اثر خامہ: نازش مدنی مرادآبادی
نزیل حال : ضلع سنبھل ،یوپی
ایک عرصہ سے قلبی ارمان تھا کہ کسی روز اپنے محسن، سرکار مفتی اعظم راجستھان، اشفاق العلماء، بابائے قوم و ملت حضرت علامہ الشاہ مفتی اشفاق حسین نعیمی اجملی نوّر اللہُ مرقدہ کے آبائی گاؤں شیونالی جا کر ان در ودیوار کو چوموں اور اس خاک کا بوسہ لوں جس نے میرے محسن کے رخ زیبا کی زیارت کی ہے۔ بحمد اللہ رب کریم نے اس ارمان کو پورا کیا اور گزشتہ کل مورخہ 17 شعبان المعظم 1443،بمطابق 21 مارچ 2022 بروز پیر کو علی الصباح فقیر (نازش مدنی) حضور مفتی اعظم راجستھان قدس سرہ العزیز کے آبائی گاؤں شیونالی کے لئے عازم سفر ہوا۔ اسی درمیان شہزادہ مفتی اعظم راجستھان، مرید محدث اعظم ہند،صوفی باصفا حضرت الحاج معین اشرفی دام اقبالہ کا فون تشریف لایا اور آپ نے سنبھل آنے کی دعوت دی لہذا عنان سفر کو سنبھل کی طرف موڑا اور حضرت کے کاشانہ پر پہنچ گیا وہاں بیٹھک میں پہلے ہی مقامی علما کی بزم سجی ہوئی تھی۔ بندہ ناچیز بھی ایک طرف بیٹھ گیا اور علمائے کرام کی گفتگو سے محظوظ ہونے لگا۔ کافی دیر تک یہ سلسلہ جاری وساری رہا۔ اس کے بعد حاجی صاحب قبلہ نے پرتکلف کھانے کھانے کا اہتمام کیا۔ظہرانہ سے فارغ ہوکر حاجی صاحب کے ساتھ موضع جویا ضلع امروہہ کی جانب روانگی ہوئی وہاں پہنچ کر دار العلوم اشفاقیہ کی دیدہ زیب عمارت کا معائنہ کیا۔ اس ادارہ کی بنیاد سرکار مفتی اعظم راجستھان حضرت علامہ مفتی اشفاق حسین نعیمی علیہ الرحمۃ والرضوان اور سرکار امین ملت حضرت پروفیسر سید امین میاں قادری برکاتی(سجادہ نشین آستانہ عالیہ برکاتیہ ،مارہرہ مطہرہ ضلع ایٹہ ) نے اکتوبر 2012 میں رکھی۔ اس کے بعد عرصہ تک تعمیری کام رکا رہا پھر شہزادہ مفتی اعظم راجستھان حاجی معین اشرفی صاحب نے اکتوبر2019 میں اس کے تعمیری کاموں کی طرف توجہ دی اور اب الحمد للہ عزوجل تعمیری کام تکمیل کے مرحلے میں ہے۔دارالعلوم میں تقریبا ً 16 روم ،چار وسیع وعریض ہال (ایک استقبالیہ ، ایک کانفرنس ، ایک لائبریری اور ایک دارا الحدیث ہال) موجود ہیں۔ ان شاءالله تعالیٰ بعد رمضان تعلیم کا بھی آغاز ہونے کو ہے۔ بحمد اللہ یہ ادارہ دینی اور دنیوی دونوں تعلیم کا حسین سنگم ثابت ہوگا۔ کیونکہ حضور اشفاق العلماء مفتی اعظم راجستھان علیہ الرحمہ نے اپنی زمانہ حیات ہی میں بنیاد رکھتے وقت فرمایا تھا: کہ مُستقبل میں یہ ایسا ادارہ ہوگا جہاں بیک وقت دینی وعصری دونوں تعلیم سے طالبان علوم نبویہ کو آراستہ وپیراستہ کیا جائے گا۔
اس کے بعد مفتی اعظم راجستھان کے آبائی گاؤں شیونالی کی طرف ہم روانہ ہوئے۔ شیونالی دہلی، لکھنؤ شاہراہ پر واقع ایک خوبصورت ترکوں کا گاؤں ہے۔ گاؤں کے بزرگوں بتاتے ہیں کہ اس گاؤں کو پانچ ترک خاندانوں نے بسایا تھا۔ گاؤں میں داخلے کے لئے پتھروں سے بنا ایک عظیم اور خوبصورت دروازہ ہے جس پر جلی حروف میں لکھا ہے بابِ اشفاق جس کو کے، بی، نیٹ منٹری محبوب علی نے حضور مفتی اعظم راجستھان علیہ الرحمہ کے یاد میں بنوایا ہے۔گاؤں میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے ہم حضور مفتی اعظم راجستھان علیہ الرحمہ کی تعمیر کردہ بیٹھک میں پہنچے (جس کی بنیاد مفتی یونس نعیمی علیہ الرحمہ نے رکھی تھی) جہاں پہلے ہی بزرگوں کی چوکھڑی لگی ہوئی تھی ،اور حقہ کی گڑگڑاہٹ محفل کا رنگ دوبالا کر رہی تھی۔ بزرگوں نے بڑی عزت وشفقت سے نوازا اور کرسی منگوا کر ازراہِ شفقت سرہانے بٹھایا ورنہ ادب کا تقاضا تو یہی ہے کہ بزرگوں کی پائنتی میں بیٹھا جائے مگر۔۔۔۔۔
الامر فوق الادب
کافی دیر تک بزرگوں سے حضرت مفتی اعظم راجستھان علیہ الرحمہ کے زمانہ طفلی اور عہد شباب کے بابت گفت وشنید کا سلسلہ جاری رہا اور فقیر محظوظ ہوتا رہا۔ ایک بزرگ اصغر لالہ تو مفتی صاحب علیہ الرحمہ کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے، اور فرمانے لگے: مفتی صاحب جیسا آدمی میں نے آج تک نہیں دیکھا۔
اس کے بعد نماز عصر گاؤں کی مرکزی مسجد میں ادا کی گئی یہ وہی مسجد ہے جس میں مفتی صاحب علیہ الرحمہ کے والد گرامی مرحوم الطاف حسین علیہ الرحمہ نے مفتی صاحب کی ابتدائی تعلیم کے لئے مکتب قائم فرمایا تھا۔ بعد نماز عصر مفتی صاحب کے بھتیجے محترم شمیم صاحب نے اپنے گھر پُرتکلف ناشتے کا اہتمام کیا، ناشتہ سے فارغ ہوکر حضور مفتی اعظم راجستھان کے ممتاز شاگرد اور شیونالی کی عظیم ترین شخصیت حضرت علامہ مولانا جمیل احمد اشفاقی دام ظلہ العالی سے ملاقات کے لئے آپ کے کاشانہ پر پہنچے۔ آپ نے بھی حضرت اشفاق العلماء کے حوالہ کئی اہم باتیں بتائی، بعدہ حضرت سے اجازت لے کر واپس ہوئے۔
مفتی اعظم راجستھان علیہ الرحمہ کے بابت بزرگوں سے ملنے والی تمام معلومات ایک مضمون کی شکل میں ان شاءالله تعالیٰ حضرت کے عرس کے موقع پر قارئین کی نذر کی جائے گی۔