کرامات شیخ اعظم کچھوچھوی
- شرابی کاجسم قبر میں سلامت رہا
۲۰۰۱ء میں ممبئی کی جامع محمدی مسجد کر لا میں حضور شیخ اعظم نے جمعہ کی امامت فرمائی۔ اس مسجد کے امام مولانا عابد اشرفی تھے۔ اسی دن کر لا میں ایک مشہور شرابی شخص کا انتقال ایکسیڈنٹ میں ہو گیا۔ نماز – جمعہ کے بعد اس شخص کی لاش کو جیسے تیسے غسل دیا گیا۔ کیوں کہ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے اس کے جسم کے چیتھڑےاڑ گئے تھے۔ یہاں تک غسل کے بعد جب اسے کفن پہنایا گیا تو کفن بھی خون آلود ہو گیا۔ حضور شیخ اعظم سے اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے درخواست کی گئی۔ حضرت نے نماز جنازہ پڑھائی اور اسے کر لا قبرستان میں سنی مسلم قبرستان کرلا) میں دفن کیا گیا۔ حضرت نے اس شرابی کی قبر پر کھڑے ہو کر اس کے لئے دعائے مغفرت کی۔ اس کے بعد مولانا عابد صاحب نے گورکن مشتاق احمد کو تنبیہ کی کہ خبردار اس قبر کو نہ کھودنا کیوں کہ یہ قبر مریدین سلسلہ اشرفیہ لئے ایک یادگار ہوگئی ہے کہ اس شخص کی نماز جنازہ ہمارے پیر مرشد حضرت سید شاہ اظہار اشرف سجادہ نشین سر کار کلاں نے پڑھائی ہے، کر لا کے مریدین اس شرابی شخص کے مزار پر فاتحہ پڑھنے اکثر جایا کرتے تھے۔
اس واقعے کے ٹھیک 4 سال کے بعد گورکن مشتاق احمد نے کسی میت کے لیے جب اس شرابی کی قبر کھودی تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ شرابی کی لاش بالکل تروتازہ ہے، جسے چار سال پہلے دفن کیا گیا تھا اور کفن بھی اسی طرح خون آلود ہے جیسے ابھی ہی اسے دفن کیا گیا ہو اور اس کا خون ابھی بھی رس رہا ہو۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور لوگوں کا ہجوم دیکھنے کے لئے امنڈ پڑا۔ کر لا کے ہزاروں لوگوں نے اپنے ماتھے کی آنکھوں سے شرابی کی لاش کو بالکل ترو تازہ و سالم دیکھا۔ اسے دیکھنے والوں میں سینکڑوں لوگ وہ بھی تھے جو کہ اس شرابی کی نماز جنازہ میں شامل تھے۔ مولانا عابد اشرفی نے بھی اس شرابی کی لاش کو اپنے ماتھے کی آنکھوں سے تر و تازہ دیکھا۔ اس وقت حضرت شیخ اعظم مبئی میں ہی زیر علاج تھے۔ مولانا عابدنے اسی روز یعنی ۱۷ رمضان ١٤٢٥ھ کو یہ واقعہ حضرت کو سنایا۔ کچھ دیر تک حضرت نے اپنی آنکھیں بند کیں اور پھر مسکراتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کو سینے تک اٹھایا اور پھر دائیں بائیں ہلانے لگے۔ جیسے کسی کو سہلارہے ہوں۔ حضرت نے اللہ کا شکر ادا کیا اور فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس گنہ گار بندے کی لاج رکھ لی۔
جب ایک گنہ گار شرابی کی نماز جنازہ ایک آل رسول ولی کامل شیخ کامل پڑھا دیں تو اس کا یہ حال کہ 4سال کے بعد بھی اس کی لاش بالکل تر و تازہ و سلامت ہے تو اولیاء کرام اور انبیاء کرام کے جسم پاک کو زمین کس طرح نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اس واقعہ سے لوگوں کو اپنی اصلاح کر لینی چاہیے۔(بحوالہ شيخ اعظم نمبر172مئی 2012ء)
سبحان الله
ماشاءاللہ
کیاشان ہے مرشدکریم، حضورشیخ اعظم حضرت علامہ ومولانا سید شاہ محمد اظہار اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی رحمتہ اللہ علیہ کی۔ الله پاک ان کے مرقد انور پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے اوران کے فیضان سے اہلسنت کو مالامال فرمائے۔
(آج 1، ربیع الآخر ہے۔ حضور شیخ اعظم کی تدفین 1، ربیع الآخر ہی کوہوئی تھی۔ جبکہ وصال کی تاریخ ، ٢٩، ربیع الاول ہے۔
- کرامت نمبر (2)
از قلم: صاحب تصانیف کثیرہ حضرت علامہ مفتی محمد شبیرپورنوی
شیخ اعظم حضرت علامہ ومولانا سید شاہ محمد اظہار اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی رحمتہ اللہ علیہ کشنگنج ضلع کے بہادرگنج علاقہ میں کسی جلسہ میں شریک تھے۔
قیام گاہ سے متصل ایک وہابی مولوی آپ کو دیکھ کریہ بکنے لگا کہ لوگ ان کو سید کہتے ہیں لیکن یہ سید نہیں ہیں بلکہ خان یا کوئی نیچے خاندان سے ہونگے۔چونکہ جو سید ہوگا اسے آگ نہیں جلائے گی وغیرہ وغیرہ ۔ اتنے میں یہ آواز حضرت کے گوش مبارک تک پہونچی اور برہم ہو کر آپ نے فرمایا کہ ارے او خبیث ! تو کیا بکتا ہے؟ میں سید نہیں ہوں اور آگ مجھے جلائے گی ؟ جہنم کی آگ تم بعد میں دیکھنا ۔ پہلے دنیا کی آگ دیکھ لے؟ تھوڑے فاصلہ پر خادم کافی دیر سے اسٹوپ جلا کر چائے یا کوئی دوسری چیز تیار کر رہا تھا۔ اس کے بیچ کا حصہ نہایت سرخ و گرم تھا۔ آپ کھڑے ہو گئے اور بیچ والے حصہ کو کافی دیر تک ہاتھ سےپکڑ کر یہ کہتے رہے کہ *دیکھ لو؟ میں سید ہوں سید!* اسٹوپ جلتا رہا اور آپ آگ پر ہاتھ رکھ کر یہ کہتے رہے۔ بالآخر وہ دیوبندی مولوی قدموں میں گر گیا اور معافی مانگنے لگا اور توبہ کر کے ہمیشہ کی غلامی میں وہ خود بھی داخل ہوا اور اس کے تمام ہم نوا بھی داخل ہو گئے*۔ آغاز جوانی سے ہی آپ نے علاقہ کا دورہ شروع کیا اور عیش و آرام کیا چیز ہے؟ اس کا آپ نے قطعا خیال نہیں کیا بلکہ اکثر بیل گاڑی سے سفر کرتے اور موقع پڑنے پر پیدل بھی چلا کرتے ۔ دین و سنیت کی ترویج و اشاعت اور تبلیغ و احیاء دین میں ہر طرح کی تکلیف برداشت کرنے کے لئے آمادہ رہتے ۔ اس طرح بہت ساری کرامتوں کا ظہور آپ کی ذات مبارکہ سے ہوا۔ یہ بطور نمونہ حاضر خدمت ہے۔(بحوالہ شيخ اعظم نمبر185 مئی 2012ء)
- حضور شیخ اعظم نے خواجہ غریب نواز کا دیدار کیا تھا
حضور شیخ اعظم کو بچپن سے ہی حضور خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ سے بہت زیادہ قلبی لگاؤ تھا ، حضرت نے اپنی زبان مبارک سے ناچیز کو غریب نواز کے دیدار کے متعلق ایک واقعہ سنایا تھا اسے قلمبند کر رہا ہوں۔
مخدوم العلماءحضور شیخ اعظم حضرت علامہ ومولانا سید شاہ محمد اظہار اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی رحمتہ اللہ علیہ نے حضور خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ کے دیدار کی خواہش میں اجمیر شریف میں جوانی کے عالم میں چالیس روز کا چلہ کیا تھا۔ چلے کے دوران حضرت پابندی سے نماز تلاوت، ذکر واذکار میں مشغول رہتے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ۳۹ روز گزر گئے اور چالیسواں دن شروع ہو گیا۔ ان دنوں میں شیخ اعظم علیہ الرحمہ نے روزانہ ہی مشاہدہ کیا کہ سائل آتا اپنی مراد میں جلد پا کر خوشی خوشی لوٹتا ، حضرت نے بارہا یہ مشاہدہ کیا کہ چور، شرابی ، طوائف وغیرہ آتے اور بہت جلد ہی اپنی مرادیں پا کر روانہ ہوتے اور حضرت شیخ اعظم علیہ الرحمہ کو نماز، ذکر، تلاوت، کرتے چالیسواں روز شروع ہو چکا تھا اور ابھی تک حضرت خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ کا دیدار نصیب نہیں ہو سکا تھا، اس بات کو لے کر آپ غمگین ہو گئے اور ذکر وفکر کرتے انا ساگر کی طرف جا کر ایک جگہ اداس بیٹھ گئے اور ذکر و فکر
میں مشغول ہو گئے۔ کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ ایک بزرگ تشریف لائے اور انہوں نے شیخ اعظم سے پوچھا بیٹا کیا بات ہے بہت غمگین بیٹھے ہو۔ حضرت نے جواب دیا کہ بابا میں چالیس روز سے حضور غریب نواز کے دیدار کے لئے چلہ کشی کر رہا ہوں۔ ان چالیس دنوں میں زیادہ سے زیادہ ذکر خدا میں مشغول رہا، لیکن ابھی تک مجھے دیدار نصیب نہیں ہوا۔ ان دنوں میں ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ خواجہ کے دربار میں سائل آتا اوراپنی مرادیں جلد پا کر لوٹتا یہاں تک جواری، شرابی ، طوائف وغیرہ بھی جلد مرادیں پا کر لوٹے اور یہ فقیر ابھی تک دیدار سے محروم ہے۔حضور شیخ اعظم علیہ الرحمہ کا جواب سن کر وہ بزرگ فرمانے لگے کہ بیٹا جب کوئی گنہ گار سوالی آتا ہے اور سوال کرتا ہے تو مجھے ان کا زیادہ دیر میرے در پر ٹہرنا پسند نہیں آتا اس لئے ان کی مرادوں کو جلد پورا کر دیتا ہوں اور مجھے تمہارا نماز پڑھنا، تلاوت کرنا، اللہ کا ذکر کرنا بہت ہی پسند آیا اس لئے میں نے تمہیں دیدار کرانے میں تاخیر کی تا کہ تم زیادہ سے زیادہ میرے قریب رہ کر اللہ کا ذکر کرسکو۔ اس کے بعد حضرت خواجہ صاحب نے اپنا کرتا مبارک اٹھا کر اپنی پشت دکھائی جس پر پنجے کا نشان بنا ہوا تھا۔ اس کے تھوڑی دیر بعد وہ بزرگ ( حضرت خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ ) غائب ہو گئے ۔ اس طرح خواجہ صاحب نے اپنے ایک عاشق کو دیدار نصیب فرمایا۔(بحوالہ شيخ اعظم نمبر175 مئی 2012ء)
الله پاک حضرت شیخ اعظم علیہ الرحمہ کے صدقے میں ہمیں بھی حضرت خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ کے فیضان سےمالامال فرمائے۔اور دارین کی خوشیاں نصیب فرمائے
آمین بجاہ اشرف الانبیاء والمرسلینﷺ۔
عظیم خدمات دین حضور شیخ اعظم کچھوچھوی
از: مولانا غلام جابر شمس مصباحی، پورنوی، مرکز برکات رضا، میرا روڈ ممبئی
خانواده اشرفیہ کچھوچھہ مقدسہ اور شہر سلونہ پورنیہ کا بڑا قدیمی رشتہ ہے۔ یہ رشتہ کوئی چھ سات صدیوں پرانا ہے۔ تاریخ کی پرت اٹھا کر دیکھئے تو ایک خوشگواری حیرت ہوگی۔ جب مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ ترک بادشاہت فرما کر اپنے پیر و مرشد حضرت مخدوم علاء الحق پنڈوی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں پنڈوہ شریف پہونچے تو اس وقت کا پنڈ وہ قدیم سر کار پورنیہ کا اٹوٹ انگ تھا۔ پھر وہاں سے مخدوم پاک کو ان کے پیر و مرشد نے کچھو چھ روانہ کیا کچھوچھہ اس وقت کچھ اچھا نہیں تھا بلکہ ایک غیر معلوم نامشہور دیہاتی جنگلاتی خطہ تھا۔ حضرت مخدوم اشرف کی آمد نے اس کی شہرت پاتال سے اٹھا کر آکاش تک پہونچادی۔ مخدومی فیضان سے سارا جہاں سارا زمانہ فیضیاب ہوا ۔ حضرت شیخ اعظم سید اظہار اشرف اشرفی علیہ الرحمہ اسی خانوادہ اشرفیہ کے چشم و چراغ تھے۔
ہمارے علاقے مثلا کٹیہار، کشن گنج ، اتر دینا جپور، پورنیہ وغیرہ میں پاسبان ملت علامہ مشتاق احمد نظامی علیہ الرحمہ کی خطابت اور شیخ اعظم کی تربیت وارشاد نے بڑا کام کیا۔ یہ۱۹٦٢ء تا ۱۹۷۵ء کی بات ہے پورنیہ کٹیہار، کشن گنج ، اتر دینا جپور میں آج بھی سرکار محدث اعظم ہند اور حضور شیخ اعظم سید شاہ اظہار اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ کے مریدین بکثرت موجود ہیں۔ اور بزبان حال یہ کہ رہے ہیں۔
وہ ہستیاں کہاں گئیں یا رب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہیں ۔ (شيخ اعظم نمبر342 مئی ۲۰۱۲ء)
الله پاک حضرت شیخ اعظم علیہ الرحمہ کے فیضان سے ہم سب کو مالامال فرمائے۔
ازقلم: غلام رسول سعدی آسوی،ارشدی کٹیہاری، مقیم بلگام کرناٹک
8618303831