مضامین و مقالات

پھر یوں ہوا کہ رسوائی مقدر بن گئی

از قلم: مجاہد عالم ندوی
استاد: ٹائمس انٹرنیشنل اسکول محمد پور شاہ گنج ، پٹنہ

ہمارے یہاں ایک کہاوت ہے کہ پہلے تولو پھر بولو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری باتیں رب العالمین کی ناراضگی اور دوست و احباب کے دل شکنی کا سبب بن جائے ، زبان اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کردہ ایک انمول اور قیمتی تحفہ ہے ، جس کے ذریعہ ہم اپنے مافی الضمیر کی ترجمانی کرتے ہیں ، کسی گونگے سے جا کر اس کی اہمیت پوچھیں ، زبان کی اہمیت سمجھ میں آ جائے گی ، لیکن افسوس کہ جس عظیم نعمت کو کار خیر میں استعمال کرنا تھا آج اسے فضول گوئی اور لا یعنی چیزوں سے لگاتے ہیں ، حدیث میں ہے ” من حسن اسلام المرء تركه ما لا يعنيه ” کہ انسان کے اسلام کی خوبی لا یعنی چیزوں کو ترک کر دینا ہے ۔ ( الترمذی)
عام طور پر کثرت کلام بہت سارے فتنوں اور گناہوں کا سبب بنتا ہے ، ہمیشہ دوران گفتگو تدبر و تفکر کو ملحوظ رکھنا چاہیے ، چونکہ انسان اگرچہ مر جاتا ہے لیکن ان کی کہی ہوئی باتیں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں ، مثال کے طور پر آپ اپنے اکابرین اور اماموں کو پڑھیں ، انہیں گزرے زمانہ ہو گیا لیکن آج بھی لوگ ان کو ان کے کارناموں سے اور ان کی جانب سے عطا کردہ نایاب تحفوں سے ( خواہ وہ تحریری شکل میں ہو یا تقریری شکل میں ہو ) انہیں یاد کرتے ہیں ۔
آج اگرچہ دنیاوی منفعت کے لیے ہم کچھ بول جائیں یا پھر لکھ جائیں لیکن یہ بھی نامہ اعمال کا ایک حصہ بن جائے گا ۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ جو اپنی زبان قینچی کی طرح زیادہ تیز چلاتے ہیں اور حد سے تجاوز کر جاتے ہیں ، رسوائی ان کا مقدر بن گیا ہے ۔
بعض مرتبہ تو وہ ان رازوں کو بھی فاش کر دیتے ہیں جن سے ان کی زندگی کا خاص تعلق ہوتا ہے پھر بعد میں کف افسوس ملتے پھرتے ہیں، زیادہ بولنا عقلمندوں کی علامت نہیں ہے ، یہ تو پاگلوں کا کام ہے ، جب دیکھو کچھ نہ کچھ بڑبڑاتے رہتے ہیں ، اپنی زبان وہاں چلائیں جہاں اس کی ضرورت ہے ، بے محل زبان کا استعمال رسوا ہی کرتا ہے ، حدیث پاک میں ہے ” من صمت نجا ” جو خاموش رہا وہ نجات پا گیا ۔ ( الترمذی )
شریعت میں زبان کی حفاطت پر بشارتیں سنائی گئی ہیں ، چنانچہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ” جو شخص میرے لیے زبان اور شرمگاہ کی ضمانت لے لے ، میں اس کے لیے جنت کی ضمانت لیتا ہوں ۔
یہ زبان جو دیکھنے میں جسم کا سب سے چھوٹا عضو اور پاؤ گرام گوشت کا لوتھڑا ہے یہ کام میں سب سے زیادہ مؤثر ہے ، اور اسی پر زندگی کی ساری چیزیں منحصر ہے ، اگر یہ کنٹرول میں ہے تو پھر دنیا و آخرت دونوں خوشگوار ہے ، اور اگر یہ کنٹرول میں نہیں ہے تو پھر دنیا و آخرت دونوں برباد ہے ۔
چنانچہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم حضرت معاذ بن جبل کو نصیحت کرتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ اے معاذ میں تمہیں ان تمام امور کی اصل اور جڑ نہ بتادوں ، حضرت معاذ فرماتے ہیں : میں نے کہا ” ہاں ” اے اللہ کے نبی ضرور ، آپ اپنی زبان مبارک پکڑی اور اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کو بند رکھو ، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا ہم اپنی زبان سے جو بھی لفظ نکالتے ہیں اس پر ہماری گرفت اور پکڑ ہوگی ۔

آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے معاذ …… ( تمہاری ماں تمہیں گم کر دے ) اچھی طرح جان لو کہ لوگوں کو منہ کے بل یا پیشانی کے بل جہنم میں گرانے والی اسی زبان کی بری باتیں ہوں گی ۔ ( الترمذی )
لہٰذا ! ضروری ہے کہ اپنی زبان کو قابو میں رکھا جائے ایسے الفاظ کا تلفظ ہرگز نہ کیا جائے جو مضر ہو مثلاً کلمہ کفر ، شرک ، تمسخر ، تکبر ، سب وشتم ، فحش گوئی ، بد کلامی ، غیبت ، کذب ، الزام تراشی ، بہتان لگانا ، طعن و تشنیع ، کلمہ فسق و فجور اور معصیت وغیرہ ۔
اگر انسان اپنے زبان کی حفاطت کر لے تو یہ سعادت مندی اور خوش نصیبی ہے ، اور جب زبان سے کلمہ خیر وعظ و نصیحت کا کلام سرزد ہو تو یہ انسان کی عظمت شان اور برتری کا باعث ہے ، عربی میں ایک جملہ ہے ، ( الصمت هو الصديق الوحيد الذى لا يخون ابدا ) کہ خاموشی واحد دوست ہے جو کبھی دھوکہ نہیں دیتا ہے !
اللہ رب العزت ہم سب کو اپنی زبان کو کنٹرول میں رکھنے کی توفیق نصیب عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین یارب العالمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے