تحریر: عبد الامین برکاتی قادری
ویراول گجرات
ایک دفعہ شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے مشہور معاصر بزرگ سید احمد کبیر رفاعی رحمتہ اللہ علیہ بازار تشریف لے جا رہے تھے ،سڑک پر ایک خارشی کتا دیکھا، خارش اور بیماری کی وجہ سے اس سے چلا بھی نہیں جارہا تھا جو اللہ کے نیک بندے ہوتے ہیں، ان کو اللہ کی مخلوق سے بھی بے پناہ شفقت اور محبت ہوتی ہے، اور یہ محبت و شفقت اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ سے خصوصی تعلق ہے اسی کو مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
ز تسبیح و سجادہ و دلق نیست طریقت بجز خدمت خلق نیست
یعنی تسبیح،مصلی اور گدڑی کا نام طریقت نہیں،بلکہ خدمت خلق کا نام طریقت ہے۔
جب سید احمد کبیر رفاعی رحمتہ اللہ علیہ نے اس کتے کو اس حالت میں دیکھا تو آپ کو اس پر ترس و رحم آیا،اور اس کتے کو اٹھا کر گھر لاے،پھر معالج کو بلا کر اس کا علاج کرایا، اس کی دوا کی،اور روزانہ اس کی مرہم و پٹی کرتے رہے،کئی مہینوں تک اس کا علاج کرتے رہے،یھاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس کو تندرست کردیا تو آپ نے اپنے کسی ساتھی سے کھا کہ اگر کوئی شخص روزانہ اس کو کھلانے پلانے کا ذمہ لے تو اس کو لیجاے،ورنہ میں ہی اس کو رکھتا ہوں،اور اس کو کھلاؤں گا،اس طرح آپ نے اس کتے کی پرورش کی۔
ایک کتے سے مکالمہ:
اس واقعہ کے بعد ایک روز سید احمد کبیررفاعی رحمتہ اللہ علیہ کہیں تشریف لے جا رہے تھے،بارش کا موسم تھا،کھیتوں کے درمیان جو پگڈنڈی ہوتی ہے،اس پر سے گزر رہے تھے،دونوں طرف پانی بھرا تھا،کیچڑتھی، چلتے چلتے سامنے سے اس پگڈنڈی پر ایک کتا آگیا، اب یہ بھی رک گئے اور کتا بھی ان کو دیکھ کر رک گیا، وہ پگڈنڈی اتنی چھوٹی تھی کہ ایک وقت میں ایک ہی آدمی گزر سکتا تھا، دو آدمی نہیں گزر سکتے تھے اب یا تو کتا نیچیکیچڑ میں اتر جاے،اور یہ اوپر سے گزر جایں، یا پھر یہ کیچڑ میں اتر جایں،اور کتا اوپر سے گزر جاے، دل میں کشمکش پیدا ہوئی کہ کیا کیا جاے ؟ کون نیچے اترے،میں اتروں، یا کتا اترے ؟
اس وقت سید احمد کبیر رفاعی رحمتہ اللہ علیہ کا اس کتے کے ساتھ مکالمہ ہوا، اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں کہ یہ مکالمہ کس طرح ہوا؟ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بطور کرامت کے اس کتے کو کچھ دیر کے لیے زبان دیدی ہو اور واقعی مکالمہ ہوا ہو،اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے دل میں یہ مکالمہ کیا ہو،بہرحال اس مکالمہ میں حضرت سید احمد کبیر رحمتہ اللہ علیہ نے اس کتے سے کہا کہ تو نیچے اتر جا، تو میں اوپر سے گزر جاؤں
کتے نے جواب میں کہا :میں نیچے کیوں اتروں، تم تو بڑے درویش اور اللہ کے ولی بننے پھرتے ہواور اللہ کے ولیوں کا تو یہ حال ہوتا ہے کہ وہ ایثار کا پیکر ہوتے ہیں،دوسروں کے لیے قربانی دیتے ہیں،تم کیسے اللہ والے ہو کہ مجہے اترنے کا حکم دے رہے ہو، خود کیوں نہیں اتر جاتے ؟
حضرت شیخ نے جواب میں فرمایا کہ بات دراصل یہ ہے کہ میرے اور تیرے اندر فرق ہے، وہ یہ کہ میں مکلف ہوں،تو غیر مکلف ہے،مجہے نماز پڑھنی ہے،تجھے نماز نہیں پڑھنی ہے،اگر نیچے اترنے سے تیرا جسم گندہ اور ناپاک ہو گیا تو تجھے غسل و طہارت کی ضرورت نہیں ہوگی،اگر میں اتر گیا تو میرے کپڑے ناپاک ہوجایں گے اور میری نماز میں خلل ہوگا، اس لیے میں تجھ سے کہہ رہا ہوں کہ تو نیچے اتر جا ورنہ دل گندہ ہوجاے گا
کتے نے جواب میں کہا: وہ ! آپ نے بھی عجیب بات کہی کہ کپڑے گندے ھوجایں گے تو ان کا علاج یہ ہے کہ ان کو اتار کر دھو لینا، وہ کپڑے پاک ھوجایں گے، لیکن اگر میں نیچے اتر گیا تو تمہارا دل گندہ ہوجاے گا اور تمہارے دل میں یہ خیال آجاے گا کہ میں اس کتے سے افضل ہوں، میں انسان ہوں،اور یہ کتا ہے، اس خیال کی وجہ سے تمہارا دل ایسا گندہ ہوجاے گا کہ اس کی پاکی کا کوئی راستہ نہیں،اس لیے بہتر یہ ہے کہ دل کی گندگی کے بجاے کپڑوں کی گندگی کو گوارہ کرلو اور نیچے اتر جاو
بس، کتے کا یہ جواب سن کر حضرت شیخ نے ہتھیار ڈال دییاور فرمایا کہ تم نے صحیح کہا کہ کپڑوں کو دوبارہ دھو سکتا ہوں،لیکن دل نہیں دھو سکتا، یہ کہ کر آپ کیچڑ میں اتر گئے اور کتے کو راستہ دے دیا۔
جب یہ مکالمہ ہوگیا، تو اللہ وحدہ کی طرف سے حضرت سید احمد کبیر رفاعی رحمتہ اللہ علیہ کو الہام ہوا،اور اس میں اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ اے احمد کبیر! آج ہم نے تم کو ایک ایسے علم کی دولت سے نوازہ کہ سارے علوم ایک طرف اور یہ علم ایک طرف،اور یہ درحقیقت تمہارے اس عمل کا انعام ہے کہ تم نے چند روز پہلیایک کتے پر ترس کھا کر علاج و دیکھ بھال کی تھی،اس عمل کے بدولت ہم نے تمہیں ایک کتے کے ذریعہ ایسا علم عطا کیا جس پر سارے علوم قربان ہیں،وہ علم یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو کتے سے بھی افضل نہ سمجھے اور کتے کو اپنے مقابلے میں حقیر خیال نہ کرے۔