ازقلم: نازش مدنی مرادآبادی
اسم مبارک:
آپ کا اسم گرامی سید علی حسین اشرفی اور آپ محمد علی حسین تحریر فرمایا کرتے تھے، کنیت ابو احمد ،خاندانی خطاب اشرفی میاں ہے۔ ((حیات مخدوم الاولیاء ص:82))
والد ماجد:
آپ کے والد گرامی کا نام علامہ حاجی سیدسعادت علی الاشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ
ولادت:
آپ کی ولادت۲۲؍ربیع الثانی ۱۲۶۶ھ کو بوقت صبح صادق کچھوچھہ مقدسہ میں ہوئی۔ ((حیات مخدوم الاولیاء ص:82))
خاندانی روایات کی تکمیل:
غسل وغیرہ سے فراغت کے بعد آپ کے والد ماجد حضرت حاجی سید سعادت علی قدس سرہ نے سب سے پہلے خاندان اشرفیہ کی روایت اولی تمام انجام دی کہ آپ کے دست مبارک میں قلم تھمایا اور اسے پکڑ کر دوات میں ڈبویا اور اپنے ہاتھ کے سہارے کاغذ پر ” اسم جلالت ” لکھوادیا۔اس کے بعد آب زم زم میں ملا شہد چٹایا اور حضرت غوث العالم مخدوم اشرف جہاں گیر صمدانی قدس سرہ کے آستانے کا کاجل آپ کی آنکھوں میں لگایا یوں خاندانی روایت کی تکمیل ہوئی۔ ((حیات مخدوم الاولیاء ص:82))
رسم بسم اللہ خوانی:
حضرت مخدوم الاولیا قدس سرہ کا جب سن شریف چار برس،چار ماہ، اور چار دن کا ہوا تو موافق معمول خاندانی حضرت علامہ گل محمد خلیل آبادی علیہ الرحمۃ نےبسم اللہ خوانی کی رسم ادا کرائی۔ ((حیات مخدوم الاولیاء ص:84))
تعلیم و تربیت:
آپ نے مکتب کی تعلیم حضرت علامہ گل احمد صاحب کی خدمت میں رہ خلیل آباد میں حاصل کی۔آپ حضرت مولانا گل احمد خلیل آبادی علیہ الرحمہ کے ۔مکتب کرامت میں تحصیل علم میں مشغول تھے۔کہ آپ کے والد ماجد کبر سنی اور اودھ میں انگریزی راج قائم ہوجانے کی وجہ سے خلیل آباد سے کچھوچھہ مقدسہ تشریف لے آئے۔یہاں اپنے فرزند ارجمند کو حضرت مولانا شاہ امانت علی کچھوچھوی کے سپرد فرمایا موصوف نے بکمال شفقت فارسی کی درسی کتابیں پڑھائیں اس کے بعد ، اورمولانا سلامت علی گور کھپوری اور حضرت مولانا سیّد قلندر بخش کچھوچھوی علیہم الرحمۃ سے تحصیل علم کیا۔ ((حیات مخدوم الاولیاء ص:84&85))
بیعت و خلافت:
۱۲۸۲ھ میں اپنے برادر اکبر قطب المشائخ ،حاجی الحرمین، اشرف الاولیا حضرت شاہ اشرف حسین قد سرہٗ سےمرید ہوکر تکمیل سلوک فرماکر اجازت و خلافت حاصل ہوئی۔علاوہ ازیں سلطان المشائخ، فرد وقت حضرت میاں راج شاہ سوندھوی قدس سرہ العزیز نے (سوندھ شریف ضلع، گڑ گاؤں موجودہ ضلع نوح میوات ) سلسلہ قادریہ زاہدیہ کی اجازت کے ساتھ سلطان الاذکار اور دیگر اذکار واشغال مخصوصہ کی اجازت دی اور ایک دونی عطا فرمائی۔مولانا سید شاہ محمد امیر کابلی نے سلسلہ قادریہ منوریہ کی اجازت سے نوازا، حضرت شاہ آل رسول مارہروی، حضرت شاہ حافظ احمد حسین خان شاہجہان پوری، حضرت شاہ خلیل احمد مخاطب عین اللہ صفی پوری قدس اسرارہم نے بھی اپنے سلاسل کی اجازات عطا فرمائیں۔ ((حیات مخدوم الاولیاء ص:86& تذکرہ علماے اہل سنت ص:189))
ہم شبیہ غوث الاعظم:
محبوب ربانی شیخ المشائخ حضرت سید شاہ ابواحمد محمد علی حسین اشرف اشرؔفی میاں الجیلانی رحمۃ اللہ علیہ حلقہ مشائخ کرام میں احسن الوجوہ ہونے کے بنا پر شبیہ غوث الثقلین سے معروف اور جانے پہچانے جاتے تھے اسی وجہ سے شیخ مارہرہ مقدسہ حضور قدوۃ السالکین مولانا سید شاہ اٰلِ رسول مارہروی علیہ الرحمۃ والرضوان نے اعلی حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ کو شبیہ غوث الثقلین سے یاد فرماتے۔
امام اہل سنت امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کو جب معلوم ہوا کہ ان کے پیرومرشد حضرت اٰلِ رسول علیہ الرحمہ کی طبیعت زیادہ ناساز ہےتو آپ خود بغرض مزاج پرسی مارہرہ شریف تشریف لے گئے ۔ حضرت آلِ رسول علیہ الرحمہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی کو دیکھ کر فرمایاکہ میرے پاس سرکار غوث اعظم علیہ الرحمہ والرضوان کی امانت ہے جسے میں نے اولاد غوث اعظم شبیہ غوث الثقلین مولانا سید شاہ ابواحمد محمد علی حسین اشرفی کچھوچھوی کو سونپنی اور پیش کرنی ہے اور وہ اس وقت شیخ المشائخ محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیاء چشتی رضی اللہ عنہ کے آستانہ پر ہیں محراب مسجد میں ملاقات ہوگی۔چنانچہ امام احمدرضا خاں فاضل بریلوی علیہ الرحمہ دہلی تشریف لائے اور حضرت محبوب الہی علیہ الرحمہ کے آستانہ پر حاضری دی پھر مسجد میں تشریف لائے تو واقعی پیر کی نشان دہی کے بموجب حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ کو محراب ِ مسجد میں پایا اور خوشی سے جھوم اُٹھے اور برجستہ اور فی البدیہہ آپ کی شان میں یہ شعر کہے!
اشرؔفی اے رخت آئینۂ حسن خوباں
اے نظر کردہ و پروردۂ سۂ محبوباں
اے اشرفی میاں سرکار! آپکا چہرہ انور حسن وخوبی کا آئینہ ہے
آپ تینوں محبوبین کے پروردہ اور نظر کردہ ہیں
یعنی محبوب سبحانی غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ
محبوب الہی سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء رضی اللہ عنہ محبوب یزدانی غوث العالم سلطان مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ
پھر عرض مدعاکیا۔ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں نے مارہرہ شریف میں حاضری دی حضرت سید شاہ آلِ رسول علیہ الرحمہ نے سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ کی اجازت اور خلافت بخشی اور یہ فرمایا کہ جس کا حق تھا اس تک یہ امانت پہنچا دی ۔ اس کے بعد حضرت سید شاہ آلِ رسول علیہ الرحمہ کے اعلیٰ حضرت اشرفی میاں خاتم الخلفاء کہلائے۔ ((ماہنامہ اعلیٰ حضرت، نومبر2011))
اعلی حضرت امام احمد بریلوی سے آپ کے باہمی تعلقات:
اعلی حضرت علی حسین اشرفی میاں، اعلی حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ سے بے انتہا محبت فرماتے تھے اور اعلی حضرت فاضل بریلوی بھی حضور اشرفی میاں کو دل وجاں سے چاہتے تھے۔اس محبت و پیار کا ثبوت اس واقعہ سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اعلی حضرت اشرفی میاں جب ٹرین سے سفر فرماتے اور ٹرین بریلی شریف سے گزر رہی ہوتی تو آپ ٹرین میں کھڑے ہو جاتے اور جب تک ٹرین بریلی شریف سے گزر نہ جاتی آپ کھڑے رہتے۔ رفقا پوچھتے حضور کیوں کھڑے ہوئے تو فرماتے :
قطب الارشاد مولانا شاہ احمد رضا خاں صاحب اپنی مسند پر آل رسول کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو گیے ہیں میں نائبین رسول کی تعظیم کے لیے کھڑا ہو گیا ہوں۔
اسی طرح امام اہل سنت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ بھی آپ کا اکرام فرماتے چنانچہ : خلیفہ مفتی اعظم ہند، استاذ القرا حضرت قاری امانت رسول پیلی بھیتی علیہ الرحمہ رقم کرتے ہیں :
استاذ العلما مفتی تقدس علی خان صاحب علیہ الرحمہ نے راقم السطور سے دوسرے سفر حرمین شریفین میں فرمایا: حضرت مولانا شاہ سید علی حسین اشرفی میاں قدس سرہ اکثر وبیشتر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے ملاقات کے لیے تشریف لاتے تو دونوں ایک دوسرے کی دست بوسی کرتے مزید فرماتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ جس مسند پر تشریف فرما ہوتے کسی کو نہیں بٹھاتے تھے، لیکن ایک بار میری موجودگی میں حضور اشرفی میاں اعلیٰ حضرت سے ملنے تشریف لائے تو اعلیٰ حضرت نے ان کو اپنی مسند پر بٹھایا۔ ((تجلیات امام احمد رضا ص: 131 ،مطبوعہ کراچی))
مشاہیر خلفا:
آپ کے خلفا میں ایسی عظیم شخصیات شامل ہیں جن کا اپنے زمانے میں ایک نام تھا۔ چند کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں:
• صدر الافاضل علامہ سید نعیم الدین مفسر مرادآبادی علیہ الرحمہ
• امام المحدثین علامہ سید دیدار علی شاہ محدث الوری علیہ الرحمہ
• مفتی اعظم پاکستان علامہ سید ابو البرکات شاہ علیہ الرحمہ
• تاج العلماء مفتی محمد عمر نعیمی مرادآبادی علیہ الرحمہ
• بحر العلوم، مفتی اعظم آگرہ مفتی عبد الحفیظ حقانی علیہ الرحمہ
• مبلغ اسلام علامہ عبد العلیم میرٹھی علیہ الرحمہ
• رئیس اڑیسہ حضور مجاہد ملت علامہ حبیب الرحمٰن علیہ الرحمہ
• شہزادہ اعلیٰ حضرت، حجۃ الاسلام علامہ حامد رضا خان علیہ الرحمہ
• رکن ملت علامہ شاہ رکن الدین الوری علیہ الرحمہ
• فقیہ اعظم ہند، استاذ الفقہا، علامہ مفتی عبد الرشید خان فتح پوری ثم ناگ پوری علیہ الرحمہ
• امین شریعت ،مفتی اعظم کان پور علامہ سید رفاقت حسین شاہ کان پوری علیہ الرحمہ
• رئیس المحققین علامہ سید سلیمان اشرف علیہ الرحمہ
• صدر العلماء علامہ سید غلام جیلانی محدث میرٹھی علیہ الرحمہ
• جلالۃ العلم حضور حافظ ملت علامہ عبد العزیز محدث مرادآبادی ثم مبارک پوری علیہ الرحمہ ((حیات مخدوم الاولیاء ص:251))
وصال پر ملال:
11/رجب المرجب،1355ھ میں آپ کا وصال ہوا مرقد مبارک درگاہ سلطان التارکین مخدوم جہانگیر سید اشرف سمنانی(کچھوچھہ مقدسہ اترپردیش ہند) کے قریب میں مرکز تجلیات ہے۔ ((تذکرہ علمائے اہل سنت ص: 190))