مذہبی مضامین

دنيا كی حقیقت اور قرآنی مثالیں

اس دنيا كو اللہ تعالی نے بے شمار نعمتیں سے آراستہ فرمایا لیکن اس کا سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ دنیا ضرور ایک دن فنا ہو جائے گی، یہ ہی اس کی عظیم حقیقت ہے جس کو کوئ جھٹلا نہیں سکتا۔ اسی بات کا اشارہ ہمیں قرآن مجید سے ملتا ہے۔ چنانچہ فرمان باری تعالٰی ہے
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانِ (26) وَيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَالِ وَالْإِكْرَامِ (27)
سورة الرحمن

دنیا کی زندگی ایک سفر کی مانند ہے۔ اس کا اختتام کب اور کس طرح ہو جائے اس سے ہر شخص نا آشنا ہے۔ اس فانی دنیا سے لوگ لمبی لمبی امیدیں لگایے زندگی کی رنگینیوں میں مست ومگن ہوتے ہیں۔ لیکن بالآخر جب انہیں موت آتی ہے تو حسرت وندامت کے علاوہ کوئ چارہ نہیں ہوتا۔ الغرض دنیا کی زندگی محض دھوکے کے علاوہ کچھ نہیں۔
رب ذوا الجلال کا فرمان ہے:
كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِؕ- وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-فَمَنْ زُحْزِحَ  عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ  الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَؕ- وَمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ (سورة ال عمران 185)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ دنیا کی عیش و عشرت اور زیب و زینت اگرچہ کتی ہی زیادہ ہو، یہ دھوکے کے سامان کے علاوہ کچھ نہیں، لہذا ہر انسان کو چاہئے کہ وہ دنیا کی رنگینیوں سے ہر گز دھوکہ نہ کھائے ، ذلیل دنیا کو حاصل کرنے کے لئے اپنی قیمتی ترین آخرت کو ہر گز تباہ نہ کرے۔ نیز اسی مفہوم کے موافق مزید دو آیتیں قرآن پاک میں موجود ہے۔

دنیا کی حقیقت كى وضاحت کے لیے گر قرآن مجید کی طرف نظر کی جائے تو بہترین مثال ملتی ہے۔ قال اللہ تعالٰی في القران الكريم:
اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ زِیْنَةٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیْنَكُمْ وَ تَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِؕ-كَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَكُوْنُ حُطَامًاؕ-وَ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیْدٌۙ-وَّ مَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانٌؕ-وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ (سورةالحدید آیت 20)
ترجمہ کنز العرفان: جان لو کہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل کو د اور زینت اور آپس میں فخر و غرور کرنا اور مالوں اور اولاد میں ایک دوسرے پر زیادتی چاہنا ہے ۔ (دنیا کی زندگی ایسے ہے جیسے وہ بارش جس کا اگایا ہو اسبزہ کسانوں کو اچھا لگا پھر وہ سبزہ سوکھ جاتا ہے تو تم اسے زرد دیکھتے ہو پھر وہ پامال کیا ہوا بے کار) ہو جاتا ہے اور آخرت میں سخت عذاب ہے اور اللہ کی طرف سے بخشش اور اس کی رضا بھی ہے اور دنی کی زندگی تو صرف دھو کے کا سامان ہے۔

چنانچہ مذکورہ آیت کی تفسیر مفتی قاسم عطاری صاحب اپنی کتاب تفسیر تعلیم القرآن میں کچھ یوں لکھتے ہیں کہ
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دنیا کے بارے میں پانچ چیزیں اور ایک مثال بیان فرمائی ہے۔ وہ پانچ چیزیں یہ ہیں (2،1) دنیا کی زندگی تو صرف کھیل کود ہے جو کہ بچوں کا کام ہے اور صرف اس کے حصول میں محنت و مشقت کرتے رہنا وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ (3) دنیا کی زندگی زینت و آرائش کا نام ہے جو کہ عورتوں کا شیوہ ہے۔ (5،4) دنیا کی زندگی آپس میں فخر و غرور کرنے اور مال اور اولاد میں ایک دوسرے پر زیادتی چاہنے کا نام ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے دنیوی زندگی کی ایک مثل ارشاد فرمائی کہ دنیا کی زندگی ایسی ہے جیسے وہ بارش جس کا آگایا ہو سبزہ کسانوں کو اچھا لگتا ہے، پھر وہ سبزہ کسی زمینی یا آسمانی آفت کی وجہ سے سوکھ جاتا ہے تو تم اس کا سبز رنگ جاتے رہنے کے بعد اسے زرد دیکھتے ہو، پھر وہ پامال کیا ہوا بے کار ہو جاتا ہے۔ یہی حال دنیا کی اس زندگی کا ہے اور حقیقت ہے کہ دنیا کی زندگی تو صرف دھو کے کا سامان ہے۔

یاد رہے کہ دنیا کی مذمت کے بارے میں قرآن پاک کی بہت سی آیات آئی ہیں اور انبیاء کرام عيهِمُ الصَّلوة و السلام كي تبلیغ کے مقاصد میں ایک مقصد دنیا کی محبت سے لوگوں کو بچانا بھی تھا، اس لئے انبیاء کرام عَيْهِمُ الصَّلُوةُ وَالسَّلام نے اپنے قوموں کے سامنے مختلف انداز میں دنیا کی مذمت بیان فرمائی، ہمارے آقا ﷺ نے اپنی امت کے سامنے کیسے دنیا کی مذمت بیان فرمائی ، اس سے متعلق چند احادیث ملاحظہ ہوں:

چنانچہ سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر اللہ کے نزدیک اس دنیا کی حیثیت ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو اللہ کسی کافر کو اس دنیا سے پانی کا ایک گھونٹ بھی نصیب نہ کرتا۔

اسی طرح سنن ترمذی کی ایک حدیث مبارکہ ہے جس کے راوی سیدنا مستورد بن شداد رضی اللہ عنہ ہیں، وہ کہتے ہیں:
كُنْت ُ مَعَ الرَّحْبِ الَّذِينَ وَقَقُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ عَلَى السَّخْلَةِ الْمَيْتةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ أَترَوْنَ هَذِهِ هَانَتْ عَلَى أَهْلِهَا حِينَ أَلْقَوْهَا ، قَالُوا مِنْ هَوَانِهَا أَلْقَوْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: فَالدُّنْيَا أَهْوَن ُ عَلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ عَلَى أَهْلِهَا .
میں ان لوگوں کے ساتھ تھا جو کہ رسول اللہ ﷺ ان کے ساتھ ایک مردہ بکری کے بچے پر کھڑے تھے، تو رسول اللہ نے فرمایا: کیا تم اس مردہ بکری کے بچے کو دیکھ رہے ہو۔ کہ یہ اپنے مالک کے نزدیک کس قدر حقیر ہوگا، جب اس نے اس کو پھینکا ہوگا۔ انھوں نے کہا: اس نے اس کو حقیر سمجھ کر ہی پھینکا ہے اے اللہ کے رسول نبی معظم نے فرمایا: دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس مردہ بکری کے بچے سے بھی زیادہ حقیر ہے۔

مردہ جانور کو کس قدر حقیر سمجھا جاتا ہے، اگر کہیں پڑا ہوا ہو تو ہم ناک پر ہاتھ یا کپڑا رکھ کر گزرتے ہیں۔ اس سے بے حد نفرت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر اور ذلیل ہے۔ اس لیے ہمیں دنیا کی نہیں، آخرت کی فکر کرنی چاہیے، کیوں کہ دنیا آخرت کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہے یہ تو صرف ایک دار الامتحان ہے۔ یہ صرف اسی شخص کو اچھی لگتی ہے جو شیطان کا دوست ہے، اور جو اللہ کا دوست ہے۔ وہ اس دنیا فانی میں ہر وقت اللہ و راضی کرنے میں مصروف نظر آتا ہے ، تو دنیا آخرت کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتی ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ دنیا ملعون ہے اور اس کی ہر چیز بھی ملعون ہے البتہ دنیا میں  سے جو اللہ تعالیٰ کے لئے ہے وہ ملعون نہیں۔
( کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، حرف الزای الزہد، ۲ / ۷۷، الجزء الثالث، الحدیث: ۶۰۸۰)

پتا چلا کہ اگر ہم کسی نیکی کے ذریعہ اس ملعون دنیا کو طلب کریں تو ہمارا اصل مقصود فوت ہوجائے گا۔ لہذا ہر اچھا کام خالص اللہ کی رضا کے لیے ہی کرنا چاہیے۔

             حضرت عبد اللہ بن مِسور ہاشمی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت ہے، رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ا س بندے پر انتہائی تعجب ہے جو آخرت کے گھر کی تصدیق کرتا ہے لیکن وہ دھوکے والے گھر (یعنی دنیا) کے لئے کوشش کرتا ہے۔
(مسند شہاب، الباب الثالث، الجزء الخامس، یا عجبا کل العجب… الخ، ۱ / ۳۴۷، الحدیث: ۵۹۵)

مقام غور وفکر ہے کہ اس فانی دنیا کی نعمتیں قلیل ہونے کے باوجود بغیر سعی کے حاصل نہیں ہوتی۔ تو ابدی زندگی جنت کی نعمتیں کا حصول بغیر محنت ومشقت کے کیسے ممکن ہوگا ؟

            حضرت ذوالنُّون رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ اے مریدین کے گروہ! دنیا طلب نہ کرو اور اگر طلب کرو تو اس سے محبت نہ کرو، یہاں  سے صرف زادِ راہ لو کیونکہ آرام گاہ تو اور ہے [یعنی آخرت ہے۔]
(مدارک، الحدید، تحت الآیۃ: ۲۰، ص۱۲۱۰-۱۲۱۱)

نیز اگر دنیا کی مثال ایک دلدل سے دیں تو غلط نہیں ہوگا۔ جس طرح دلدل میں پھنسنے کے بعد باہر نکلنا کافی دشوار ہے اسی طرح جب بندہ اس دنیا کی تاریکیوں میں بھٹک جاتا ہے تو اس سے بچکر ہدایت کی راہ پر کامزن ہونا نہایت ہی مشکل امر ہے۔ بہر حال ہمیں دنیا سے زیادہ آخرت کو ترجیح دینا چاہیے۔ کیونکہ وہ ہی بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے۔ بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا٘ ۖ (16) وَ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰى (17) (سورة الاعلى)

دنیا مطلب کی ہے تم کس مخلص کی بات کرتے ہو غالب
لوگ جنازہ پڑھنے آتے ہیں وہ بھی اپنے ثواب کی خاطر

تباً لطالبِ دُنیا ثَنی إلَيها انصِبابَهْ
ما يستَفيقُ غراماً بها وفَرْطَ صَبابَهْ
ولوْ دَرى لَكفَاهُ يَرومُ صُبابَه
(مقامات الحريرية، ص: ٤٨، المدينة العلمية)

الله تعالى دنیا کی محبت سے ہمارے دلوں کی حفاظت فرمائے، نیز آخرت کی بھرپور انداز میں تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

تحریر: محمد سمير خان عطارى حیدرآبادی
متعلم: درجہ خامسہ جامعة المدینه فيضان امام احمد رضا، حیدرآب

۳۰ شوال ہجـ١٤٤٦ـــری بمطابق 29 اپریل سنـ2025ــہء

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے