ازقلم: آصف جمیل امجدی{انٹیاتھوک،گونڈہ}
رکن: تنظیم فارغین امجدیہ 2010ء
میرا یہ مشورہ ان احباب کے لیے ہے جو لکھاری و قلم کار بننے کا بیکراں جزبہ دل کے نہا خانے میں رکھتے ہیں۔ پھر بھی یہ کام ان سے نہیں ہو پاتا۔آخر ایسا کیوں۔۔۔۔۔؟ حالانکہ اس دور میں نئے قلم کاروں کا ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی جادوئی ہوا چل پڑی ہے ـ سوشل میڈیا پر دیکھا جائے تو حد نگاہ تک مختلف النوع تحریروں کی شادابی ہی شادابی نظر آتی ہےـ سب سے پہلے تو آپ کو اپنے اندر سے ڈر،خوف و ہراس وغیرہ اس طرح کے جتنے منفی جرثومے ہیں اسے جڑ سمیت نکال کر پھینکنا ہوگا۔ آپ کے پاس جملے کی کمی نہیں ہے۔ کیونکہ ضخیم سے ضخیم کتابیں حفظ ہیں ـ اور یہ بات دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آپ کے دماغ میں بے شمار لفظوں اور جملوں کی کائی لگی ہوئی ہےـ بس آپ کو سب سے پہلے جس پر لکھنا ہے اسکے مواد کا مطالعہ کرنا ہوگا اور اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو دھیرے دھیرے ہی سہی لیکن ضرور عمل میں لانا ہوگا ـ مشقت تو بہت کچھ اٹھانی پڑے گی، جیسے کہ جب آپ پہلی بار کوئی تحریر لکھ لیں گے تو مارے خوشی کے اپنے دوست و احباب تک بھیجنا شروع کردیں گے، اس کے بعد اس انتظار میں رہیں گے کہ ابھی میرا دوست پڑھ کر کچھ تأثر دیگا لیکن ندارد، کئی بار تو تأثر ایسا ملتا ہے کہ دل مرغِ بسمل کی طرح تڑپ کر رہ جاتا ہےـ پھر بھی آپ کو ہمت و جرأت سے کام لینا ہے، کیونکہ اپنے دیرینہ خواب کی خوبصورت تحریروں کی عمارت کھڑی کرنی ہےـ اس کے بعد اس قدر آپ کو خوشی محسوس ہوگی کہ اس کا بدل ملنا مشکل ہوجائے گا۔ یہ میرا اپنا ذاتی تجربہ ہے قلم کار بننے کے اور بھی طریقے ہوسکتے ہیں۔ لیکن سب جاکر مطالعے کی دہلیز پر ہی سر پٹکتے ہیں ـ جب آپ مطالعہ کریں تو تحریر کے ساتھ ساتھ صاحبِ مصنف کے اندازِ تحریر پر بھی عمیق نگاہ رکھیں ۔ مطالعے میں زیادہ تر ماہنامے، رسائل اور اس وقت کے نئے قلم کاروں کی تحریروں کو رکھیں ، ان شاءاللہ جلد ہی دیرینہ خواہش پوری ہوگی اور آپ ایک عمدہ نئے قلم کار بن کر سطحِ قرطاس و قلم پر ابھریں گے۔
★ مطالعہ کے متعلق کچھ اہم جان کاری★
