خانوادۂ اشرفیہ

سیرت حضور شیخ اعظم کچھوچھوی

نام: سید اظہار اشرف، کنیت: ابوالمحمود، القاب:شیخ اعظم، مخدوم العلماء،سیف بغداد، صدر المشائخ۔

پیدائش:٦، محرم الحرام ۱۳۵۵ھ بمطابق 2مارچ 1936ء، بمقام کچھوچھہ مقدسہ
تعلیم:ابتدائی تعلیم درجہ پنجم تک جامعہ اشرفیہ کچھوچھہ مقدسہ میں حاصل کی، اعلیٰ تعلیم کے لئے الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور میں داخلہ لےکر 1957ءمیں فراغت حاصل کی۔

اساتذہ کرام:
حضور حافظ ملت حضرت مولانا عبدالعزیز اشرفی محدث مرادآبادی ثم مبارک پوری، حضرت مفتی حبیب اللہ نعیمی اشرفی، حضرت مولانا عبدالرؤف مبارک پوری، حضرت مولانا سلیمان اشرفی، حضرت مولانا ظفر ادیبی مبارک پوری علیہم الرحمہ۔وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

تدریسی خدمات:
الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور میں معین المدرسین کی حیثیت سے درس دیا۔ اس کے بعد جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں تقریبا ساڑھے تین سال اعزازی تدریسی خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد والد گرامی حضور سرکارکلاں کے مشاغل و خانقاہ کی تعمیر و ترقی میں لگ گئے۔(1شیخ اعظم نمبر 124/125)

اولاد: ایک شہزادی اور تین شہزادے ہیں۔
سب سے بڑے شہزادے قائدملت سفیر امن و محبت حضرت مولاناسید محمد محمود اشرف اشرفی جیلانی ہیں۔(سجادہ نشین آستانہ عالیہ اشرفیہ حسنیہ سرکار کلاں کچھوچھہ۔

حج بیت اللہ: 1976ء میں حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے۔ وہاں مدینہ منورہ میں کئی اعمال و وظائف بھی کئے یہی وجہ تھی کہ ان کی تعویذات ودعامیں اللہ تعالیٰ نے کافی تاثیر دی تھی۔
اہلِ قلم تحریر فرماتے ہیں:
اشرفی بزرگ حضورشیخ اعظم حضرت علامہ مفتی سید شاہ محمد اظہار اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ آپ بہت ساری خوبیوں کے مالک تھے دینی خدمات بھی عالم اسلام میں پھیلی ہوئی ہیں ، نہ جانے کتنے سلسلوں سے اکثر اوراد و وظائف کا آپ باضابطہ اسلاف کے طریقے پر چلاکشی کیے ہوئےتھے آپ کے وجود مسعود کا عالم نہ پوچھیے زبان تو جیسے سیف ہو،آپ نے حجامت بنوایا تو سرکے بال جس کمرے میں رکھے ہوئے تھے وہاں جنات کے آنے کی مجال نہ تھی احوال و کوائف سے یہ راز افشا بھی ہوئے۔

بیعت و ارادت
اپنے والد گرامی حضور سرکار کلاں سیدنا ومولانا سید محمدمختار اشرف اشرفی سجادہ نشیں آستانہ عالیہ حسنیہ اشرفیہ کچھو چھہ مقدسہ، کے دست حق پرست پر سلسلہ عالیہ قادریہ چشتیہ اشرفیہ میں بیعت ہوکر ان کے ولی عہد وجانشین نامزد ہوئے۔

دینی خدمات
جامع اشرف کاقیام، مولانا احمد اشرف ھال، مختا اشرف لائبریری، مسجد اعلیٰ حضرت اشرفی، اشرف حسین میوزیم، اظہار اشرف کمپیوٹر سینٹر، آستانہ اعلیٰ حضرت اشرفی، آستانہ سرکار کلاں، خانقاہ اشرفیہ حسنیہ سرکار کلاں کی توسیع، سینکڑوں مدارس اہلسنت کے قیام و سرپرستی، ادبی کارنامے، تقاریب ختم بخاری شریف، وغیرہ۔
مختار اشرف لائبریری
حضور شیخ الاسلام والمسلمين حضرت علامہ مفتی محمد مدنی میاں اشرفی جیلانی فرماتے ہیں:
میں اپنی فیروز بختی پر کتنا ہی ناز کروں کم ہے کہ آج آبروئے خانوادہ اشرفیہ حضرت شیخ اعظم دامت برکاتہم القدسیہ کی معیت میں مختار اشرف لائبریری کی تفصیلی زیارت کی سعادت حاصل ہوئی۔ لائبریری کی زیارت سے فارغ ہو کر عالم خیال میں لائبریری کو مخاطب کرکے عرض کیا،
بسیارخوباں دیدہ ام
لیکن توچیزے دیگری
یونہی شیخ اعظم کو ذہن میں حاضر کرکے بول پڑا:
تونے پیری میں کئے کام جواں سالی کے
کتنی مضبوط وتوانا ہے نقاہت تیری

