ازقلم: انصار احمد مصباحی
aarmisbahi@gmail.com / 9860664476
بھارت کا کوئی بھی شہر یا گاوں ہو ، اتر پردیش میں انتخابات ہوں اور وہاں چرچا نہ ہو، یہ نہیں ہوبسکتا۔ انتخابات یہاں ہوتے ہیں ، اس کی باز گشت ملک کے کونے کونے میں سنائی دیتی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پوپی کے باشندے ممبئی ، پونے ، دہلی ، پٹنہ ، بنگلور ، چنئی ، حیدر آباد ، بھوپال ، اندور، چنڈی گڑھ ، جمو ، احمد آباد، سورت ، جے پور ، کلکتہ، رانچی، کٹک اور اڈیشہ سمیت کشمیر سے کیرل تک ملک کے ہر گوشے میں رہتے ہیں؛
بذات خود یہ ریاست اتنی بڑی ہے کہ یہ ملک ہوتا تو برازیل کے برابر یعنی دنیا کا پانچواں سب سے بڑا ملک ہوتا؛
یوپی اپنی زبان ، تہذیب و تمدن اور طور طریقوں سے ملک کی سب سے زیادہ نمایندگی کرتا ہے؛ دیگر ریاستوں کے مقابلے یہاں کے عوام سیاست میں زیادہ دل چسپی لیتے ہیں۔
بلند بانگ دعووں ، رسہ کشیوں اور ”اپنی اپنی ڈفلی ، اپنا اپنا راگ“ جیسی کیفیتوں سے بھی عوام خوب واقف ہو چلی ہے۔ ہر بار کی طرح اس الیکشن میں بھی یہ سوال پیدا ہونا فطری ہے کہ مسلمان اس بار میں کس طرف رخ کرے!
اس میں کوئی شک نہیں کہ یوپی میں مسلمان ووٹ ہی ہار جیت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ آئیے پہلے پس منظر دیکھ لیتے ہیں۔ اب کی بار (2022ء میں) ہواؤں کا رخ بدل گیا ہے۔ حالات پہلے جیسے نہیں رہے۔ لگ بھگ طے ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ بی جے پی ، رام مندر ، این آر سی ، کشمیر کا دفعہ 370 ، پاکستان اور دہشت گردی جیسے جن مدوں کی بنیاد پر اقتدار پر براجمان ہوئی تھی ، وہ سب ہَوا ہو چکے ہیں، زعفرانی پارٹی کے جھوٹے دعووں کی قلعی بھی کھل کر طشت از بام ہو گئی ہے۔ دوسری طرف کانگریس کے سر سے ”پدرم سلطان بود“ کا بخار اتر گیا ہے، پرینکا گاندھی حکومت سازی کے لئے کسی بھی سیکولر پارٹی سے اتحاد کا عندیہ دی چکی ہیں۔ وہیں سماج وادی پارٹی (سپا) میں پہلے کی طرح داخلی انتشار اور خانہ جنگیوں کی شکایات نہیں ہیں، چچا بھتیجے میں تال میل ہے، آر ایل ڈی کے اتحاد کی طاقت بھی پشت پناہ ہے۔ اکھلیش یادو عوام اور حالات کے تقاضوں کے مطابق روزگار ، بجلی ، دلتوں کی ترقی ، تعلیم اور روڈ راستے وغیرہ کی بات کر رہے ہیں۔ جانب دار گودی میڈیا کی کار ستانیوں سے ملک کا بچہ بچہ آگاہ ہو چکا ہے۔ اب انھیں کوئی نہیں سنتا ، لوگ سوشل میڈیا پر چھوٹے چھوٹے غیر جانب دار صحافیوں کی باتیں سننے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ بی ایس پی سپریمو مایاوتی اس بار مکمل دم خم میں نہیں ہیں۔ ایسے میں یہ انتخاب یوپی میں مسلمانوں کی سمجھ بوجھ ، ہوش و حواس اور دور اندیشی کا امتحان بھی ہے۔
اس گھمسان میں اسد الدین اویسی صاحب کی پارٹی ایم آئی ایم پر اکثر تجزیہ نگاروں کا سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ یہ پوپی میں مسلمانوں کے مفاد کے حق میں ہیں یا ان کے لئے نقصان دہ ثابت ہوں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اویسی صاحب ایک دانش مند پڑھے لکھے مسلم لیڈر ہیں ، ان کی نیت میں بھی شک نہیں ؛ پر اتنا ضرور کہنا چاہوں گا کہ وہ چاہتے تو اتر پردیش میں اپنی شبیہ بہتر کر سکتے تھے۔ سب سے زیادہ چونکانے والی بات عام آدمی پارٹی کی ہے۔ یوپی میں کیجریوال سے نقصان کے علاوہ فائدے کی کوئی صورت نظر نہی آتی۔ خیر ، ڈفلی الگ الگ ہے ، راگ اپنا اپنا ہے، ایسے میں راگوں کا بے سرا ہونا یا ڈفلیوں کے ساتھ تال میل نہ ہونا کچھ عجیب نہیں۔
مسلمان اس بار اپنی پرانی غلطیاں نہ دوہرائیں! مسلمانوں کا وزیر اعلی نہیں بننا ہے ، ایسے میں فاتحین کی آنکھوں میں کانٹے بن کر رہنے کی کیا ضرورت ہے! پوچھو تو ہر پارٹی کا لیڈر اعداد شمار میں اپنی اکثریت ثابت کر رہا ہے اور ایسا دعوا کرتا ہے کہ ان کی حکومت بننی طے ہے۔ مسلمان سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بی جے پی کے علاوہ جہاں جس پارٹی کا پلا جھکا ہوا دیکھیں ، اسی کے ساتھ ہوجائیں! خبر دار! اپنے قیمتی ووٹ کو گھر بیٹھے ضایع نہ کریں! پسندیدہ امیدوار کو ووٹ دینا یہ ہمارا سب سے بڑا جمہوری حق ہے۔ آپ کے ایک ووٹ کا فیصلہ ، لاکھوں کی قسمتیں بدل سکتا ہے۔ شاعر انقلاب ، جناب جوشؔ ملیح آبادی کا یہ شعر ہمیں آج بھی بستر غفلت سے اٹھا رہا ہے۔ ؎
اٹھو، چونکو، بڑھو، منہ ہاتھ دھو، آنکھوں کو مل ڈالو
ہواے انقلاب آنے کو ہے ہندوستاں والو !
(مضمون نگار کی راے سے ادارہ یا قارئین کا اتفاق ضروری نہیں)