غزل

غزل: دھندلا چکا ہے آئینہ اعتبار بھی

ازقلم: مختار تلہری

زینت ہے گلستاں کی خزاں بھی بہار بھی
شاخوں سے لپٹے رہتے ہیں گل اورخار بھی

کیسے یقیں کا چہرہ نظر صاف آ سکے
دھندلا چکا ہے آئینۂِ عتبار بھی

ایسا نہیں کہ صرف گریباں ہوا ہو چاک
دیکھا ہے میں نے دامنِ دل تار تار بھی

میں تو ہوا میں ہاتھ ہلاتا ہی رہ گیا
اس نے پلٹ کے دیکھا نہیں ایک بار بھی

کہنے کے با وجود نہ وہ باز آ سکا
حالانکہ تھوڑی دیر ہوا شرمسار بھی

دن ہی نہیں گزارا ہے امیدِ وصل میں
یوں ہی گزر گئی ہے شبِ انتظار بھی

مختار اسکے باب میں کیا عرض میں کروں
دونوں ہی خوشگوار ہیں نفرت بھی پیار بھی

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com