سیاست و حالات حاضرہ

تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں

ازقلم: ابو ظفر سید نظام الدین نجم نعیمی مرادآبادی

آج کل وطن عزیز ہندوستان میں ایک ایسا ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے جس پر ۲۰۰ (دو سو سال) انگریز کی حکومت نے کام کیا اور اسکے بعد انکے لئے مخبری کرنے والے وہ لوگ جو ملکی آزادی کے بھی حق میں نہیں تھے انہوں نے آزادی سے پہلے ایک تنظیم کا قیام کیا اور ایک ایسا ہدف بنایا جس کے تحت وہ اس ملک کی کثیر آبادی کے کثیر طبقے تک پہنچ کر اپنی تنظیم کے ساتھ کیا اور انکو یہ بتایا اور سمجھایا کہ ہم اپنے مذہب اپنی سنسکرتی کو بچانے کے لئے متحد رہیں گے اور کسی دوسری اقوام سے ہمیں کوئی مطلب اور سروکار نہ ہوگا سادہ ذہن افراد جب جڑنے لگے اور دہی علاقوں سے قصبوں اور پھر شہری ثقافتوں میں رہنے والے لوگ جڑتے رہے تو آہستہ آہستہ انہوں نے پس پردہ اپنے منصوبوں کو اپنی شاکھاؤں میں آنے والے کم عمر بچوں کے ذہنوں پر ایک ایسا زہر آلود نقشہ بنانا شروع کیا جس میں انکو بتایا کہ تمہارے اگر کوئی دشمن اور تمہاری تہذیب و تمدن اور مذہب کو کسی سے سب سے زیادہ خطرہ ہے تو وہ کوئی اور نہیں مذہب اسلام کے ماننے والے مسلمان ہیں۔۔۔

کبھی مسلمانوں کے سیاسی جماعتوں میں بڑھتے قد سے خطرہ دکھایا کبھی سرکاری دفتروں اور محکموں میں تعداد کو دکھاکر غیر مسلموں کو انکی نسلوں کے لئے خطرہ بتایا۔۔
کبھی تعلیم کی طرف مسلمانوں کی بڑھتی دلچسپی کو ملک کے خارجی معاملات کے لئے خطرہ بتایا۔۔
گویا کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا جس میں اقلیتوں کو بڑھتا دیکھ اکثریت آبادی کو خوفزدہ اور انکے ذہنوں میں نفرت کے بیچ بونے کے کاموں ہلکا ہونے نہیں دیا یوں تو آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد اس ملک میں مسلمانوں کو اچھی خاصی تعداد میں سرکاری محکموں میں ملازمت کرتے دیکھا گیا مگر آہستہ آہستہ انکو نوکری سے علاحدہ کیا گیا اور میری اپنی معلومات کے مطابق جبکہ اس سے پہلے بھی نسل کشی کی وارداتوں کو تاریخ جھٹلا نہیں سکتی۔
1980ء میں اتر پردیش کے کثیر آبادی والے شہر مرادآباد میں ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو بے دریغ قتل کیا گیا۔
1989ء میں بھاگل پور بہار میں ہزاروں بے قصور مسلمانوں کو اسی نفرت پھیلانے والی تنظیم کے زہر آلود فضا میں قتل کیا گیا مسلمانوں کی جائدادیں لوٹی گئیں انکے مکانوں پر جبراً قبضہ کیا گیا بہو بیٹیوں کی عزتیں تار تار کی گئیں۔
1990ء میں بجنور اتر پردیش میں غریب مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلنے والے کوئی اور نہیں بلکہ اسی تنظیم کے نمائندے اور انکی لگائی ہوئے نفرتی تخم سازی کا نتیجہ تھا
1992ء میں بابری مسجد شہید ہونے کے ساتھ ساتھ پورے ملک کو نفرت کی آگ میں جلاکر مسلمانوں کے لئے ہندوستان کی زمین تنگ کیا گیا
2002ء میں سابر متی ایکسپریس ٹرین میں منظم طریقے سے سفر کرنے والے سادھوؤں کو پیٹرول چھڑک کر جلایا اور پھر گوھرا أحمد آباد کے علاوہ گجرات کے دوسرے شہروں قصبوں میں تلاشی لے لے کر مسلمانوں کے خون کو پانی کی طرح سڑکوں پر بہایا جہاں حاملہ خاتون کے شکم کو تلوار اور ترشول سے چاک کرکے شکم مادر میں پلنے والے کچے بچوں کو ہواؤں میں اچھال کر تلواروں سے دو ٹکڑوں میں کیا گیا
2013ء مظفر نگر اتر پردیش کی زمین پر ہزاروں مسلمانوں کو آبادیوں سے نکال کر جنگلات میں زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا گیا جہاں بچی جوان بوڑھی عورتوں کی عزتیں انکے محرموں کے سامنے تار تار کی گئیں ہوں۔
2017ء میں آسام میں این۔آر۔سی کے نام پر اب تک کی ہندوستان کی تاریخ کا سب سے ظالمانہ جابرانہ قانون کی آڑ میں 5 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو ڈیٹینشن سینٹر کے اندر جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا ہو۔

اے وطن عزیز ہندوستان تو وہی ہے نا!جسکے دفاع کے لئے 5 ہزار سے زیادہ علماء نے دہلی سے لاہور تک ہر ہر درخت پر جنکو پھانسی کے پھندے پہنائے گئے مگر انگریزوں کی حکومت کو قبول نہیں کیا
اے ہندوستان تو وہی ہے نا! جس نے شیر ہند میسور کے سلطان ٹیپو نے اپنے خون کا آخری قطرہ بھی تجھ پر وار دیا۔
اے ہندوستان تو وہی ہے نا! جسکی آزادی اور انگریز حکومت کے خلاف فتوی جہاد دینے کی سزا میں علامہ فضل حق خیرآبادی بادی کو جلا وطن اور کالے پانی (آج کا انڈمان) کی جیل میں موت کو گلے لگانا تو برداشت کیا مگر ملک پر قبضہ کرنے والی انگریزوں کی حکومت سے معافی نہیں مانگی۔
اے ہندوستان تو وہی ہے نا! جسکی حفاظت کے لئے اور انگریزوں کی غاصبانہ حکومت کو قبول نہ کرنے کی سزا کے طور پر آخر مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو اپنے کھانے کے دسترخوان پر اپنے جوان بیٹوں کے جسموں سے جدا سر دیکھنا میسر آیا مگر غلامی کی زندگی اور تیری عظمت کو تارتار کرنے والی انگریزی حکومت سے سمجھوتہ نہیں کیا۔
اے ہندوستان تیرے قد دنیا میں بڑا رہے تو ہمیشہ سونے کی چڑیا رہے اور تیری طرف دیکھ کر رشک کریں ہم نے تجھے اتنا سنوارا اتنا نکھارا مگر تیری زمین کو تیرے وفاداروں پر تنگ کیا جارہا ہے۔
2021ء میں اب تریپورا کے مظلوم نہتے مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے کہیں مسجدوں کو جلایا جا رہا ہے کہیں احکام خدا بتانے والی آسمانی کتاب قرآن مجید کو نذر آتش کیا جا رہا ہے۔
کہیں لاؤڈ اسپیکروں پر پیغمبر اسلام ﷺ کی شان میں گستاخانہ نعرے لگائے جا رہے ہیں۔
کہیں دکانیں لوٹی جا رہی ہیں
کہیں مکان لوٹے جا رہے ہیں
کہیں مسلمانوں کی فصلوں کے ساتھ نسلوں کو ختم کیا جارہا ہے
اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی سیاسی جماعتوں کو کہیں ہمارے حق کی آواز بلند کرتے نہیں دیکھا گیا
کسی کو ہماری فکر میں دھرنے اور بھوک ہڑتال پر بیٹھے نہیں سنائی دیا حکومت جو سب کا ساتھ سب کا وکاس کے جھوٹے اور کھوکھلے نعرے لگاتی ہے اسکو دو ہمدردی کے لفظ بولتے نہیں سنا گیا
ملک کے 30 سے زائد صوبوں میں سے آدھی غیر بی جے پی سرکاریں زیر اقتدار ہیں کسی کو سر جوڑ کر مسلمانوں کو نسل کشی سے بچانے کے منصوبے بناتے ہوئے نا دیکھا گیا نہ سنا گیا ۔۔۔،،
آخر ماجرا کیا مسلمانوں کا خون اتنا سستا ہوگیا کہیں ایک گائے بیل مرنے اور ہاتھی کے ڈوبنے پر تو کئی کئی سرکاری اور غیر سرکاری ادارے اور تنظیمیں انکے حق کی آواز بلند کرنے کے لئے زمین تا آسمان ایک کرنے کی کوشش کریں مگر مسلمانوں کو دن کے اجالے میں قتل عام کرنے والوں کے خلاف کوئی بولنے کو تیار نہیں
کسی کے دل میں ہمارے لئے درد نہیں
کسی سیاسی جماعت کے لئے ہم ایک ووٹ بینک سے زیادہ کچھ نہیں کسی سرکاری اور غیر سرکاری تنظیم کے لئے ہم ہاتھی گائے جیسے جانوروں کی جانوں سے زیادہ قیمتی مسلمانوں کی جان نہیں مگر
تاریخ عادل و شاہد ہے کہ جتنا ہمیں توڑنے کے منصوبے بنائے جائیں گے انشاءاللہ یہ قوم مسلم اتنی سنور اور نکھر کر ابھرتی دنیا کو نظر آئے گی اس قوم کو مٹانے کی سازش پچھلی 14 صدیوں سے ہو رہی ہے مگر

اسلام کو قدرت نے ایسی لچک دی ہے
جتنا اسے دباؤ گے اتنا یہ ابھرتا جائیگا

مرکر بھی ہم نہ جائیں گے ہندوستان سے
اب روز کہنا پڑتا ہے بے ساختہ مجھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے