از: نازش المدنی مرادآبادی
نزیل حال: شہرِ ٹیپو سلطان میسور کرناٹک
احمدآباد ہند کا تاریخی اور فیضان اولیاء سے سرشار ایک خوبصورت شہر ہے… جسے مدینۃ الاولیاء کا طرہ امتیاز حاصل ہے… جہاں قطب عالم وشاہ عالم جیسی پاک باز روحانی شخصیات آرام فرما ہیں…جہاں صبح وشام حضرت شاہ وجیہ الدین محدث گجراتی قدس سرہ کے علمی و روحانی گلستاں مشام جاں کو عطر بیز کر رہے ہیں۔
یہ بات اس زمانہ کی ہے…جب بندہ ناچیز جامعۃ المدینہ احمدآباد میں زیر تعلیم تھا…جس وقت ایک طالب علم نے یہ پُرمسرت خبر دی کہ آقاے نعمت حضور شیخ الاسلام والمسلمین، رئیس المحققین، سند المفسرین ،عمدۃ المحدثین، مفسر قرآن حضرت علامہ الشاہ مفتی سید مدنی میاں اشرفی جیلانی اطال اللہُ بقاہ ومتعنا اللہ بطول حیاتہ و مدظلہ العالی کا کاشانہ اقدس جامعہ کے بالکل قریب میں واقع ہے… تو خوشی کی انتہا نہ رہی… وہ اس لئے کہ ایک عرصہ سے بندہ ناچیز حضرت سے ملاقات کا خواہاں تھا… مگر ملاقات کی کوئی ایسی سبیل پیدا نہ ہورہی تھی…جس میں حضور مدنی میاں صاحب قبلہ کی زیارت سے باریاب ہو سکیں… جب یہ خوش آئند خبر ملی… تو پھر کیا تھا فقیر نے ہفتہ کے اکثر دن اپنا یہ معمول بنا لیا…. کہ نماز عصر حضور شیخ الاسلام کے کاشانہ اقدس "مدنی مسکن” میں ادا کرتا… بعدہ حضور شیخ الاسلام مسند پر جلوہ افروز ہوتے…اور جو حضرات بیعت ہونے آے ہوتے… ان کو داخل سلسلہ کرتے…اور جو دکھ درد کا مارا آتا…اس کے دکھ مداوا کرتے… اس کے علاوہ نظریں چھکاے استغراقی کیفیت میں بیٹھے رہتے…اس دوران اگر کو سائل کسی مسئلہ کے بابت کچھ پوچھتا… تو طریقہ صحابہ پر عمل کرتے ہوے… خود جواب دینے کی بجاے مناظر اسلام، فقیہ عبقری ،محقق عصر حضرت علامہ مولانا مفتی مطیع الرحمٰن رضوی مضطر پورنوی دام ظلہ العالی کی طرف رجوع کرنے کو کہتے… اس طرح یہ سلسلہ مغرب تک جاری وساری رہتا… اور منگتے دامن مراد کو بھربھرکر واپس ہوتے… یوں سال ،چھ ماہ فقیر حضرت کے علمی شہ پاروں وروحانی فیضان سے مستفیض ومستنیر ہوتا رہا۔
اسی طرح ایک حسن اتفاق یہ بھی ہوا… کہ جامعہ کے کچھ ہی فاصلہ پر امام المحدثین حضرت شاہ وجیہ الدین محدث گجراتی قدس سرہ کا آستانہ بھی مرجع الخلائق ہے… جو مجھ جیسے متلاشی مزاراتِ اولیاء کے لئے ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ تھا….اس بارگاہ ناز میں حاضری کے لئے بھی فقیر نے تقریباً ہر جمعرات کو مختص ومنتخب کر لیا تھا…ششماہی اور سالانہ امتحانات کی تیاری حضرت کے آستانہ پر ہی کرنے کی سعادت حاصل ہوتی تھی…درسی کتب پڑھتے پڑھتے طبیعت اچاٹ ہوجاتی… تو آستانہ پہ رکھی تفسیر اشرفی کا مطالعہ کرنے لگتا….یوں جتنا بھی ممکن ہوتا حضرت کے روحانی فیوض سے زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی پھرپور کوشش کرتا….حضرت محدث گجراتی علیہ الرحمہ کے آستانہ پر فیضان کے دریا آج بھی رواں دواں ہیں…حضرت کے مزار کے پیچھے والے دروازے پر شَکَر پڑی رہتی ہے… اس کی خاص تاثیر یہ ہے کہ لکنت زدہ آگر اس کو آستانہ پر زبان لگا کر چانٹ لے تو بفضل اللہ تعالیٰ شفا یاب ہو جاتا ہے…بتایا گیا کہ بڑے بڑے علماء ومفتیان کرام بھی جب اس دربار میں حاضر ہوتے ہیں… تو اس شَکر سے ضرور فیض یاب ہوتے ہیں….فقیر کو بھی یہ سعادت بارہا حاصل ہوئی ہے…دوسری چیز حضرت کے آستانہ کے متصل مسجد کے حوض کے قریب میں قدرتی طور پانی جاری رہتا ہے… اور کبھی سوکھتا نہیں… لوگ اس متبرک پانی سے بھی فیض یاب ہوتے ہیں… اور ساتھ بھر بھر کے لے جاتے… یہ دو چیزوں تو وہ تھیں جن سے ہر عام وخاص مستفیض ہو رہا ہے…ورنہ روحانی اور علمی فیضان تو اہل طلب پر آج بھی برس رہا ہے۔
جاری۔۔۔۔۔