شعبان المعظم

شبِ برأت کاپیغام امت مسلمہ کے نام

ازقلم:محمدشمس تبریزقادری علیمی
7001063703
اسلامی اسکالر: ایم۔اے۔بی۔ایڈ۔ مدارگنج، ارریہ، بہار

ماہ شعبان کی پندرہویں رات کوشبِ برأت کہاجاتاہے۔شب کے معنی رات اوربرأت کے معنی بری ہونے اورقطع تعلق کرنے کے ہیں۔چونکہ اس رات مسلمان توبہ واستغفارکرکے گناہوں سے قطع تعلق کرتے ہیں اوراللہ تعالیٰ کی رحمت سے بے شمارمسلمان جہنم سے نجات پاتے ہیں اس لئے اس رات کوشبِ برأت کہتے ہیں۔ اس رات کولیلۃ المبارکہ یعنی برکت والی رات ،لیلۃ الصک یعنی تقسیم اُمورکی رات اورلیلۃ الرحمۃ رحمت نازل ہونے والی رات بھی کہاجاتاہے۔جلیل القدرتابعی حضرت عطا بن یسار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :لیلۃ القدرکے بعدشعبان کی پندرہویں شب سے افضل کوئی رات نہیں۔ (لطائف المعارف ،ص۱۴۵)جس طرح مسلمانوں کے لئے زمین میں دوعیدیں ہیں اسی طرح فرشتوں کے لئے آسمان میں دوعیدیں ہیں:ایک شبِ برأت اوردوسری شبِ قدر۔جس طرح مومنوں کی عیدیں عیدالفطراورعیدالاضحی ہیں۔فرشتوں کی عیدیں رات کواس لئے ہیں کہ وہ رات کوسوتے نہیں جبکہ آدمی سوتے ہیں۔اس لئے ان کی عیدیں دن کوہیں۔(غنیۃ الطالبین،ص۴۴۹)یہ وہ عظمت والی رات ہے جسے اللہ تبارک وتعالیٰ نے بے انتہاخوبیوں اوربرکتوں کاجامع بنایاہے اوربہت سے خصائص وامتیازات سے شرف بخشاہے۔ اس کے پانچ اہم خصائص تفسیرکشاف اورفتوحات ِ الٰہیہ میں یہ بتائے گئے ۔(۱)تقسیم امور (۲)نزولِ رحمت(۳) فیضان بخشش(۴)قبولِ شفاعت(۵)فضیلت عبادت۔ارشادِباری تعالیٰ ہے:قسم ہے اس روشن کتاب کی ،بے شک ہم نے اسے برکت والی رات میں اُتارا،بے شک ہم ڈرسنانے والے ہیں۔اس میں بانٹ دیاجاتاہے ہرحکمت والاکام۔(ترجمۂ کنزالایمان،سورۂ دخان:آیت:۲/۴) ان آیات کی تفسیرمیں حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ اوربعض دیگر مفسرین نے بیان کیاہے کہ لیلۃ المبارکہ سے پندرہ شعبان کی رات مرادہے۔اس رات میں زندہ رہنے والے ،فوت ہونے والے اورحج کرنے والےسب کے ناموں کی فہرست تیارکی جاتی ہے۔جس کی تعمیل میں ذرابھی کمی بیشی نہیں ہوتی۔اس روایت کوابن جریر،ابن منذر اورابن ابی حاتم نے بھی لکھاہے۔اکثرعلماء کی رائے یہ ہے کہ مذکورہ فہرست کی تیاری کاکام لیلۃ القدرمیں مکمل ہوتاہے۔اگرچہ اس کی ابتداء پندرہویں شعبان کی شب سے ہوتی ہے۔(ماثبت من السنہ،ص۱۹۴)علامہ قرطبی مالکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :ایک قول یہ ہےکہ ان اُمورکے لوحِ محفوظ سے نقل کرنے کاآغازشبِ برأت سے ہوتاہے اوراختتام لیلۃ القدرمیں ہوتاہے۔(الجامع لاحکام القرآن ج ۱۶،ص:۱۲۸،بحوالہ مبارک راتیں) ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ حضورسیدعالم ﷺنے فرمایا:کیاتم جانتی ہوکہ شعبان کی پندرہویں رات میں کیاہوتاہے؟یعنی کیسے اہم ،بابرکت اورنادراُمورانجام پاتے ہیں؟انہوں نے عرض کیا،یارسول اللہ ارشادفرمائیے کیاہوتاہے،تونبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’اس رات میں انسان کاہربچہ جواس سال پیداہوگالکھ دیاجاتاہے۔جتنے آدمی اس سال وفات پائیں گے انہیں بھی درج کردیاجاتاہے اورلوگوں کے سارے اچھے ،بُرے اعمال پیش کئے جاتے ہیں اوران کی روزیاں بھی اتاری جاتی ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشادفرمایاایک شعبان سے دوسرے شعبان تک مدتِ حیات کاختم ہونالکھ دیاجاتاہے یہاں تک کہ آدمی شادی کرتاہے اس کے یہاں بچہ پیداہوتاہے حالانکہ اس کانام مرنے والوں میں لکھ چکاہوتاہے۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ پورے شعبان میں روزہ رکھتے یہاں تک اسے رمضان المبارک سے ملادیتے ۔میں نے عرض کیایارسول اللہ !ماہِ شعبان کے روزے آپ کودوسرے مہینوں کے بہ نسبت زیادہ محبوب وپسندیدہ ہیں ؟ توآپ نے فرمایا:ہاں اے عائشہ ! جوبھی سال بھرمیں فوت ہوتاہے اس کاوقت (وفات)شعبان ہی کے مہینے میں لکھ دیاجاتاہے تویہ بات مجھے محبوب ہے کہ میرے وصال کاوقت اس حال میں لکھاجائے کہ میں اپنے رب کی عبادت اورنیک کام میں مشغول رہوں۔ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا:اے عائشہ ! اسی مہینے میں ملک الموت فوت ہونے والوں کے نام لکھ لیتے ہیں تومجھے یہ پسندہے کہ میرانام روزہ کی حالت میں لکھاجائے۔(الدرالمنثورص۲۶،ج۶ بحوالہ خطیب وابن النجار)حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سناچارراتوں میں اللہ تعالیٰ خیروبرکت کے دروازے کھول دیتاہے(انہیں میں سے ایک رات)شعبان کی پندرہویں شب(ہے)اس رات میں وفات کے اوقات ،روزیاں اورحج کرنے والوں کے نام لکھے جاتے ہیں۔حضرت عطاء بن یساررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب شعبان کی پندرہویں رات آتی ہے توفرشتۂ موت کو ایک فہرست دے کریہ حکم دیاجاتاہے کہ اس میں جس جس کانام درج ہے اس کی روح قبض کروتوبندہ بستربچھاتا،شادی کرتا،گھربناتاہے حالانکہ اس کانام مُردوں کی فہرست میں لکھاہوتاہے۔حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ آیۂ کریمہ میں وارد’’حکمت بانٹنے والاکام‘‘کامطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ شعبان کی پندرہویں رات میں سال بھرکے کاموں کاپختہ فیصلہ کردیاجاتاہے۔زندہ رہنے والوں اورحج کرنے والوں کوبھی لکھ دیاجاتاہے۔پھران نامزدلوگوں میں کسی کوکم یازیادہ نہیں کیاجاتا(ایضاً بحوالہ مبارک راتیں)ان احادیث کریمہ سے معلوم ہواکہ وہ نورانی رات جس کوفرقان حکیم میں لیلۃمبارکہ ،یاشب مبارک کہاگیاہے یاوہ رات جس میں نظام نامۂ کائنات کی تقسیم ہوتی ہے وہ ہم گنہگاروں کی رہائی وچھٹکارے کی رات ’’شبِ برأت ‘‘ہے تواس رات کوذکروعبادت سے معموررکھناچاہئے۔شبِ برأت میں اللہ رب العزت دن ڈوبنے کے بعدسے ہی اپنی بے پناہ رحمتیں دنیاوالوں پرنازل کرتاہے اوربے شمارلوگوں کواپنے فضلِ خاص سے بخش دیتاہے۔مولائے کائنات حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشادفرمایا:کہ جب شعبان کی پندرہویں رات آجائے توتم لوگ رات میں عبادت کرو،اوردن میں روزہ رکھو،بے شک اللہ تعالیٰ اس رات میں دن ڈوبنے کے وقت سے آسمانِ دنیاپرتجلیٔ رحمت کانزول فرماکریہ اعلان کرتاہے کہ ’’کیاکوئی بھی مغفرت کاطلبگارہے کہ میں اسے بخش دوں،اورہے کوئی روزی کاچاہنے والاکہ میں اسے رزق عطاکروں،ہے کوئی گرفتارِ بلاکہ میں اسے عافیت بخشوں ،ہے کوئی ایسااورایسا؟(یعنی آج رحمتوں کے خزانے لٹائے جارہے ہیں کوئی بھی شخص میری کسی رحمت کاطالب ہے کہ میں اسے فضل واحسان سے نوازوں )رحمتِ عامہ کی دادودہش کایہ اعلان رات بھرہوتارہتاہےیہاں تک کہ فجرنمودارہوجاتی ہے۔اسی حدیث کی دوسری روایت میں یہ اضافہ بھی ہے :ہے کوئی مانگنے والاکہ میں اسے عطاکروں۔حضرت نوفل بکالی بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ شعبان کی پندرہویں رات اکثر باہر آیا کرتے تھے ایک مرتبہ اسی رات میں باہر آئے اور آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت داؤد علیہ السلام نے اسی پندرہویں رات آسمان کی طرف نظر اٹھا کر فرمایا کہ یہ وہ وقت ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ سے جس نے دعا کی اس کی دعا اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی، اور جس نے بخشش کی دعا مانگی اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا بشرطیکہ دعا کرنے والا عشّار یعنی ناجائز محصول (چنگی، انکم ٹیکس، ہاؤس ٹیکس وغیرہ) لینے والا، جادو گر، کاہن، نجومی، جلاد، فال نکالنے والا، گویّا اور باجہ بجانے والا نہ ہو ۔اس کے بعد حضرت علی نے یہ دعا کی :اے اللہ داؤد کے رب! اس رات جو شخص دعا مانگے، یا بخشش چاہے اس کی دعا قبول کرلے کیونکہ اس رات میں تیرا خصوصی فضل وکرم زبان زد خاص و عام ہے اگر چہ دوسری راتوں میں بھی کرم فرماتا ہے (ماثبت بالسنۃ بحوالہ مبارک راتیں) مذکورہ روایات سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ اس برکت والی رات کے آنے سے پہلے آپسی اختلافات کو دور کر لیں اور خصوصاً اپنے والدین سے معافی مانگیں اور یہ عزم مصمم کریں کہ کبھی بھی والدین کی نافرمانی نہیں کریں گے اسی طرح اعزہ و اقرباء کے ساتھ بہتر سلوک کریں جانے انجانے میں کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو ان سے معافی طلب کریں، جب سے واٹسیپ، فیس بک کا زمانہ آیا ہے تو دیکھا یہ جاتا ہے کہ لوگ واٹسیپ اور فیس بک پر معافی نامہ بھیجتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ معافی مل گئی ہرگز نہیں، جس کسی کو آپ کی ذات، بات یا کسی طرح بھی تکلیف ہوئی ہو ان سے براہ راست یا کسی دوسرے ملک میں ہونے کی صورت میں فون پر معافی مانگی جائے ۔

نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم، صحابۂ کرام علیہم الرضوان اور اولیائے عِظام رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم شعبانُ الْمُعَظَّم بالخصوص اس کی پندرھویں(15ویں) رات میں عبادات کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے معمولات اُمّ المؤمنین حضرت سیّدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں:میں نے حُضورِ اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو شعبانُ الْمعظّم سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ رکھتے نہ دیکھا۔(ترمذی،ج2،ص182، حدیث: 736) آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا مزید فرماتی ہیں: ایک رات میں نے حضور نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو نہ پایا۔ میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تلاش میں نکلی تو آپ مجھے جنّتُ البقیع میں مل گئے۔نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں(15ویں) رات آسمانِ دنیا پر تجلّی فرماتا ہے، پس قبیلۂ بنی کَلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو بخش دیتا ہے۔(ترمذی،ج2، ص183، حدیث: 739 ملتقطاً) معلوم ہوا کہ شبِ براءت میں عبادات کرنا، قبرستان جانا سنّت ہے۔(مراٰۃ المناجیح،ج2،ص290)بزرگانِ دین کے معمولات بزرگانِ دین رحمہم اللہ المبین بھی یہ رات عبادتِ الٰہی میں بسر کیا کرتے تھے حضرت سیّدُنا خالد بن مَعدان، حضرت سیّدُنا لقمان بن عامر اور دیگر بزرگانِ دین رحمہم اللہ المبین شعبانُ المُعَظَّم کی پندرھویں(15ویں) رات اچّھا لباس پہنتے، خوشبو، سُرمہ لگاتے اور رات مسجد میں (جمع ہو کر) عبادت کیا کرتے تھے۔(ماذا فی شعبان، ص75) امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز علیہ رحمۃ اللہ العزیز بھی شبِ براءت میں عبادت میں مصروف رہا کرتے تھے۔(تفسیرروح البیان، پ25، الدخان،تحت الآیۃ:3،ج8،402)
اہلِ مکّہ کے معمولات تیسری صدی ہجری کے بزرگ ابو عبدالله محمد بن اسحاق فاکِہی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: جب شبِ براءت آتی تو اہلِ مکّہ کا آج تک یہ طریقۂ کار چلا آرہا ہےکہ مسجد ِحرام شریف میں آجاتےاور نَماز ادا کرتے ہیں، طواف کرتے اور ساری رات عبادت اور تلاوتِ قراٰن میں مشغول رہتےہیں، ان میں بعض لوگ 100 رکعت (نفل نماز) اس طرح ادا کرتے کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد دس مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھتے۔ زم زم شریف پیتے، اس سے غسل کرتے اور اسے اپنے مریضوں کے لئے محفوظ کر لیتے اور اس رات میں ان اعمال کے ذریعے خوب برکتیں سمیٹتے ہیں۔(اخبار مکہ، جز: 3،ج2،84 ملخصاً)شب براءت بڑی عظمتوں اور برکتوں والی رات ہے مگر افسوس! صد افسوس! آج بھی ہمارے معاشرے میں شب براءت کے بارے میں درست معلومات نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی ایک تعداد اس رات کو غفلت بلکہ گناہوں میں گزارتی اور اس کی برکتوں سے محروم ہوجاتی ہے، جس میں آخرت کا سخت نقصان ہے۔ ایسے لوگوں کو دنیاوی نقصانات کا بھی سامناہوتاہے۔ شب برأت میں بہت سے مسلم نوجوان آتشبازی کرتے ہیں جبکہ آتشبازی کرنا سخت منع ہے ۔امامِ اہل سنت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں: ”آتش بازی جس طرح شادیوں اور شبِ براءت میں رائج ہے بیشک حرام اور پورا جُرم ہے کہ اس میں تضییعِ مال(مال کو ضائع کرنا) ہے، قرآنِ مجید میں ایسے لوگوں کو شیطان کے بھائی فرمایا:(پ15،بنی اسراءیل:26-27، ترجمۂ کنزالایمان) اور فضول نہ اڑا، بیشک اُڑانے والے(فضول خرچی کرنے والے ) شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے)(فتاوی رضویہ،ج23، ص279) 14شعبان کومساجدمیں عصر کی نمازباجماعت پڑھ کر وَہیں نفل اعتکاف کی نیت سے بیٹھ جائیں تاکہ اعمال نامہ تبدیل ہو نے کے آخر ی لمحات میں مسجِد کی حاضِری، اعتکاف اور انتظارِ نماز وغیرہ کا ثواب لکھا جائے۔ غروبِِ آفتاب کے بعدروزہ افطارکیا جائے ۔نمازِمغرب باجماعت اداکرنے کے بعدچھ نوافل پڑھے جائیں ۔ سورۂ یٰسٓ کی تلاوت کی جائے اور دعائے نصف شعبان بھی پڑھی یا سنی جائے یوں شب براءت کا آغازہی نیکیوں سے کیا جائے ۔شب برأت میں اپنے مرحومین کے لئے ایصال ثواب کریں، اور شب میں اپنے مرحومین کی زیارت کے لئے قبرستان جائیں ۔اور وہاں تلاوتِ قرآن مجید کریں اورادو وظائف پڑھیں، اور مرحومین کے لئے دعا کریں لیکن قبر پر اگر بتی، موم بتی ہرگز نہ جلائیں کہ یہ منع ہے ۔
ان متبرک راتوں میں دیکھایہ جاتاہے کہ قوم مسلم کے نوجوان شب بیداری کے نام پرموٹرسائیکل ریسنگ میں،کوئی موبائل گیم میں توکوئی کیرم بورڈوغیرہ کھیلنے میں مصروف ہوجاتے ہیں ،خداکے واسطے ایساہرگزنہ کریں بلکہ جتنی دیرتک مسجدیاگھرمیں وضوکے ساتھ درودپاک ،تسبیح وتہلیل اورنوافل میں گزارسکتے ہیں گزاریں اس کے بعدسوجائیں مگران لغویات کاموں میں ہرگزمشغول نہ رہیں ورنہ ثواب کی بجائے عذاب کےمستحق ہوں گے۔ اس وقت ملک کے جوحالات ہیں ایسے میں ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے رب کی بارگاہ میں گریہ وزاری کریں اوردعائیں کریں کہ مولیٰ تعالیٰ پوری دنیاخصوصاًبھارت کے مسلمانوں کے جان ومال اورعزت وآبروکی حفاظت فرمائے اورہم سب کوامن وامان اورپرسکون زندگی عطافرمائے اوردنیاوآخرت کی سعادتوں سے مشرف فرمائے ۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ۔