خلافت عباسیہ پانچویں قسط
دولت طولونیہ، دولت سامانیہ، دولت صفاریہ، فاطمی خلافت، قرامطہ کی تعدی۔
خلیفہ مہتدی باللہ (870-869) کے انتقال کے بعد اس کا چچازاد بھایی معتمد علی اللہ بن متوکل علی اللہ بن معتصم باللہ بن ہارون الرشید ( 892-870) خلافت عباسیہ کا پندرہ واں خلیفہ ہوا۔ وہ ام ولد فتیان نامی کے پیٹ سے پیدا ہوا ۔ وہ بھی سابق خلفاء کی طرح برائے نام خلیفہ تھا۔ اصل خلیفہ اس کا بھائی موفق تھا اور اسی کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور تھی۔ مختصر میں موفق defacto اور معتمد dejure خلیفہ تھا۔موفق اپنی شجاعت ذہانت، عقلمندی اور دانشمندی کے سبب تمام امور سلطنت پر قابض و متصرف ہو گیا تھا۔ اس سے پہلے ہم دیکھ چکے ہیں کہ سنہ 861 سے لیکر سنہ 870 تک جو چار خلفاء ہویے تھے کس طرح ان پر ترک فوج اور ترک سردار غالب ہو گیے تھے اور ان پر اپنا دباؤ بنانے ہویے تھے ۔ موفق نے قابو پاکر ان ترک فوج اور ترک فوجی سرداروں کے زوڑ کو توڑ دیا اور خود قابض و متصرف ہو گیا۔ موفق کے مشورے پر خلیفہ معتمدِ علی اللہ نے دارالخلافہ سامرہ سے بغداد منتقل کر دیا۔اس قدم سے ترکوں کے زور اور طاقت میں کمی آ گئی۔اس سے پہلے خلیفہ معتصم باللہ سامرہ کو عباسی خلافت کا دارالخلافہ بنایا تھا۔ معتمدِ کے دور خلافت میں خلافت کا مسند نہایت ہی کمزور پڑ گیا تھا ۔خلیفہ اپنی طاقت اور غلبہ کھو چکا تھا۔اسکی نہ کوئی سنتا تھا اور نہ ہی کوئی اطاعت کرتا تھا۔خلیفہ کی خلافت صرف بغداد کے سرحد تک محدود ہوکر رہ گیی تھی۔صوبے کے جو عمال تھے وہ خلیفہ کو خراج دینا بند کر دیے تھے ۔ بہت سارے علاقے آزاد اور خود مختار ہو چکے تھے اور وہاں ایک خاص لوگوں کی حکومت قائم ہو چکی تھی۔ مثال کے طور پر مصر اور شام میں سلطنت طولونیہ قائم ہو گیی تھی۔ اسی طرح خراسان اور بعید مشرق میں خاندان طاہریہ کا خاتمہ ہو گیا اور وہاں یعقوب بن لیث نے صفاریوں کی سلطنت قائم کی۔ اسی طرح عراق میں زنگیوں کی بغاوت شروع ہو گیی اور اقتدار حاصل کر چکے تھے۔ بحرین میں قرامطہ کی حکومت قائم ہو گیی اور طبرستان میں ذیدی شیعہ کی حکومت قائم ہو گی ۔ شمالی افریقہ میں فاطمی خلافت قائم ہو گیی۔ اس طرح نویں صدی کے اختتام کے قریب خلافت عباسیہ بہت کمزور ہو گیا اور بہت ساری سلطنتیں خلافت عباسیہ سے الگ ہوکر آزاد مملکت بن گیی۔
خلافت عباسیہ کے شروع ہی سے علویوں نے اس کی مخالفت میں کوششیں شروع کر دی تھیں۔ علویوں نے بار بار خروج کیا اور بار بار ناکامی کا منہ دیکھا۔ تیسری صدی ہجری کے آخری حصہ میں ملک شام کے سلمیہ علاقہ کا محمد حبیب نامی شخص اپنے آپ کو امام جعفر صادق کے بیٹے اسماعیل کی اولاد میں ہونے کا دعویٰ کیا اور حکومت و سلطنت کے حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس کے داعی یمن، افریقہ اور مراکش میں مصروف کار تھے۔ عراق کے شہر بصرہ کا ایک شخص ابو عبداللہ شیعی یمن میں دعوت و تبلیغ کے قاعدے سیکھ کر محمد حبیب کے حکم پر بربر کے علاقہ شمالی افریقہ کی طرف روانہ ہوا اور سنہ 288/ 900 شہر کتامہ پہنچا اور اہل کتامہ سے کہا کہ محمد حبیب کا بیٹا عبیداللہ امام مہدی ہے اور وہ اسی کا داعی بناکر بھیجا گیا ہے۔ ابو عبداللہ شیعی کے معتقدین نے عبیداللہ کے پاس پہنچ کر عرض کیا کہ ملک مغرب میں آپ کی حکومت قائم ہو چکی ہے۔ یہ سن کر عبیداللہ جو عبیداللہ المہدی کے نام سے مشہور ہوا سلمیہ سے اپنے ہمرایوں کے روانہ ہوا۔ یہ خبر عباسی خلیفہ مکتفی باللہ( 908-902) کے پاس پہنچی۔ اس نے مصر کے گورنر کو حکم دیا کے عبیداللہ المہدی کو گرفتار کرو لیکن وہ کسی طرح گرفتاری سے بچ گیا اور لیبیا کے شہر طرابلس پہنچا اور وہاں سے مراکش کے شہر سجلماسہ پہنچا لیکن یہاں اسے سجلماسہ کا حاکم زیادہ اللہ اغلبی کا خادم اسے گرفتار کر لیا۔اسی عرصہ میں ابو عبداللہ شیعی افریقہ کی شہروں کو فتح کرتے ہوئے قیروان پر قابض و متصرف ہوا۔اس کے بعد وہ مراکش پہنچا اور المہدی کو سجلماسہ کے جیل خانہ سے آزاد کرایا۔ عبیداللہ کو تخت پر بٹھایا۔ خود بھی بیعت کی اور دوسروں سے بھی بیعت کروایی۔ اس طرح عبیداللہ المہدی پہلا فاطمی خلیفہ ہوا۔
سنہ 892 میں سرزمین کوفہ میں ایک شخص ہمدان نامی عرف قرامطہ نے ایک نیا مذہب جاری کیا۔ اس کا عقیدہ تھا کہ امام صرف سات ہیں۔ محمد بن حنفیہ بن علی بن ابی طالب کو وہ رسول کہتا تھا۔ اس لئے اذان میں ان کے نام ( اشھد ان محمد بن الحنفیہ رسول اللہ) لیے جاتے تھے۔ وہ کہتا تھا کہ قرآن کی بعض سورتیں محمد بن حنفیہ پر نازل ہوئی ۔ وہ بیت المقدس کو قبلہ قرار دیا تھا۔ دن رات میں صرف دو نمازیں رکھی تھیں۔ یعنی دو رکعت قبل طلوع آفتاب اور دو رکعات بعد غروب آفتاب۔ جمعہ کے بجائے دوشنبہ کے دن کو بابرکت سمجھتا تھا اور اس دن کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ سال بھر میں دو روزے فرض سمجھتا تھا۔ نبیند کو حرام اور شراب کو حلال سمجھتا تھا۔ غسل جنابت کو غیر ضروری سمجھتا تھا۔اس نے بعض جانوروں کو حلال اور بعض جانوروں کو حرام قرار دیا تھا۔ اس نے اپنا لقب قائم بالحق رکھا تھا۔ جو شخص قرامطہ کا مخالف ہوتا اس کا قتلِ کرنا واجب ٹھرایا تھا۔
خاندان طولونیہ ( 905-868): طولون ایک ترک لڑکا تھا جو لڑکپن میں فرغانہ کی لڑائی میں گرفتار ہو کر آیا تھا۔ اس نے خاندان خلافت میں پرورش پایی تھی اور اور غلامان شاہی میں شامل تھا۔ اس کے بیٹے آحمد نے بھی دارالخلافہ میں پرورش پاکر امور سلطنت سے واقفیت حاصل کی تھی۔ خلیفہ معتز باللہ نے بابکیال کو جب مصر کی سند گورنری عطا کی تو اس نے آحمد بن طولون کو مصر کا حکمران بنا دیا۔ خلیفہ معتز کے بعد خلیفہ مہتدی باللہ نے جب بابکیال کا قتل کرا دیا تو مصر کا جو نیا گورنر ہوا اس نے بھی احمد بن طولون کو مصر کی حکومت پر مامور رکھا۔ اس طرح احمد بن طولون حکومت مصر پر مضبوطی سے قائم ہو گیا اور پھر اس کی اولاد مصر پر حکومت کرتی رہی اور ان لوگوں نے اپنا سکہ مصر میں چلایا۔ اس طرح خلافت عباسیہ سے خود مختار ہو کر آزادانہ طور پر مصر میں حکومت طولونیہ قائم ہویی۔ سال 880 میں احمد بن طولون کا ملک شام پر بھی قبضہ ہو گیا۔ اس طرح احمد بن طولون کی حکومت میں مصر و شام دونوں ملک آ گیے۔ سال 884 میں احمد اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔احمد بن طولون کے بعد اس کا لڑکا خمارویہ شام و مصر کا حاکم یوا۔ خلیفہ معتمدِ کے بھائی موفق نے اپنے بیٹے ابو العباس معتضد کو شام کی طرف روانہ کیا لیکن خمارویہ نے معتضد کو شکست دی۔ سال 905 تک طولونیہ حکومت قائم رہی اور پھر اس کا خاتمہ ہو گیا۔
سلطنت صفاریہ کا قیام: مشرقی ایران کے سجستان میں یعقوب بن لیث صفار اور اس کا بھائی عمرو بن صفار پیشہ سے تانبے کے برتن بنانے کا کاروبار کرتےتھے۔ خراسان میں خاندان طاہریہ کی حکومت قائم تھی اور اس کا قیام طاہر ابن حسین نے کی تھی اور پھر سال 821 سے 873 تک ظاہریہ خاندان کے گورنر حکومت کرتے رہے۔ طاہر ابن حسین خلیفہ مامون الرشید کے زمانہ میں عباسی فوج کا سپہ سالار تھا اور وہ مجوسی تھا۔ خاندان طاہریہ کا خاتمہ یعقوب بن لیث صفار کے ہاتھوں یوا اور اسکے مقام پر دولت صفاریہ کا قیام عمل میں آیا۔ سال 869 میں یعقوب بن لیث صفار نے فارس کے گورنر کو شکست دی اور فارس کے دارالسلطنت شیراز پر قابض ہو گیا۔ اس کے بعد سال 873 میں خاندان طاہریہ سے یعقوب بن لیث نے بتدریج تمام خراسان کو خالی کرا لیا اور خود قابض و متصرف ہوکر اپنی مستقل حکومت قائم کی۔ خراسان پر فتح پانے کے بعد سال 876 میں یعقوب بن لیث نے اپنی فوج لیکر بغداد کی طرف روانہ ہوا ۔خلیفہ معتمد علی اللہ کو جب یہ خبر موصول ہوئی تو اس نے اپنے بھائی موفق کو ایک لشکر دیکر یعقوب کے خلاف بھیجا۔ دونوں مخالف فوجیں بغداد کے جنوب مشرق میں استاربند میں ایک دوسرے کے مقابل ہویی۔ اس جنگ میں عباسی فوج کو فیصلہ کن فتح حاصل ہویی۔ جنگ میں شکست کھانے کے بعد یعقوب بن لیث صفار میدان چھوڑکر بھاگا اور مغرب کی طرف خوزستان کی طرف روانہ ہوا اور پھر بعد میں انتقال کر گیا۔
دولت سامانیہ کی بنیاد: اسد بن سامان خراسان کا رہنے والا تھا۔ اسد بن سامان خراسانی کے چار بیٹے تھے- نوح، احمد، یحییٰ اور الیاس۔ خلیفہ مامون الرشید نے اپنے دور خلافت میں اسعد بن سامان کے چاروں بیٹوں کو بالترتیب ماوراء النہر کے خطے سمرقند، فرغانہ، شاش و شروسنہ اور ہیرات کی حکومت پر مامور کیا ۔ یہ چاروں بھائی اپنے اپنے علاقوں میں حکمرانی کرنے لگے۔ جب مامون الرشید نے اپنے مشہور سپہ سالار طاہر بن حسین کو خراسان کی حکومت پر مامور کرکے بھیجا تو طاہر بن حسین نے بھی ان چاروں بھایئوں کو بدستور مامور رکھا۔ ۔ان چار بھائیوں میں نوح اور الیاس کا انتقال ہو گیا۔ احمد بن اسد کے سات لڑکے تھے۔ جب احمد بن اسد کا انتقال ہو گیا تو سمرقند کے صوبہ کی حکومت اس کے بڑے بیٹے نصر کو ملی۔نصر اس صوبہ پر خاندان طاہریہ کے خراسان سے بے دخل ہونے اور یعقوب بن لیث صفار کے قابض و متصرف یونے تک حکومت کرتا رہا۔ سنہ 875 میں خلیفہ معتمد علی اللہ نے نصر کو صوبہ سمرقند کی سند گورنری بھیج دی۔ نصر نے اپنے بھائی اسماعیل کو بخارا کی امارت عطا کی اور اسی نے دولت سامانیہ کی بنیاد ڈالی۔ آسماعیل سامانی 892 سے 900 سال تک ماوراء النہر کا امیر اور 900 سے 907 سال تک خراسان کا امیر کے حیثیت سے حکمرانی کرتا رہا۔
علویوں کا خروج: سنہ 870 میں ابن صوفی جو محمد بن حنفیہ کے اولاد میں سے تھا اس نے مصر میں اور اسی سال علی ابن زید علوی نے کوفہ میں عباسی خلیفہ معتمد علی اللہ کے خلاف خروج کیا لیکن یہ دونوں بغاوتیں ناکام کر دی گئی۔
زنگیوں کی بغاوت کا استیصال: زنگی لوگ غلام تھے جو جنوبی مشرقی افریقہ کے ساحل سے گرفتار کر کے لایے گیے تھے۔ خلیفہ معتمدِ کے بیٹھتے ہی سال 871 میں زنگیوں نے عراق کے دو مشہور شہر بصرہ اور اہواز کو اپنے قبضہ میں لے لیا ۔ بصرہ پر قبضہ حاصل کرکے تمام بصرہ کو جلا کر خآک سیاہ کر دیا ۔ بڑی بڑی قیمتی اور خوبصورت عمارتیں جل کر خاکستر اور مٹی کا ڈھیر بن گیی۔ شہروں کو لوٹا گیا اور وہاں کے عوام کو قتلِ کیا گیا۔ خلیفہ نے ان لوگوں کے خلاف فوجی کاروائیاں کی لیکن کوئی کامیابی حاصل نہیں ہویی۔ بالاخر خلیفہ نے اپنے بھائی موفق کو جو اس وقت مکہ مکرمہ کا گورنر تھا اسے بلایا اور زنگیوں کے خلاف ایک لشکر دیکر بھیجا۔ زنگیوں کی شکست ہوئی اور انہیں گرفتار کیا گیا لیکن انہیں خلیفہ کے قیدیوں کے بدلے رہا کر دیا گیا۔
877 میں زنگیوں نے واسط شہر کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔زنگی برابر شاہی لشکر اور نامور سرداروں کو شکست دے رہے تھے اور شہروں کے امن و امان کو غارت کر رہے تھے۔ ترک بھی زنگی کے نام سے لرز رہے تھے۔ آخر خلیفہ معتمد کے بھائی موفق نے سنہ 880 میں اپنے بیٹے ابو العباس معتضد کو ان کے خلاف لشکر دیگر بھیجا اور اس نے واسط کے قریب ہی ایک جنگ میں زنگیوں کو شکست دی۔ اور پھر چار سال بعد 884 میں زنگیوں کا سردار غبیث مارا گیا اور فتنہ کا بالکل استیصال یو گیا۔ شہر میں چراغاں کیا گیا اور بڑی خوشیاں منایی گیی۔
خلیفہ معتضد باللہ ( 902-892) نے اپنے دور خلافت میں بغداد میں پارسیوں کے نو روز کے دن عید منانے اور آگ جلانے کی رسم پر پابندی لگا دی ۔ مامون الرشید کے زمانہ سے فلسفہ کا بہت چرچا ہو گیا تھا اس نے فلسفہ اور مناظرہ کی کتابوں کی اشاعت سے روک دیا تاکہ مذہبی فتنوں اور لڑائی جھگڑوں کا سدباب ہو۔ اس نے مکہ میں دارالندوہ کو گروا دیا اور مسجد بیت الحرام کے پاس ایک مسجد بنا دی۔ اس نے دفتر میراث قائم کیا اور ذوی الارحام کو بھی میراث میں حصہ دلانے کا التزام کیا۔
