خیال آرائی: فیضان علی فیضان
سچ کے ملبوس میں یوں ہوتا تھا
جھوٹ بھی سچ کی طرح کہتا تھا
ہم کو بدنام کر رہا تھا وہ
ہم نے تو کچھ نہیں بگاڑا تھا
جان ہم پر نثار کرتا تھا
کچھ نہیں تھا وہ بس دکھاوا تھا
زندگی ساتھ میں بسر کرتے
خواب دیکھا یہ اک سنہرا تھا
بعد میں یہ خبر ملی ہم کو
آستیں میں ہی سانپ پالا تھا
دیکھتا کس طرح میں غیروں کو
میری نظروں پہ اُس کا پہرا تھا
جیسے نہ تھا کوئی تعلق یوں
وہ میرے سامنے سے گزرا تھا
تیرا باطن فقط خدا جانے
ہاں مگر ظاہراً تو سچا تھا
مجھ کو پانی نہیں دیا فیضان
جبکہ معلوم تھا میں پیاسا تھا