جب سے بھاجپا مرکز میں برسر اقتدار آئی ہے،تب سے متعصب ہنود کے حوصلے بلند ہو چکے ہیں۔وہ مسلمانوں پر مظالم بھی ڈھاتے ہیں اور مذہب اسلام،قران مقدس،حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اور اسلامی شخصیات کی توہین وبے ادبی بھی کرتے ہیں۔
یہ تو اللہ تعالی کا فضل واحسان ہے کہ اس بار لوک سبھا الیکشن میں بھاجپا جیت نہیں پائی،ورنہ ظلم وستم مزید بڑھ جاتا۔
اب اسمبلی انتخابات میں بھاجپا کو ہرانے کی کوشش کی جائے اور کم نقصان پہنچانے والی پارٹیوں کو ووٹ دیا جائے۔
مسلم پارٹی کو بھاجپا کی بی ٹیم کہنے سے پرہیز کیا جائے۔دوسری پارٹیوں کے مسلم لیڈر بھی زیادہ کچھ نہیں کر سکتے،کیوں کہ وہ اپنی پارٹی کے اصولوں کے پابند ہوتے ہیں۔
موجودہ وقت میں مسلم سیاسی لیڈران،مثلا بلیاوی،اعظمی وغیرہ کو سیاسی سطح پر کچھ کرنا چاہئے۔مسلمانوں کے عوامی اجلاس میں تقریریں کرنا اور لفافے سمیٹنے کا کام مقررین بھی کر لیتے ہیں۔اس کام کے لئے خاص طور پر سیاسی لیڈروں کی ضرورت نہیں۔
عظیم اداروں اور عظیم خانقاہوں کو مشترکہ میٹنگ رکھنی چاہئے اور مسئلے پر غور کرنا چاہیے۔
لیکن جب بھی ایسا کوئی مرحلہ آتا ہے تو لوگ ضالین ومرتدین،مثلا دیابنہ،وہابیہ اور روافض وغیرہ سے گلے ملنے کے لئے تڑپنے لگتے ہیں،لیکن بھول کر بھی باہمی اتحاد کی بات نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی اس وقت کی اصل ضرورت کی جانب کوئی توجہ کی جاتی ہے۔
میں احتجاج ومظاہرہ کی حمایت نہیں کرتا،کیوں کہ ایسے مظاہروں میں کوئی الزام لگا کر پولیس والے مظاہرین پر فائرنگ کر دیتے ہیں اور بعض مظاہرین کی موت ہو جاتی ہے اور پھر پولیس والے مظاہرین پر مقدمہ بھی درج کر دیتے ہیں۔اس طرح مظاہروں سے مسلمانوں کا ہی نقصان ہوتا ہے۔
تھانوں میں ایف آئی آر درج کرانے سے بھی کچھ فائدہ نہیں ہوتا ہے۔تاہم اپنی غلامی اور عشق نبوی کے تقاضوں کے تحت ایف آئی آر درج کرا دیں،کیوں کہ اس میں مسلمانوں کا نقصان نہیں۔
احتجاجی ریلی کی بجائے احتجاجی اجلاس کرایا جا سکتا ہے،جس میں کثیر تعداد میں لوگ شریک ہوں اور کم وقتی اجلاس ہو،مثلا تین گھنٹے کا یا دو گھنٹے کا۔لوگ وقت مقررہ پر آئیں اور اپنی باتیں پیش کریں۔ایسے اجلاس میں مقامی لیڈروں اور پولیس کے اعلی افسران کو ضرور بلایا جائے،تاکہ پولیس والے فائرنگ نہ کریں،ورنہ کسی بہانے جلسوں پر فائرنگ ہو سکتی ہے۔سازشوں کا دائرہ بہت وسیع ہوتا ہے۔
سیاسی لیڈران ہوں یا عظیم مذہبی قائدین۔کوئی کچھ نہیں کریں گے،لہذا گمنام مومنین پیش قدمی کریں اور جابجا احتجاجی جلسے کریں اور مقامی علما،مقامی سیاسی وسماجی لیڈران اور مقامی پولیس افسران کو شریک اجلاس کریں۔
ایسے اجلاس میں خطاب کرنے والوں کو کم وقت دیا جائے،مثلا دس منٹ،نیز ایسے اجلاس کو لفافوں سے پاک رکھا جائے،ورنہ پیشہ ورانہ مقررین اپنی دعوت کے لئے ہیرا پھیری کریں گے اور ایسے پاکیزہ اجلاس بھی شکم پروری کا ذریعہ بن جائیں گے۔
تحریر : طارق انور مصباحی
جاری کردہ:5:اکتوبر 2024