قرامطہ کا خروج: خلیفہ معتضد باللہ کے زمانہ میں قرامطہ کے عظیم لیڈر أبو سعيد الجنابي سال 899 میں بحرین کو فتح کیا اور مذہب قرامطہ کی لوگوں کو علانیہ دعوت دی اس کے بعد سال 901 میں ابو سعید الجنابي اپنے ہمراہیوں کو لیکر شہر بصرہ پر حملہ آور ہوا اور جیسے ہی یہ خبر خلیفہ معتضد کو پہنچی اس نے بغداد سے ایک لشکر شہر بصرہ کی حفاظت کے لیے بھیجا۔اس جنگ میں عباسی فوج کی شکست ہوئی اور اسکے سپاہیوں کو گرفتار کیا گیا۔ ابو سعید نے تمام قیدیوں کو آگ میں ڈال کر جلا دیا ۔۔بصرہ فتح کے بعد ابو سعید بحرین لوٹ آیا
قرامطہ کا ہنگامہ شام میں : خلیفہ معتضد کے انتقال کے بعد جب مکتفی باللہ ( 908-902) خلیفہ ہوا قرامطہ نے دمشق اور دوسرے شہروں میں بغاوت شروع کر دی۔ یہ صورت حال دیکھکر خلیفہ مکتفی نے خود قرامطہ کے خلاف کوچ کرنے کا فیصلہ کیا اور بغداد سے ایک لشکر کے ساتھ روانہ ہو اور شام کے رکہ شہر میں ٹھہرا۔ وہاں سے خلیفہ نے اپنے سپہ سالار محمد بن سلیمان کو دمشق کی جانب قرامطہ کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔۔ اس جنگ میں بہت سے قرامطی مقتول ہویے، بہت سے مقید اور بہت سے مفرور ہویے۔ قرامطہ کا سردار گرفتار ہوا اور اس کا قتل کر دیا گیا۔اس طرح ملک شام سے یہ فتنہ ختم ہوا
عراق میں قرامطہ کی شورش : خلیفہ مکتفی باللہ کے بعد اس کا بھائی مقتدر باللہ ( 932-908) خلیفہ ہوا۔اس کے دور حکومت میں بحرین کا حاکم ابو طاہر سلیمان ابن ابو سعید جنانی تھا۔وہ سنہ 923 سے لیکر 944 تک بحرین کا حاکم رہا۔ تخت نشیں ہوتے ہی ابو طاہر نے سنہ 924 میں بصرہ پر حملہ کیا، شہر میں لوٹ مار مچائی، یہاں کے لوگوں کو قتل کیا اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا۔ اس کے اگلے ہی سال ابو طاہر نے مکہ مکرمہ سے لوٹنے والے حاجیوں کے قافلوں پر حملہ اور ہوا اور مال و اسباب لوٹ لیا خلیفہ مقتدر باللہ نے فوج بھیجی۔ابو طاہر نے شاہی فوج کو شکست دیکر کوفہ تک اس کا تعاقب کیا اور وہاں سے بے حد مال و اسباب لیکر ہجر کی طرف روانہ یوا۔ اس کے بعد خلیفہ مقتدر نے آزربائیجان کے گورنر یوسف کو ابو طاہر کے خلاف بھیجا لیکن ابو طاہر نے اسے بھی شکست دی اور اس نے جزیرہ کو بھی تباہ کر ڈالا۔
مکہ میں قرامطہ کی تعدی: سال 930 میں حج کے ایام میں قرامطہ کا سردا ابو طاہر اور اس کے آدمیوں نے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا اور گیارہ روز تک مکہ کے باشندوں کو خوب لوٹا ۔یہ اس کا سب سے ناپاک حملہ تھا۔اس نے کعبہ شریف کے اندر گھوڑے دوراہے،حاجیوں کا قتل کیا اور جم جم کے کنویں کو لاشوں سے بھر دیا۔اس کے بعد اس نے حجر اسود کی چوری کی اسے اونٹ کے پیٹھ پر لاد کر الحجر، بحرین لیے گیا۔حجر اسود بیس برس تک قرامطہ کے قبضہ میں رہا۔سال 950 میں خلیفہ مطیع اللہ ہزار سونے کی دینار دیکر حجر اسود کو واپس لایا گیا اور اس کو اس کے اصل مقام پر دوبارہ نصب کیا گیا۔
تحریر: ریاض فردوسی۔9968012976