پروفیسر سید امین میاں برکاتی مارہروی دام ظلہ العالی فرماتے ہیں :
*”میرا تعلق چونکہ ایک یونیورسٹی سے رہا ہے اس لئے میں بلاخوف تردید کہ سکتا ہوں کہ کسی یونیورسٹی میں اسلامی علوم وفنون پر ریسرچ کرنےوالوں کے لئے ایسی بیش بہا کتابیں جو مختار اشرف لائبریری میں ہیں، نہیں ملیں گی،،۔ (شیخ اعظم نمبر ج 1،ص128)
پروفیسر عبدالحامد شعبہ اردو الہ آباد یونیورسٹی لکھتے ہیں: ” راقم نےمختار اشرف لائبریری سے استفادہ کیا بلاشبہ (مختار اشرف لائبریری) غیر معمولی اور انتہائی اہم کتب کا ذخیرہ ہے،،۔ (شیخ اعظم نمبر ج 1،ص128)
حضرت علامہ عبدالحکیم شرف قادری لاہور پاکستان فرماتے ہیں:” جامع اشرف کی عظیم (مختار اشرف) لائبریری کی زیارت سے اتنی مسرت حاصل ہوئی جسے بیان نہیں کیا جاسکتا،،۔ (شیخ اعظم نمبر ج 1،ص128)

تبلیغی دوربے
آپ کی تبلیغی دورے کا دائرہ ایشیا سے یورپ تک پھیلا ہواہے۔ ہندوستان میں بہار، یوپی، جھارکھنڈ، بنگال، مہارشٹر، راجستھان، پنجاب اور گجرات وغیرہ میں آپ کی تبلیغی دوروں سے ہزاروں تعداد میں لوگ غلط عقائد سے تائب ہوکر سنیت میں داخل ہوئے۔ بلکہ بہار کے بعض علاقوں میں سنیت کی اشاعت آپ ہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ خصوصاً کٹیہار، پورنیہ، کشنگنج اور ارریہ کے علاقے میں۔
(شیخ اعظم نمبر ج 1،ص130)

مشائخ بریلی و کچھوچھہ کے تعلقات

حضور شیخ اعظم حضرت علامہ مفتی سید شاہ محمد اظہار اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ کے والدگرامی سرکار کلاں کےنام مکتوب ریحان ملت بریلی شریف:

مکتوب گرامی حضرت علامہ ریحان رضا خاں علیہ الرحمہ سجادہ نشیں آستانہ عالیہ رضویہ بریلی شریف بنام ،حضور سرکار کلاں سجادہ نشیں آستانہ عالیہ حسنیہ اشرفیہ کچھو چھہ مقدسہ
محترم المقام تقدس مآب حضرت شہزادۂ غوث الثقلین سجادہ نشیں دامت برکاتھم العالیہ –
مؤدبانہ قدم بوسی عرض!
حضور والا نے خانوادۂ رضویہ پر کرم فرمایا کہ حضرت جد امجد مفتی اعظم علیہ الرحمۃ و الرضوان کے جنازے میں شرکت فرما کر نماز جنازہ پڑھائی –
احترام سادات و اولاد حضور غوث الثقلین رضی اللہ تعالی عنہ خانوادۂ رضویہ کا طرۂ امتیاز رہا اور حضور مفتی اعظم ہند کی خواہش بھی یہی تھی کہ ان کی نماز جنازہ کوئی آل رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم ادا فرمانے کی زحمت گوارہ فرمائے – حضور والا کی تشریف آوری دوہرے سعادت کا باعث ہوئی کہ حضور مفتی اعظم ہند کی نماز جنازہ نہ صرف آل رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم نے بلکہ شہزادۂ غوث الثقلین رضی اللہ عنہ نے ادا فرمائی-
خانوادۂ رضویہ اس کے لیے حضور والا کے بے حد ممنون ہیں۔( ماہ نامہ استقامت ‘ مفتی اعظم نمبر ماہ رجب المرجب 1403ھ مطابق مئ 1983ء مدیر اعلی ظہیر الدین قادری )

حجۃ الاسلام اور سادات کچھوچھہ کا احترام

شہزادہ امام احمد رضا حضرت علامہ حامد رضا خان بریلوی المعروف حجۃ الاسلام علیہ الرحمہ کا خانوادہ اشرفیہ کچھوچھہ مقدسہ کے مشائخین سادات عظام کے ساتھ بڑے گہرے تعلقات تھے اور خانقاہ اشرفیہ کچھوچھہ مقدسہ کے مشائخین کی دعوت پر آپ علیہ الرحمہ بریلی شریف سے کچھوچھہ شریف حاضر ہوتے تھے اور سادات کچھوچھہ مقدسہ کے بچے بچے کا اس انداز میں اکرام و احترام کرتے تھے کہ آپ کے اندازے اکرام و احترام کو پڑھنے اور سننے کے بعد یقیناً ذہن و دماغ میں اعلی حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمہ کی ذات محبت سادات کے تعلق سے گردش کرنے لگتی ہے اور جیسا کہ مشہور و معروف ہیکہ اعلی حضرت امام احمد رضا اور اعلی حضرت اشرفی میاں :اعلی حضرت امام احمد رضا اور محدث اعظم ہند سید محمد اشرف :اور اعلی حضرت امام احمد رضا اور واعظ لاثانی علامہ احمد اشرف) علیہم الرحمۃ والرضوان(کے درمیان کتنے گہرے تعلقات و روابط تھے اور کس قدر ایک دوسرے سے عقیدت و محبت اکرام و احترام کرتے تھے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو سورج کی طرح روشن ہے جسکا انکار نہ کریگا مگر) جاہل یا فسادی(خیر اب ملاحظہ کریں کہ شہزادہ امام احمد رضا علامہ حامد رضا خان علیہ الرحمہ کو سادات کچھوچھہ مقدسہ سے کس قدر عقیدت محبت تھی اور کس طرح خانوادہ اشرفیہ کے بچے بچے تک کا اکرام و احترام کرتے تھے واقعہ کچھ یوں ہے کہ) ایک مرتبہ حضرت حجۃ الاسلام علامہ حامد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ ‘کچھوچھہ مقدسہ تشریف لائے “ تو آپ علیہ الرحمہ کو آپ کی شان کے مطابق مخصوص قیام گاہ پر ٹھہرایا گیا اب آپ علیہ الرحمہ کی خدمت کے واسطے کسی کو متعین کرنا تھا’ تو آپ علیہ الرحمہ کی خدمت کے لئے حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی اشرفی علیہ الرحمہ نے نبیرہ اعلی حضرت اشرفی میاں شہزادہ مصطفی اشرف حضور سید شاہ مجتبٰی اشرف المعروف اشرف الاولیاء علیہ الرحمہ کو مقرر کر دیا) اس وقت آپ کم عمری میں تھے(لیکن جب یہ شہزادے اپنے فرائض کی ادائیگی کے لئے حرکت میں آئے یعنی حجۃ الاسلام علیہ الرحمہ کی خدمت میں پہنچے تو حضرت حجۃ الاسلام علیہ الرحمہ نے شہزادے سے فرمایا – شہزادے! آپ سید زادہ ہیں؛میں آپ سے خدمت نہیں لے سکتا۔
( ماخوذ از:روز نامچہ حضرت سید شاہ اشرف حسین صاحب سجادہ نشین آستانہ اشرفیہ جلد ٣٣ ص ١٦٣ بحوالہ ماہنامہ غوث العالم سرکار کلاں نمبر ص ١٦٨)
ذرا تصور کریں کسی نے حضور حجۃ الاسلام علیہ الرحمہ کو بتایا نہیں تھا کہ یہ شہزادے سید زادے ہیں پھر آپ علیہ الرحمہ نے کیسے پہچانا؟ تو بات سمجھ آتی ہیکہ جیسے اعلی حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمہ نے ایک خستہ حال سید زادے کو ایک بھیڑ میں صرف بوئے آل رسول سے پہچان لیا تھا اور آل رسول سے خدمت لینا اعلی حضرت امام احمد رضا علیہ نے اپنے شہزادوں کو سیکھایا نہیں تھا گویا شاعر کی زبانی کہا جائے بجا ہوگا کہ

پالکی روک کر بولے احمد رضا : سن لو کیا مرتبہ ہے سادات کا
آل پاک نبی میرے مخدوم ہیں : ان کو خادم بنانا بری بات ہے

سادات کچھوچھہ مقدسہ کا اعلی حضرت سے بےپناہ محبت
اعلی حضرت امام اہلسنت علیہ الرحمہ بریلی شریف میں بیٹھ کر لکھتے تھے اور اس لکھے ہوئے کو اپنی تقریروں کے ذریعہ سے پوری دنیا میں حضور شیخ اعظم سید اظہار اشرف اشرفی علیہ الرحمہ کے دادا،تلمیذ اعلیٰ حضرت،عالم ربانی سلطان المناظرین ، سلطان الواعظین حضرت مولانا سید احمد اشرف،حضور محدث اعظم ہند اور حضور اشرفی میاں کے خلفاء خصوصاً صدرالافاضل علامہ سید نعیم الدین اشرفی مرادآبادی، حکیم الامت حضرت مولانا مفتی احمد یارخان نعیمی،مبلغ اسلام علامہ عبدالعلیم میرٹھی اشرفی،مفتی اعظم پاکستان ابو البرکات حضرت مولانا سید احمد اشرفی، حضرت مولانا مفتی عبدالرشید اشرفی، حضرت مولانا مفتی محمد رفاقت حسین اشرفی، حضرت مولانا سید غلام جیلانی اشرفی،مجاہد ملت حضرت مولانا حبیب الرحمن اشرفی، حضرت مولانا عارف الله اشرفی وغیرہم،علھیم الرحمة والرضوان یہی لوگ پھیلاتے اور پہونچاتے تھے۔ (تحائف اشرفی ص9/6)
تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ منظر اسلام بریلی شریف کے سالانہ جلسہ دستار بندی کے موقع پر حضور اعلی حضرت علیہ الرحمہ ہمیشہ مقرر خصوصی کی حیثیت سے عالم ربانی واعظ لاثانی سید احمد اشرف اشرفی الجیلانی کو بلاتے تھے اور اسٹیج سے نیچے کھڑے ہوکر ان کی تقریر سماعت فرماتے تھے ، جب پوچھا گیا کہ حضور آپ تو اولا جلدی کسی کی تقریر سنتے نہیں مگر مولانا سید احمد اشرف صاحب کی تقریر ہمیشہ بغور سنتے ہیں اور وہ بھی اسٹیج سے نیچے کھڑے ہوکر۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟
تو حضور اعلی حضرت نے جوابا ارشاد فرمایا اس کی وجہ ہے کہ جب مولانا سیداحمد اشرف صاحب تقریر کرتے ہیں تو میں دیکھتا ہوں کہ ان کی تقریر کے دوران انوار وتجلیات الہی کا نزول ہوتا ہے اور اسٹیج سے نیچے کھڑے ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مولانا سید احمد اشرف صاحب تقریر کے دوران جس حدیث کو پڑھتے ہیں اس حدیث کے سارے راویوں کو میں اسٹیج پر موجود پاتا ہوں اس لیے ادبا میں اسٹیج کے نیچے کھڑا ہوجاتا ہوں ۔
تو یہ ہے سادات کچھوچھہ کی عظیم شان ۔ یہ ہے سادات کچھوچھہ کا بلند مقام ، یہ ہے سادات کچھوچھہ کا اعلی رتبہ ۔ اور سرکار اعلیٰ حضرت امام اہلسنت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کاان سے دلی محبت۔
لہذا عاشقان اعلیٰ حضرت واولیاء، جانثار اہلبیت و صحابہ
حضور شیخ اعظم حضرت مولانا سید اظہار اشرف اشرفی علیہ الرحمہ جو پوتے ہیں، عالم ربانی سلطان المناظرین ، سلطان الواعظین حضرت مولانا سید احمد اشرف علیہ الرحمہ کے، ان کی محبت دل میں بٹھا کرپڑھیں اورجھومیں،
جیساکہ خود اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:

تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا

خود بخود کرنے لگو گے سیدوں کا احترام
سیرت احمد رضا دل میں بسا کر دیکھ لو
چاہتے ہو روشنی گر چہرے پہ بعد وفا
پھر کسی سید کی ڈولی اٹھا کر دیکھ لو
خاندان مصطفی کا بچہ بچہ ہیں نور
ہے یہی قول رضا پڑھ کے پڑھا کر دیکھ لو

مزید
سادات کچھوچھہ کی شان، اعلی حضرت اور ان کے صاحبزادگان سے سنیں ! وہ بتائیں گے کہ ان کا مقام کیا ہے چنانچہ
ایک موقع پر حضور صدر الشریعہ اور حضور حجة الاسلام علیھمالرحمہ دونوں بزرگ بیٹھے ہوئے تھے اور کہیں سے ایک سید زادہ جن کے چہرے پر داڑھی نہیں تھی آنےلگے تو ان کے احترام میں حضور حجۃ الاسلام اپنی جگہ سے کھڑے ہونے لگے اتنے میں حضور صدر الشریعہ نے کہا کہ حضرت!
آپ ایک عالم دین ہیں اور وہ ایک فاسق ہے آپ ان کے احترام میں آپ کھڑے ہو رہے ہیں یہ شرعا درست نہیں ۔
تو حضور حجة الاسلام فرمانے لگے مولانا !
وہ ایک سیدزادہ ہیں ان کی رگوں میں سرکار کا خون ہے اور خون کبھی فاسق نہیں ہوتا میں اسی نسبت اور اسی خون کا احترام کر رہا ہوں ۔جب آپ نے ایسا جواب دیا تو حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمہ خاموش ہوگئے ۔( غالبا حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمہ کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ وہ آنے والا سید زادہ ہیں اس لئے انہوں نے ایسا فرمایا تھا) مگر پھر جب وہ سید زادہ قریب پہنچے تو حضور حجة الاسلام نے اس کی دست بوسی کی اور حضور صدر الشریعہ نے بھی اس کی دست بوسی کی۔
اسی طرح
غالبا ١٩٧٢/ کی بات ہے جب سرکار کلاں علیہ الرحمہ اور حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ دونوں بزرگ اپنے مریدوں کے ساتھ حج کے لیے پہنچے جب جمعہ پڑھنے کی بات آئی دونوں بزرگ نے اپنے اپنے مریدوں سے کسی ایک جگہ پر جمع ہونے کے لیے کہہ دیا جب متعینہ جگہ پر سب لوگ جمع ہو گئے اور جمعہ کی امامت کی بات آئی تو حضور مفتی اعظم ہند امامت کے لئے سرکار کلاں کو آگے بڑھنے کے لئے عرض گزار ہوئے اور حضور سرکار کلاں حضور مفتی اعظم ہند کو آگے بڑھنے کے لیے کہنے لگے اسی طرح ایک دوسرے کو کہتے رہے بالآخر حضور مفتی اعظم۔ ہند کے بار بار اصرار پر حضور سرکار کلاں امامت فرمانے کے لیے بڑھتے ہوئے مسکراکر فرمانے لگے مفتی صاحب!
پڑھا تو دوں گا اگر کچھ گڑ بڑی ہوئی تو پکڑے آپ بھی جائیں گے ۔ اس طرح سے حضور مفتی اعظم ہند اپنے مریدوں کے ساتھ سرکار کلاں کے پیچھے نماز جمعہ ادا فرمائی ۔ اسی طرح حضور مفتی اعظم ہند نے اس موقع پر چالیس نمازیں سرکار کلاں کی اقتداء میں حضور ادا فرمائی اور فرمایا در محبوب میں محبوب کی اولاد کے پیچھے میں نے جو نمازیں پڑھی ہیں یہ میری سعادت کی بات ہے۔ کہ
ایک آل رسول کی اقتداء میں حرم نبوی میں چند اوقات کی نماز ادا کرنے کاموقع مل گیا۔،،
جس عظیم المرتبت شہزادہ رسول کی مفتی اعظم ہندنےدیار حبیب اکرم ﷺ میں امام بنانا پسند کیا اسے الله رب العزت نے آپ کی نماز جنازہ کا بھی امام بنادیا اور آپ کی یہ آرزو کہ کوئی آل رسول میرے جنازہ کی نماز پڑھائے، پایہ تکمیل کو پہونچی۔(شیخ اعظم نمبر ج 1،ص112)

امام اہلسنت مجدد دین وملت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ والرضوان
فرماتے ہیں:سادات کرام کی تعظیم فرض ہے اور ان کی توہین حرام، بلکہ علماء کرام نے ارشاد فرمایا جو کسی عالِم کومولوِیا(مول وِیا) یاکسی میر(یعنی سید) کومیروابروجہت (یعنی حقارت سے) کہےکافرہے۔ (فتاویٰ رضویہ شریف ج٢٢ص٤٢٠)
حضرت سیدنا عبداللہ بن مبارک ایک بار کہیں تشریف لے جا رہے تھےکہ اثنائے راہ ایک سید صاحب مل گئے اور کہنے لگے: آپ کے بھی کیا خوب ٹھاٹھ باٹھ ہیں اورایک میں بھی ہوں کہ سید ہونے کے باوجود مجھے کوئی نہیں پوچھتا! آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا: میں نےآپ کے جدامجد مکی مدنی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو اپنایا تو خوب عزت پائی مگر آپ نے اپنے نانا جان کی سنتوں کو نہ اپنایا تو بے عملی کے سبب پیچھے رہ گئے!
سیدنا عبداللہ بن مبارک رات جب سوئے تو خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی، چہرہ انور پر ناراضگی کے آثار تھے، کچھ اس طرح فرمایا: تم نے میری آل کو بے عملی کا طعنہ کیوں دیا! آپ رحمتہ اللہ علیہ بے قرار ہو کر بیدار ہوگئے ۔
صبح معافی مانگنے کے لیے اس سید صاحب کی تلاش میں روانہ ہوئے، موصوف بھی انہیں کو ڈھونڈ رہے تھے ۔ دونوں کی ملاقات ہوئی۔ سیدنا عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا خواب سنایا۔
سید صاحب نے سن کر کہا مجھے بھی رات میرے ناناجان صلی اللہ وسلم نے خواب میں تشریف لاکر کچھ اس طرح ارشاد فرمایا: تمہارے اعمال اچھے ہوتے تو عبداللہ بن مبارک تمہاری کیوں بے ادبی کرتے!حضرت سیدنا عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے بصد ندامت سیدصاحب سے معافی مانگی اور سید صاحب نے بھی گناہوں سے توبہ کر کے نیکیاں کرنے کی اچھی اچھی نیتیں کی(ماخوذ تذکرہ الاولیاء’ جزءاول ص١٧٠)
سادات سے حسن سلوک کی فضیلت بزبان اعلیٰ حضرت
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضاخان علیہ الرحمہ فتاویٰ رضویہ شریف ج١٠،ص١٠٥پرسادات کرام کے فضائل بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں: ابن عساکر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
جو میرے اہل بیت میں سے کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا،میں روز قیامت اس کا صلہ اسے عطا فرماؤں گا( جامع صغیرص٥٣٣، حدیث ٨٨٢١)
خطیب بغدادی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے راوی، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں: جو شخص اولاد عبدالمطلب میں سے کسی کے ساتھ دنیا میں نیکی کرے اس کا صلہ دینا مجھ پر لازم ہے جب وہ روز قیامت مجھ سے ملے گا۔(تاریخ بغداد جو، ص١٠٢)
جبھی تو اہلسنت پر فخرفرماتےہوئےسرکار اعلیٰ حضرت امام احمد خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

اہلسنت کا ہے بیڑا پار اصحاب حضور
نجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی

نذرِ عقیدت ببارگاہِ شیخ اعظم منبعِ فیض و کرم حضرت علامہ مولانامفتی سید محمد اظہار اشرف رحمۃ اللہ علیہ سجادہ نشین آستانہ اشرفیہ کچھوچھہ شریف

عزم کا مینار ہے وہ صاحبِ کردار ہے
شیخِ اعظم ہے لقب اور جس کا نام اظہار ہے

فاطمہ کا لال ہے آلِ شہِ ابرار ہے
نورِ چشمِ شیرِ یزداں حیدرِ کرار ہے

غوثِ اعظم کا جگر از عترتِ اطہار ہے
احمد اشرف کا حفید ابنِ شہِ مختار ہے

اعلی حضرت اشرفی کی ہے کرامت کا نشاں
شاہِ اشرف کے مشن کا وہ علمبردار ہے

سیدِ اظہار ہے اس گھر کا لعلِ بے بہا
نوح کی کشتی ہے جو ہم سب کا بیڑا پار ہے

عمر بھر شمشیرِ ایماں سے کیا جس نے جہاد
جی ہاں! وہ مردِ مجاہد سید اظہار ہے

ان میں ، ہم میں فرق ظاہر وہ کہاں اور ہم کہاں
غازیء گفتار ہم وہ غازیء کردار ہے

زندگی اس کی عبارت تھی عمل سے جہد سے
وہ تو مردانِ عمل کا قافلہ سالار ہے

چہرہء محمود اشرف ملتا جلتا دوستو
از رخِ اظہار ہے نیز از رخِ مختار ہے

بولتے دیکھا کروں مشتاق کو ہے اشتیاق
آپ کا چہرہ حسیں ہے اور حسیں گفتار ہے

جامعِ اشرف ہے کیا اہل خرد مجھ سے سنیں
جامِ اشرف کے نشے کی مستی کا اظہار ہے

جامعِ اشرف ہے گلشن آپ کا پھولے پھلے
اور اس گلشن کا سیف اک پھول خوشبودار ہے

( سیف خالد اشرفی)

نوٹ: سیمانچل کے علاقے میں علامہ مشتاق احمد نظامی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ اعظم علیہ الرحمۃ کثرت سے ایک اسٹیج پر ہوتے تھے۔ شیخ اعظم کے خطاب کے دوران خطیب مشرق کہتے۔ “حضرت آپ بولتے رہیں ،میں آپ کو سنتا بھی رہونگا اور جمال جہاں آرا سے آنکھوں کو ٹھنڈی بھی کرتا رہونگا۔”منقبت کے اس شعر میں اسی طرف اشارہ ہے

بولتے دیکھا کروں مشتاق کو ہے اشتیاق
آپ کا چہرہ حسیں ہے اور حسیں گفتار ہے

جمالِ سیدِ اظہار کا کیا کہنا! نہ ان کی مثال ،نہ ان کے والد ماجد( سید مختار اشرف سرکار کلاں) کی مثال ، نہ ان کے دادا ( عالم ربانی حضرت سید احمد اشرف اشرفی جیلانی ) کی نظیر اور پر دادا ( اعلی حضرت شاہ علی حسین اشرفی جیلانی ) تو شبیہ غوث اعظم تھے حضرت شاہ اشرف حسین عرف بڑے حضرت صاحب علیہ الرحمۃ کے مطابق آپ کے رخِ پُُر نور کو رخِ زیبائے سید کونین علیہ الصلاۃ والسلام سے خفیف مشابہت تھی۔

اشرفی اے رخت آئینۂ حسنِ خوباں
اے نظر کردہ و پروردہء سہ محبوباں
(امام احمد رضا قدس سرہ)

اہل نظر کا اتفاق ہے کہ ۱۸۵۰ سے ۲۰۱۲ تک ہند کی زمین آسمان نے مذہبی دنیا میں ان چار چہروں سے زیادہ وجیہ و حسین چہرہ نہیں دیکھا۔
قدس اللہ اسرارھم و نفع علینا من برکاتھم
بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ شیخ اعظم کے خلف اکبر و جانشین موجودہ سجادہ نشین حضرت قبلہ سید محمود اشرف اشرفی جیلانی مد ظلہ الملقب ب قائد ملت برصغیر کی مذہبی دنیا کے اندر حسن و جمال میں اپنی مثال آپ ہیں تو صد فی صد درست ہوگا۔
الله پاک حضور شیخ اعظم علیہ الرحمہ والرضوان کے فیضان سے اہلسنت کو مالامال فرمائے۔


ازقلم:۔گدائے اعلیٰ حضرت، اسیر شیخ اعظم
ابوضیاءغلام رسول سعدی آسوی، کٹیہاری،مقیم بلگام کرناٹک
8618303831

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے