ملئن جهنم من الجنة والناس اجمعين الاية – فقط والله تعالى اعلم كتبه الاحقر رشید احمد گنگوهی عفی عنه
نشان مہر:رشید احمد
(عکس فتوی گنگوھی)
اعتراض 2.
اگر واقعی یہ فتوی رشید احمد گنگوہی کا ہوتا تو وہ “فتاویٰ رشیدیہ” میں ضرور ہوتا۔ اس میں نہ ہونا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمہ نے محض جھوٹ باندھا ہے۔
جواب
🌹فتاوی رشیدیہ میں گنگوھی کا سب فتوی موجود نہیں🌹
اس سوال کے جواب میں صرف اتنی گذارش ہے کہ کیا آج کے مطبوعہ فتاوی رشیدیہ میں وہ سب فتاوی موجود ہیں جو انھوں نے اپنی حیات میں لکھے تھے ۔ اگر اس کا جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی ہی ہے تو پھر مطبوعہ فتاوی رشیدیہ میں نہ ہونے سے کہاں لازم آتا ہے کہ یہ فتویٰ ان کا لکھا ہوا نہ ہو۔ فتاوی رشیدیہ گنگوہی صاحب کی وفات کے برسوں بعد جمع کیا گیا ہے۔ اس وقت تک اس فتوے کے زہر یلے اثرات ظاہر ہو چکے تھے۔ تو کیا فتاوی رشیدیہ کے جامع اور شائع کنندہ اپنے مذہب اور اپنے مذہب کے بانی کے دشمن تھے کہ اسے چھاپ دیتے ۔
اور اگر آپ کہیں کہ نہیں، گنگوہی صاحب نے اپنی حیات میں جتنے فتوے لکھے تھے سب اس میں چھپ چکے ہیں تو ہم آپ سے پوچھتے ہیں قادیانی پر کفر والا فتوی فتاویٰ رشیدیہ کے کس صفحہ پر ہے جس کا تذکرہ کرتے ہوئے خلیل احمد انبیٹھوی نے المہند علی المفند ص 82میں لکھا ہے :
"ہمارے مشائخ نے اس (مرزا غلام احمد)کے کافر ہونے کا فتوی دیا قادیانی کے کافر ہونے کے بابت ہمارے حضرت مولانا رشید احمد گنگوھی کا فتوی طبع ہوکر شائع بھی ہوچکا ہے بکثرت لوگوں کے پاس موجود ہے "
اگر دیابنہ قادیانی پر کفر کا فتوٰی رشید احمد گنگوھی کے فتاوی رشیدیہ میں دیکھا دیتے ہیں تو ہم بھی فتاوی رشیدیہ میں اس فتوی کو دیکھا دینگے لیکن ہمیں معلوم ہے ع
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار تم سے
یہ بازوں میرے آزمائے ہوۓ ہے
اعتراض 3
فتاوی رشیدیہ میں یہ فتوی نہیں ہے بلکہ اس میں اس کے برخلاف فتوی موجود ہے ۔لہٰذا وہ ثبوت پیش کیا جائے جو یہ ثابت کرے کہ یہ فتوی واقعی رشید احمد گنگوہی ہی کا ہے۔
جواب
🌹 فتاوی رشیدیہ میں تحریف کی گئ 🌹
یہ سوال اس وقت درست ہوتا جبکہ فتاوی رشیدیہ میں ردوبدل نہ کیا گیا ہوتا مگر بکثرت اس کے نظائر موجود ہے کہ اس میں ردوبدل اور تحریف کی گئ تو اس فتوی کے خلاف مطبوعہ فتاوی رشیدیہ میں ہونا اس کو مستلزم نہیں کہ یہ فتوی ان کا ہو، ہوسکتا ہے کسی دیوبندی نے ان کے نام سے فتوی گڑھ کر اس میں شامل کردیا ہو جیسا کہ دیابنہ کی عادت ہے کہ وہ مکمل کتاب گڑھ کر کسی سنی عالم کی طرف منسوب کردیتے ہے اس کے شواہد رد شہاب الثاقب میں دیکھے جاسکتے ہیں ۔ اور یہ خود کفر کا اقرار ہے کیونکہ اگر کوئ کسی کو گالی دے پھر بعد میں اس کی تعریف کردیں تو تو گالی دینے کی نحوست سے وہ پاک نہیں ہوگا ۔
مزید برآں فتاوی رشیدیہ میں چھپنے کے بعد بھی ردوبدل کیا گیا ہے بطور شہادت دو مثال حاضر ہے
شہادت 1
فتاوی رشیدیہ کے پرانے چھاپے مطبوعہ رحیمیہ ، دہلی میں یہ عبارت تھی : امکان کذب ( جھوٹ ) بایں معنی کہ جو کچھ حق تعالیٰ نے فرمایا ہے ، اس کے خلاف پر قادر ہے، مگر خود اس کو نہ کرے گا یہ عقیدہ بندہ کا ہے۔“
( فتاوی رشیدیه حصه 1 صفحه 10 سطر 19 مطبوعه رحیمیه (دہلی )
یہی فتاوی رشیدیہ کودیوبندیوں کی مجلس عالمی مجلس تحفظ اسلام ، کراچی نے چھاپا تو اس میں سے یہ عبارت ہی غائب کر دی ۔ یہ ہے دیوبندیوں کی جدید تحریف ۔ جب یہ اس طرح ہیرا پھیری کر سکتے ہیں تو کچھ بعید نہیں کہ انہوں نے گنگوہی کے نام سے کفر والا فتویٰ فتاوی رشیدیہ میں ڈال دیا ہو۔ واللہ اعلم ۔
شہادت2
پھر فتاوی رشیدیہ کا وہ فتوی جس میں وقوع کذب کے قائل کو کافر کہا گیا تھا ، اس کے نیچے تاریخ دی گئی تھی1307 اور یہ تاریخ اس فتوی سے پہلے کی تھی جس میں گنگوہی صاحب نے قائلِ وقوع کذب کو کافر و گمراہ کہنے سے منع کیا تھا۔کیونکہ اس فتوی کے نیچےتاریخ 1308تھی جو میڑٹھ سے چھپی تھی ۔جب فتاوی رشیدیہ عالمی مجلس تحفظ اسلام، کراچی نے چھاپا تو انہوں نے فتویٰ کے نیچے سے تاریخ ہی اڑادی تا کہ اہل سنت جو دلیل بناتے ہیں کہ وقوع کذب کی تائید والافتوی بعد کا ہے اور وقوع کذب کو کافر کہنے والا فتویٰ پہلے کا ہے اس کا ثبوت ہی ختم ہو جائے۔
جب فتاوی رشیدیہ میں دیوبندی چھپنے کے بعد ردوبدل کرسکتے ہیں تو کیا چھپنے سے پہلے اپنے اکابر کو کفر سے بچانے کیلئے یہ کام نہیں کیا ہوگا ؟
🌹رشید احمد گنگوھی پندرہ سال تک اپنے کفر سے راضی رہا🌹
اور یہ سوال کہ ہم نہیں مانتے کہ یہ فتوی رشید احمد گنگوھی کا ہے ۔ثابت کریں کہ یہ فتوی رشید احمد گنگوھی کاہی ہے تو اس کے جواب علامہ اجمل القادری فرماتے ہیں :
"اگر ان امور سے بھی قطع نظر کیجئے تو مصنف کو یا کسی دیو بندی کو گنگوہی جی کے اس فتوے سے انکار کرنے کا کوئی حق ہی حاصل نہیں کہ جن کو اس فتوی سے انکار کرنے کا حق تھا وہ صرف ایک گنگوہی صاحب تھے۔ تو گنگوہی صاحب کی حیات ہی میں پہلے یہ فتوی ان کی قلمرو ااور ان کے معتقدین کے شہر خاص میرٹھ میں چھپا اور 1308ھ ہی میں اس کا رد میں رسالہ صيانة الناس مطبع حديقة العلوم میرٹھ طبع ہو کر شائع ہوا ۔ گنگوہی جی نے نہ اس فتوی کا انکار کیا نہ اس رد کا جواب دیا۔ ۔ ۔ لوگ ان کو اس فتوی کی بنا پر کافر کہتے اور اعلان کرتے رہے اور گنگوہی پندرہ سال تک اپنے آپ کو کا فر کہلواتے رہے، بالکل خاموش اور ساکت رہے ، دم سادے پڑے رہے ، اپنی طرف اس فتوی کی نسبت کراتے رہے، اس کا رد کرنے والے رد کرتے رہے، شائع کرنے والے اس رد کو شائع کرتے رہے، اس پر ہر طرف سے ان کے پاس اعتراضات پہنچتے رہے، علماء دین اس فتوے پر حکم کفر دیتے رہے، دنیا بھر میں ان کو اس گستاخی کے شور مچتے رہے لیکن گنگوہی جی نہ کہہ سکے کہ یہ میرافتوی نہیں ، میری طرف اس فتوی کی نسبت غلط اور جھوٹ ہے۔”
(رد الشهاب الثاقب 250، رضا اکیدمی ممبئ)
دیوبندیو!جب خود رشید احمد گنگوھی نے اس فتوی کی نسبت اپنی جانب ہونے سے انکار نہیں کیا اور السکوت کالرضا کا ثبوت دیتا رہا تو تمہارا انکار کیا فائدہ دیگا ؟تمہارا انکارکیا اس کو کفر کے گھاٹ سے نکالنے میں معاون ہوگا ؟
اعتراض 4
اور اگر بالفرض تسلیم کر بھی لیا جائے کہ یہ فتوی کسی کاغذ پر لکھا ہوا ہے تو محض کسی تحریر یا خط کی مشابہت کو بنیاد بناکراسے قطعی فتوی کہنا سخت ناعاقبت اندیشی ہے۔ چاند کی رویت جیسے مسئلہ میں بھی خط و کتابت کا اعتبار نہیں ہوتا، کیوں کہ الخط یشبه الخط تو کیا کفر و اسلام جیسے نازک اور حسّاس معاملے میں ایسی مشتبہ تحریر کو بنیاد بنا کر کسی کے کفر کا حکم لگا دینا انصاف کے دائرے میں آتا ہے؟
جواب
🌹مفتی کا خط مع مہر حجت ہے🌹
اگر دیوبندیو کی یہ بات صحیح مان لی جائیں تو پھر دیوبندیوں کے دارالافتاء سے جاری کئے ہوئے سارے فتاوی غیر معتبر اور لغو اور خود گنگوہی صاحب کا مجموعہ فتاوی ردی کی ٹوکری ۔ ۔ دیوبندیو تمہیں کچھ خبر بھی ہے کہ فقہا نے جن جن لوگوں کے خط کو معتبر مانا ہے ان میں امراء اکابراور مفتی بھی ہیں :۔ رد المختار جلد رابع ص ۳۵ پر ہے :
"يفيد عدم الاقتصار على الصراف والسمسار والبياع بل مثله كل ما جرت العادة فيه في داخل فيه ما يكتبه الامراء و الاكابر ممن يتعذر الاشهاد فاذا كتب وصولا او مكا بدين عليه وختمه بخاتمه المعروف فانه في العادة يكون حجة عليه بحيث لا يمكن الانكار ولوانكر یعد بین الناس مکابرا”
(ترجمہ )اس سے یہ افادہ ہوا کہ صرف صراف دلال بیاع ہی کا خط معتبر نہیں بلکہ جن جن لوگوں کے خط کے حجت ہونے کی عادت جاری ہے سب حجت ہیں۔ اسی میں وہ بھی داخل ہے جو امرا او اور اکابر لکھتے ہیں جنھیں گواہ بنانا متعذر ہوا، اگر وصولیابی کی رسید یا قرض کا دستاویز لکھا اور اس پر اپنی مشہور و معروف مہر کر دی تو اس پر حجت ہے یہی عادت ہے۔ اس سے انکار ممکن نہیں اور اگر انکار کریگا تو لوگوں میں مکابرہ شمار کیا جاۓ گا ۔
نیز اسی میں ص306 پر ہے:
” ان القاضي اذا اشكل عليه الامريكتب الى فقها مصر آخربان المشاورة بالکتاب سنة قديمة في الحوادث”
( ترجمہ )قاضی پر جب کوئی معاملہ مشکل ہو جاۓ تو دوسرے شہر کے فقہا کو لکھے ۔ اسلئے کہ حوادث میں بذریعہ خط باہمی مشورہ سنت قدیمہ ہے۔
🌹الخط یشبه الخط کامحل 🌹
اور یہ کہنا کہ خط خط کے مشابہ ہوتا ہے تو یہ حجت کیسے ہوگا ،تو جواباعرض ہے دیوبندیو آپ کو کچھ خبر بھی ہے کہ فقہاء نے الخط یشبه الخط کہاں غیر معتبر مانا ہے۔ آپ اسے بخوبی جانتے ہیں مگر حیلہ جوئی کے لئے کلمہ حق بول کر باطل مراد نہ لیتے تو کیا کرتے ۔ جناب ! یہ اس وقت ہے جبکہ جس کی طرف خط منسوب ہے وہ انکار کرے ۔ مثلاً زید نے عمرپر کوئی دعوی کیا ۔ عمرو و نے دعویٰ سے انکار کیا۔ زید نے ثبوت میں عمر کی تحریر پیش کی عمر اس تحریری سے بھی انکار کیا، تو وہ تحریر معتبر ہوگی یا نہیں ۔ اس موقع پر فرمایاگیا کہ الخط يشبه الخط –
یہاں پہلے تو یہ بات ثابت کیجئے کہ گنگوہی صاحب نے انکار کیا ہے۔ ہم فقہاء کے ارشاد سے ثابت کر آئے کہ خط مفتی حجت ہے ۔ جب اس فتوی پرگنگوہی صاحب کے دستخط بھی ہیں مہر بھی ہے تو بلا کسی دغدغہ کے ثابت ہے کہ یہ انھیں کا فتوی ہے۔ اور اعلی حضرت کا اس کی طرف نسبت کرنا اورعلماۓ حرمین شریفین کا فتوی کفر دینا بالکل حق اور صداقت پر مبنی ہے اور دیوبندیو کا انکار مکابرہ ہے۔

از قلم محمد عامر فضیل مرکزی رمولوی
متعلم مرکز الدراسات الاسلامیۃ جامعۃ الرضا بریلی شریف
موبائل نمبر :7492077390

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے