از : پروفیسر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی
کامل الحدیث جامعہ نظامیہ ، M.A., M.Com., Ph.D (Osm)
شرعی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اور پورے ادب و احترام کے ساتھ جلوس نکالنا صحابہ کرام کی سنت ہے جس کا ثبوت بے شمار احادیث میں ملتا ہے۔ جلوس نکالنے کا یہ سلسلہآج تک جاری ہے اور انشاء اللہ العزیز تاصبح قیامت پوری آب و تاب کے ساتھ جاری و ساری رہے گا۔ دنیا کے گوشے گوشے میں عید میلاد النبیؐ کے مبارک و مسعود موقع پر انتہائی تزک و احتشام ، ادب و احترام اور شرعی اصول کی مکمل رعایت کرتے ہوئے درود و سلام، حمد و نعت سے مہکی ہوئی فضاء میں انتہائی پرامن طریقہ سے جلوس نکالا گیا جس میں کیف و مستی کا ایک سماع طاری تھا، آمد و رفت میں خلل واقع نہ ہو اس کا پورا پورا خیال رکھا گیا، غرباء و مساکین بیت المعمرین (اولڈ ایج ہوم) اور مریضوں میں اشیائے مایحتاج اور میوہ جات و ادویات تقسیم کیے گیے ، شجر کاری مہم چلائی گئی ، رضا کارانہ طور پر بلڈ ڈونیشن (خون کا عطیہ) کیمپ قائم کیے گیے جس سے بھائی چارے اور انسانی محبت میں اضافہ کا پیغام ملتا ہے۔ لیکن کچھ عرصہ سے دیکھنے میں آرہا ہے کہ ایسے باوقار جلوس میں لوگ نادانستہ طور پر ایسے حرکات و افعال کا ارتکاب کررہے ہیں جو غیر اسلامی ہیںجس سے اجتناب حد درجہ ضروری و لازم ہے ورنہ ہماری اس غلط روش کے باعث نہ صرف ہمارے اعمال صالحہ ضائع ہونے کے امکانات قوی ہوجاتے ہیں بلکہ بسا اوقات نور ایمانی سے محروم ہونے کا خدشہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ رحمت عالمؐ کی زندگی کا ہر لمحہ روح افزا اور جاںگداز اور آپؐ سے منسوب تمام اشیاء رحمتوں و برکتوں کا برتوکامل اور ہدایت و تجلیات کا مھبط اکمل و اجمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جلیل القدر صحابہ کرام ، تابعین ، تبع تابعین اور بزرگان دین محسن انسانیتؐ سے منسوب ہر شئی کا حد درجہ ادب و احترام کیا کرتے تھے۔ مدینہ طیبہ کو سرور کونینؐ سے خاص نسبت حاصل ہے اسی باعث امام مالکؒاشاہ بطحاؐ کی اس ہجرت گاہ کا اس قدر ادب و احترام اور تعظیم و تکریم کیا کرتے تھے کہ روایت میں آتا ہے کہ آپؒ حدود حرم مدنیمیں نہ پیر میں جوتی پہنا کرتے ، نہ گھوڑے پر سوار ہوتے اور نہ ہی قضائے حاجت کیا کرتے تھے محض اس خوف سے کہیں اس ارض مقدس کی توہین نہ ہوجائے۔ انہی بابرکت اشیاء میں سے ایک انتہائی اہمیت کا حامل میلاد النبیؐ کا جلوس ہے جس کی نسبت اس رحمت العالمین کے نام سے وابستہ ہے جن کا مبارک نام عرش پر رب کائنات کے ساتھ مکتوب ہے۔ وجہ تخلیق عالم سے منسوب میلاد النبی ؐ کے جلوس کو دینی، ملی، مذہبی ، تہذیبی، اخلاقی، روحانی الغرض ہر لحاظ سے امتیاز حاصل ہے جو دنیا کے کسی اور جلوس کو حاصل نہیں ہے۔ لیکن صد حیف کہ شیطانی وساوس، نفساتی خواہشات اور دنیاپرستی نے ہمیں اس قدرت اندھا بنادیا ہے کہ ہم نے محض اپنی شان و شوکت اور من مانی کا اظہار کرنے کے لیے میلاد النبی ؐ جیسے فیوض و برکات والے جلوس میں ادب و احترام کو ملحوظ رکھنے کے بجائے کرتب بازی، آتش بازی ،ہلڑ بازی ،رقص و سرور اور موسیقی کا ایسا استعمال کیا ہے جس سے یہود و نصاری اور غیر مسلم حضرات بھی شرماجائیں۔ شدید محبت کے باعث جس نبی کے نام نامی اسم گرامی میں رب کو نقطہ گوارا نہ ہوا ہم نبی سے عشق کا دعوی بھی کرتے ہیں اور اپنے افعال قبیحہ کے ذریعہ اسی نبی کے نام سے منسوب میلاد جلوس کے تقدس کو پامال بھی کررہے ہیں(العیاذ باللہ) ۔ تمام علماء و مشائخ صراحتاً بتادیا کہ میلاد النبیؐ کے جلوس میں DJ کا استعمال غیر شرعی ہے اس کے باوجود نوجوانوں نے اس کا استعمال کیا اور ایک کار میں موجود DJ سسٹم کو آگ لگ گئی جس کی وجہ سے بھگدڑ مچ گئی، حالات کشیدہ ہوگیے اور بعض لوگوں کا مالی نقصان بھی ہوا۔ مشتعل نوجوان نے پولیس کی جانب سے نصب کردہ بریگیڈ کو توڑرہے تھے جس کے بعد پولیس کو نوجوانوں کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کرنا پڑا ہے۔ افسوس صد افسوس بے ہودگی، بے نظمی اوربے ضابطگی کے یہ تمام واقعات اس نبیؐ کی ولادت کی خوشی میں نکالے گیے جلوس میں ہورہے ہیں جس نبیؐ نے ہمیں نظم و ضبط کی تعلیم عنایت فرمائی ہے۔ فوج کی ایک چھوٹی سی ٹکڑی میںنظم و ضبط پیدا کرنے کے لیے حکومت وقت کو کروڑہا روپیہ کا بجٹ خرچ کرنا پڑتا ہے تو دوسری طرف امت مسلمہ کو رسول رحمتؐ اس قدر منظم بنادیا کہ پیش امام صاحب تکبیر تحریمہ کہتے ہیںتو مقتدیوں کا لاکھوں کا مجمع بیک وقت اللہ اکبر کہہ کر نماز کی ابتداء کرتے ہیں۔ صدحیف کہ اسی امت مرحومہ سے وابستہ نوجوانوں نے بعض مقامات پر میلاد النبیؐ کے جلوس کے درمیان بدنظمی کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے محکمہ پولیس کے اہلکاروں کو ان پر لاٹھیاں برسانی پڑیں۔ کس قدر معیوب بات ہے کہ جس نبیؐ کی آمد پر لوگ پھول کی پتیاں نچھاور کرتے تھے اسی نبیؐ کو ماننے والی قوم پر پولیس لاٹھیوں کا استعمال کررہی ہے۔ آج اغیار ہماری اس اوچی حرکتوں پر ہنس رہے ہیں ۔ ہمیں سونچنا چاہیے کہ ہم خود کس قدر اسلامی تعلیمات اور تہذیب و تمدن کو مسخ کرکے دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں ؟کیا ہماری اس غلط روش کو دیکھ کر لوگ اسلامی تعلیمات اور اسلامی تہذیب و ثقافت اور تمدن سے متاثر ہوں گے اور اگر جواب نفی میں ہے تو ہم اپنے آپ سے سوال کریں کہ ہم کیسے امیر المعروف و نہی عن المنکر کی مذہبی ذمہ داری سے عہدہ مبرا ہوں گے۔ جس نبیؐ نے میدان جنگ میں ہمیں نماز کا طریقہ تعلیم فرمایا ہے تاکہ حالت ِ جنگ میں بھی نماز قضا نہ ہواور ہمارا یہ حال ہے کہ مساجد سے اذانیں ہورہی ہیں اور ہم مساجد کا رخ کرنے کے بجائے اپنے اوچی حرکتوں میں مصروف ہیں۔ آج کے اس پرتعصب اور پر فتن دور میں بھی وطن عزیز ہندوستان میں بعض غیر مسلم حضرات ایسے ہیں جو اذان کی آواز سنتے ہی اپنی تقریر اور خطاب روک دیتے ہیں لیکن ہمیں اذان اور نماز کی ادائیگی کے لیے جلوس روکنے کی توفیق نہیں ہے۔ ہماری اس غلط روش کو بہانہ بناکر اغیار بالخصوص مخالف مکاتب فکر کے افراد میلاد جلوس کو اپنی شدید تنقید و ملامت کا نشانہ بنارہے ہیں اور جلوس نکالنے کی سخت محالفت کررہے ہیں۔ ان کی خدمت میں بس اتنا عرض کرنا ہے کہ حقیقی مومن تنقید برائے تنقید نہیں کرتا بلکہ وہ تنقید برائے تعمیر میں یقین رکھتا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا کام یہ نہیں ہے کہ ہم کسی کو کافر یا مشرک کہیں بلکہ کافر و مشرک کو مسلمان بنانا ہماری مذہبی ذمہ داری ہے، کسی کو گمراہ و بدعتی کہنے کے لیے ہمیں پیدا نہیں کیا گیا بلکہ گمراہ و بدعتی کو رشد و ہدایت کی راہ پر لانے اور اسے نیک بخت بنانے کے لیے ہمیں وجودبخشا گیا ہے۔ روزہ کا اصل مقصد نفسانی خواہشات کو قابو میں رکھنا ہے لیکن بہت سارے روزہ دار ایسے ہیں جوسال کے بارہ مہینے بشمول رمضان المبارک جیسے بابرکت مہینے میں بھی نفسانی خواہشات کا شکار رہتے ہیںاس کو بنیاد بناکر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ رمضان المبارک کے روزے ہی ترک کردیناجانا چاہے بلکہ ہم نفسانی خواہشات کے اسیر لوگوں کو سمجھائیں گے نفسانی خواہشات کو پورا کرنے سے روزہ کے فوائد و برکات ختم ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح میلاد جلوس میں ہونے والے غیر اسلامی حرکات کی نشاندہی کرنااور گمراہ نوجوان نسل کو ایسے حرکات و افعال سے بچنے کی تلقین و تاکید کرنا بحیثیت مسلمان ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔ میلاد جلوس کے دوران مذکورہ بالا ہمارے افعال قبیحہ نہ صرف غیر انسانی اور غیر اسلامی ہے بلکہ صحابہ کرام کے طرز حیات کے بھی خلاف ہے جبکہ اللہ تعالی ہمیں صحابہ کی طرح ایمان لانے کا حکم دیتا ہے جس کا اظہار ہمارے تمام افکار و خیالات اور افعال و اعمال سے ہونا چاہیے ۔ اگر آج مسلمانوں کی اکثریت نبی رحمتؐ سے منسوب اشیاء کا اسی طرح ادب و احترام کرتی جیسا صحابہ کرام نے کیا تھا تو ہماری یوں جگ ہنسائی نہ ہوتی۔ روایت میں مذکورہے کہ نبی مکرم و محتشمؐ کا پیالہ ٹوٹ گیا تو حضرت انسؓ نے اس ٹوٹے ہوئے پیالہ کو جوڑنے کے لیے کسی عام شئی کا استعمال نہیں کیا بلکہ اس پیالہ کی قدر و قیمت کے مطابق اس پیالہ پرچاندی کا تار لگا دیا۔ صحابہ کرام کی مقدس جماعت پیغمبر اسلامؐ سے اس قدر والہانہ محبت رکھتی تھی کہ آپؐ کے لعاب دہن (تھوک)، پسینہ، وضوکا بچا ہوا پانی، اور خون کو بھی متبرک جانتے اور بغرض حصول برکت ان مبارک اشیاء سے مستفید ہوتے۔ مشہور صوفی شاعر حضرت عبدالرحمن جامیؒ فرماتے ہیں کہ اگر آپؐ کبھی میری طرف تشریف لائیں تو میں مسکین و ناداری اور عاجزی سے آپ کے نعلین مبارک کے نقش پر اپنی جان قربان کردوں گا۔ اور ایک طرف ہم ہیں جو دعوی عشق مصطفیؐ کا کرتے ہیں لیکن ہم آپؐ کے نام سے منسوب میلاد النبیؐ کے جلوس میں ادب و احترام کو ملحوظ خاطر نہ رکھا بلکہ طوفان بدتمیزی کی تمام حدود کو پھلانگ دیا۔ ایسی نازیبا حرکات کے ذریعہ ہم عشق رسولؐ کا دعوی نہیں کرسکتے بلکہ ہماری یہ غلط روش ہمارے تمام اعمال صالحہ بشمول، نماز، روزہ، زکوٰۃ ، حج اور متبرک راتوں میں کی جانے والی عبادات کے عوض ملنے والے اجر عظیم کو ضائع کرنے کا سبب بنتی ہے لہٰذا ہمیں ایسے حرکات سے حد درجہ اجتناب کرنا ہوگا ورنہ دنیا و آخرت دنوں میں ہماری تباہی و بربادی یقینیہے۔اگر ہم واقعتا دنیا میں برکت اور آخرت میں نجات چاہتے ہیں تو بصد خلوص اور ادب و احترام کے ساتھ میلاد النبیؐ کے جلوس میں شرکت کریں ورنہ جس طرح علمائے کرام کا ارشاد مبارک ہے کہ متبرک راتوں میں جاگ کر ہلڑ بازیاں مچانے سے بہتر ہے کہ آدمی سو جائے کم از کم وہ برائیاں کمانے اور عذاب الٰہی میں گرفتار ہونے سے بچا رہے گا اسی طرح میلاد النبیؐ کے جلوس میں شرکت کرکے بے ادبی کا مظاہرہ کرنے سے بہتر ہے کہ جلوس میں شرکت نہ کی جائے کم از کم اعمال صالحہ ضائع تو نہیں ہوں گے اور ہمارا ایمان بھی محفوظ رہے گا۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفی اس ماہ ِمبارک میں تمام مسلمانوں کو اپنی رحمت، مغفرت سے سرفراز فرمائے اور دوزخ سے نجات عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