فرانسس بیکن کا کہنا ہے کہ مطالعہ خوشی اور تفریح کے لیے ہوتا ہے، گفتگو کی خوبصورتی، سجاوٹ اور قابلیت بڑھانے کے لیےہوتا ہے،جب مطالعہ مسرت و تفریح کے لیے ہو، تو اس کا سب سے اچھا استعمال تنہائی اور آرام میں ہے، جب مطالعہ خوشی اور گفتگو کی سجاوٹ کے لیے ہو، تو اس کا سب سے اچھا مصرف گفتگو اور عالمانہ خطاب ہوتا ہے، جب مطالعہ قابلیت بڑھانے کے لیےہو، تو اس کا سب سے بڑا استعمال عملی زندگی اور کاروبار میں افتادِ طبع کے مطابق بر وقت فیصلہ کرنا ہے؛ کیونکہ ماہر افراد اپنے علم کا عملی استعمال کر سکتے ہیں اور شاید ایک ایک کر کے کسی خاص معاملے کا فیصلہ کر سکتے ہیں؛ لیکن کسی مسئلے کے بارے میں مناسب اور عمومی مشاورت، منصوبے اور معاملات کا سنبھالناصرف وہی لوگ کر سکتے ہیں، جو پڑھے لکھے ہوں۔ مطالعہ میں بہت زیادہ وقت صرف کرنا سستی اور کاہلی ہے،گفتگو کی آرائش بہت استعمال کرنا تصنع اور بناوٹ ہے اور مکمل طور پر علمی، کتابی اور مطالعاتی بنیادوں پر کوئی فیصلہ کرنا ایک مفکر کا مزاج ہے، کتابیں اور مطالعہ فطرت کی تکمیل کرتے ہیں اور تجربے سے مکمل ہوتے ہیں؛ کیونکہ قدرتی صلاحیتیں قدرتی پودوں جیسی ہوتی ہیں، ان کو بھی مطالعہ کی مدد سے کاٹ چھانٹ اور تراش خراش کی ضرورت ہوتی ہے، مطالعہ بذاتِ خود آگے کا راستہ دکھاتا ہے ،جو وسیع اور غیر واضح ہوتا ہے۔چالاک اور عیار لوگ مطالعہ کو بیکار قرار دیتے ہیں،سادہ لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں اور عقل مند لوگ اس کا استعمال کرتے ہیں؛ کیونکہ یہ کتابیں اپنا استعمال خود نہیں سکھاتیں ؛بلکہ ان کااستعمال کتابوں سے بڑھ کر ایک عقل مندی اور ذہانت ہے اور یہ ذہانت کتابوں سے بھی بڑھ کر اور افضل ہے، جو کہ لوگوں اور زندگی کے مشاہدے سے حاصل ہوتی ہے،مطالعہ کسی کی مخالفت کرنے اور غلط ثابت کرنے کے لیےنہ کیا جائے، نہ ہی اندھا یقین کیا جائے کہ سب کچھ بلا چوں چرا تسلیم کر لیا جائے اور نہ ہی گفتگو اور عالمانہ مواد ڈھونڈنے کے لیے؛ بلکہ سوچنے اور سمجھنے کے لیے مطالعہ کیا جائے۔کچھ کتابیں چکھنے کے لیے ہوتی ہیں، کچھ نگلنے کے لیے اور کچھ چبا چبا کر ہضم کرنے کے لیے، یعنی کچھ کتابیں سرسری ورق گردانی کے لیے ہوتی ہیں،کچھ پڑھنے کے لیے تو ہوتی ہیں، مگر توجہ طلب نہیں اور کچھ مکمل انہماک اور استغراق کے ساتھ پڑھنے کے لیے ہوتی ہیں، جبکہ کتابوں سے کشید کیے ہوئے خلاصے، کبھی کشید کیے ہوئے پانی کی طرح ہوتے ہیں،کبھی پلک جھپکنے کے دوران کی روشنی کی طرح کی کوئی چیز، بے ذائقہ اور بے لطف! مطالعہ ایک فرد کو مکمل اور تیار شدہ آدمی بناتا ہے اور لکھنا ایک بھر پور اور کامل آدمی بناتا ہے؛ اس لیےاگر ایک آدمی کم لکھتا ہے، تو اس کی یادداشت کا عظیم ہونا ضروری ہے، اگر وہ بحث مباحثہ اور گفتگو تھوڑی کرتا ہے، تو قدرتی طور پر
اس کا حاضر دماغ ہونا ضروری ہے، اگر وہ مطالعہ تھوڑا کرتا ہے، تو اس کا چالاک اور فنکار ہونا ضروری ہے؛ تاکہ وہ یوں دکھائی دے کہ وہ سب جانتا ہے،حالانکہ وہ کچھ نہیں جانتا۔ تاریخ کا مطالعہ انسان کو دانا بناتا ہے،شاعری انسان کے تخیل کو پروان چڑھاتی ہے، حساب ذہانت کو پالش کرتا ہے اور عمدہ منزل اختیار کرنے کی صلاحیت سے نوازتا ہے، قدرتی علوم اور فلسفہ ذہنی گہرائی پیدا کرتے ہیں، اخلاقیات کا مطالعہ سنجیدگی پیدا کرتا ہے، منطق، فصاحت اور بلاغت مقابلہ اور مباحثہ کرنے کے قابل بناتے ہیں۔جان لو کہ ذہن کے آگے کوئی رکاوٹ نہیں،اگر ہے بھی ،تو مناسب اور بہترین مطالعہ سے دور کی جا سکتی ہے، جیسا کہ جسم کی کوئی بیماری ورزش اور علاج سے، جیسے باؤلنگ کا کھیل پتھری اور گردوں کی تکلیف کے لیےاچھا ہے، شوٹنگ پھیپھڑوں اور سینہ کے لیے اچھا ہے، چہل قدمی معدہ کے لیے اچھی ہے، گھوڑ سواری دماغ کے لیے اچھی ہے، اسی طرح اگر کسی کا دماغ منتشر ہے(توجہ مرکوز نہیں ہوتی) تو اسے حساب پڑھنے دو؛ کیونکہ حسابی مسئلہ کو ثابت کرنے اور اسے حل کرنے میں معمولی سی توجہ بھی ہٹ گئی ،تو اسے لازماً دوبارہ شروع کرنا پڑے گا، اگر اس کی عقل چیزوں میں فرق اور امتیاز نہیں کرسکتی، تو اسے قرونِ وسطیٰ کے فلسفیوں کے کام اور فلسفہ کا مطالعہ کرنے دو ؛کیونکہ ایسے اعزازی کام وہی کرتے ہیں ،جو ایک عام آدمی کی سمجھ میں نہیں آ سکتے، اگر وہ اس قابل نہیں کہ معاملات کو سلجھا سکے، مسئلہ کو ثابت کرنے اور دلیل دینے کے لیے دوسرے مسئلے کی مثال کو اٹھا سکے، تو اسے وکیلوں کے کیسز پڑھنے دو(تاکہ ایک نکتے سے دوسرے نکتے تک پہنچنے کی قابلیت حاصل کر سکے اور سابقہ تجربے سے مدد لے سکے) تو اس طرح ذہن کی ہر کمزوری اور خامی کا کوئی نہ کوئی علاج مطالعے میں موجود ہے۔(مذکورہ بالا سطور مطالعہ سے متعلق بیکن کے مختلف اقوال واقتباسات کاترجمہ ہے۔ واضح رہے کہ بیکن کے اقوال کا ترجمہ راقم نے بذات خود نہیں کیا ہے۔ بل قارئین کرام کے فائدے کے لیے کاپی شدہ ہے۔) مطالعہ کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ "مطالعہ علم میں اضافے کا سبب ہے، کتابوں کے مطالعہ سے انسان کا ذہن کھلتا ہے۔ روز بروز اس کے علم میں لاثانی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔اس کے ذہن کی گرہیں کھلتی رہتی ہیں۔ علم کا جو خزانہ کتابوں میں ہے وہ پڑھنے والے کے دل و دماغ میں اس کی شخصیت میں سرایت کر جاتا ہے”۔
نوٹ:- میں اس مضمون کو اپنے عزیز از جان دوست مولانا مبارک امجدی مہراج گنجوی کی فرمائش پر لکھا ہوں۔