جہان حضور شعیب الاولیاء

حضور شعیب الاولیاء اور براؤں شریف

جب بھی برِّصغیر کی روحانی فضا کے مرکزی مظاہر کا تذکرہ ہوتا ہے، تو بغداد کی بزمِ جنید و شبلی، اجمیر کی درگاہِ خواجہ، اجودھن کا قافلۂ فرید، اور بریلی کی علمی وفکری قیادت آنکھوں میں ایک قوسِ قزح کی طرح جلوہ گر ہوتی ہے۔ انہی تابندہ میناروں میں ایک درخشندہ وادی "براؤں شریف” بھی ہے، جس کو انتساب فضیلت ایک ولیٔ کامل، ہادیِ سلوک، مربیِ باطن شیخ المشائخ ، شعیب الأولیاء لقد رضی المولی عنہ بانئ ادارہ مرکز علم وفن دارالعلوم اہلسنت فیض الرسول براؤں شریف کے قدومِ میمونہ سے ملی ۔

یہ خانقاہ جس کی عمر گو تقریباً ساٹھ سال ہے، مگر اثر و فیضان کی وسعت میں صدیوں کو مات دے چکی ہے۔ اور یہ نسبت اتنی گہری، اور یہ ربط اتنا لازم و ملزوم ہے کہ جب کبھی "براؤں شریف” کا نام لب پر آتا ہے، تو ذہن شعیب الأولیاء، اور دارالعلوم فیض الرسول براؤں شریف کی طرف مائل بہ پرواز ہو جاتا ہے، اور جب "شعیب الأولیاء” کہا جائے، تو لاشعور فوراً براؤں شریف ،اور وادئ علم وفن ،گلشن شعیب الاولیاء کی مقدس فضاؤں میں جا ٹھہرتا ہے۔

اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ براؤں شریف کی روحانی شناخت اور عزت و توقیر، اس وقت عالمِ وجود میں وارد ہوئی جب یہ حضور شعیب الأولیاء لقد رضی المولی عنہ کا مسکنِ ولایت بنا۔ اس سے پہلے یوپی کا ضلع سدھارتھ نگر ایک گمنام سا گوشہ تھا، لیکن شیخ المشائخ حضور شعیب الاولیاء کی اقامت نے اس خاک کو افلاک کے ہم دوش کر دیا۔

براؤں شریف، اگرچہ جغرافیائی طور پر ایک سادہ وادی، ایک چھوٹا سا گاؤں ہے؛ مگر عرفانی بصیرت رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہ مقام ازمنۂ سابقہ سے لے کر آج تک، ایک باطنی روشنی کا مینارہ ہے۔ یہاں ہر ذرّہ ذکر و فکر سے سرشار ہے، ہر دیوار علم و عمل کا ترجمان ہے، اور ہر سانس فقر و خدمت کی سعی لاحاصل نہیں بلکہ کامیاب نظم ہے۔

یہی وہ جگہ ہے جہاں تصوف، فقط خرقہ و کشف کی نمود سے نکل کر، نظام سازی، تربیت و تدبیر کی ایک مستحکم شاہراہ میں ڈھلتا ہے۔

شعیب الأولیاء علیہ الرحمۃ والرضوان اور براؤں شریف کی باہمی نسبت ایک ایسا ربطِ عرفانی ہے، جس میں کئی رموز و باریکیاں پنہاں ہیں
وہ باریکیاں جو اس خانقاہی نظام کو دیگر تمام سلاسل و مقامات سے ممتاز کرتی ہیں، اور ایسی انفرادیت روحانی عطا کرتی ہیں جو الفاظ میں قید نہیں کی جا سکتی، صرف ذوقِ عشق سے محسوس کی جا سکتی ہے۔

عاشق اعلحضرت شعیب الأولیاء لقد رضی المولی عنہ کی ذاتِ مبارکہ کی سب سے نمایاں اور انوکھی جھلک یہ ہے کہ آپ نے محض کشف و کرامت کی وقتی جلوہ سامانیوں کو مقصدِ ولایت نہیں بنایا، بلکہ تربیت، تعلیم اور تنظیم کو اپنے خانقاہی نظام کی بنیاد قرار دیا۔
آج جہاں بیشتر خانقاہیں محض ذکر و ورد، مجذوبیت اور خوابوں کے تذکرے تک محدود ہو چکی ہیں، وہاں آپ نے ایک ایسا متوازن اور عقلی خانقاہی ماڈل پیش کیا جو:

تعلیم دیتا ہے، مگر تقلیدِ سلف کے سایہ میں
تصوف سکھاتا ہے، مگر سنتِ نبوی کے سانچے میں
خدمت پر آمادہ کرتا ہے، مگر شعور و فہم کے ہمراہ

آپ محض ایک عالمِ ربانی یا صوفیِ سالک نہ تھے، بلکہ عالم پرور، مربیِ کامل، اور ولی گر تھے۔
ایسے روحانی صانع، جن کے فیضانِ صحبت اور تربیتِ کاملہ سے علم و عمل، فقہ و عرفان، دعوت و سیاست کے آفتاب و ماہتاب چمکے۔

اگرچہ آپ کی حیاتِ مبارکہ میں بیش بہا کرامتیں ظہور پذیر ہوئیں، مگر ان کرامتوں کی سب سے اعلیٰ شکل وہ ذی شعور، باشعور اور درد مند انسان تھے جو آپ کی سنگت میں پروان چڑھے
یہ وہی شخصیات ہیں جو شعیب الأولیاء علیہ الرحمۃ والرضوان کے فیضانِ تربیت کا مظہرِ جمیل ہیں:

جو بدرالدین تھے، وہ آپ کی توجہ سے بدرملت بنے ؛
جو جلال الدین تھے، وہ آپ کے فیض سے فقیہِ ملت کہلائے؛
جو غلام جیلانی اعظمی تھے، وہ شیخ العلماء کے منصب پر فائز ہوئے؛
جو غلام انجم تھے، وہ انجم العلماء بن کر علمی کہکشاں میں چمکے؛
اور جو قدرت اللہ تھے، وہ آپ کے زیرِ تربیت حجۃ العلم بنے۔

یہ وہ کرامتیں ہیں جو زمین پر چلتی ہیں، درسگاہوں میں بولتی ہیں، منبروں سے روشنی دیتی ہیں اور قلوب کو منور کرتی ہیں۔

بیشتر اولیائے کرام اپنی نسبتی عظمت سے پہچانے جاتے ہیں۔ کوئی کسی جلیل القدر شیخ کا فرزند ہوتا ہے، کوئی بلند مرتبت پیر کا مریدِ خاص، اور کوئی کسی مستند سلسلۂ طریقت کا دعویدار؛ مگر شیخ المشائخ حضور شعیب الأولیاء لقد رضی المولی عنہ کی شخصیت صرف اس نسبتِ نورانی پر موقوف نہیں
آپ کی اصل امتیاز آفریں شان، نسبتی عظمت کے ساتھ ساتھ، آپ کا وہ نظامی و انتظامی اثر ہے، جو آپ کے کردار کا منفرد مظہر ہے۔

آپ نے صرف روحانی نسبت یا بزرگوں کے دامن سے وابستگی پر اکتفا نہ کیا، بلکہ ایک منظم فکری، تعلیمی، تربیتی اور عملی نظام کی داغ بیل ڈالی، جس نے براؤں شریف کو تصوف کا مرکز، علم کا قلعہ، اور باطن کا چراغ خانہ بنا دیا۔

یہی وہ مردِ کارواں تھے جنہوں نے دارالعلوم فیض الرسول کی بنیاد رکھی
ایسا ادارہ جو درسِ نظامی کے سانچے میں فقہی بصیرت، روحانی تہذیب اور علمی شفافیت کا سنگم ہے؛

آپ نے فقہی و فکری ترتیب کا ایک ایسا نظام قائم کیا جس میں عشق کے پہلو کو عقل کی روشنی سے ہم آہنگ کر کے، اتباعِ شریعت اور اخلاصِ طریقت کا حسین امتزاج پیدا کیا؛

آپ نے خانقاہ کو ادارہ بنایا، اور ادارہ کو خانقاہ
نہ خالص دنیوی مدرسہ، نہ محض مجذوبوں کی خلوت؛ بلکہ ایک ایسی جامعی فضا قائم کی جہاں سجادہ و مسند، کتاب و قلم، کشف و فکر، ذکر و فقہ ایک ہی چھت تلے ہم آہنگ ہو گئے۔

یہ وہ علمی و تنظیمی کرامت ہے جو صدیوں میں کسی مردِ کامل کے ہاتھوں نصیب ہوتی ہے
اور یہی وہ "نظامی اثر” ہے جو آپ کو دیگر اولیاء سے ممتاز، منفرد اور موثر بناتا ہے۔

شعیب الأولیاء علیہ الرحمۃ والرضوان کا اسمِ گرامی محمد یار علی اور آپ کا شہرت یافتہ لقب "شیخ المشائخ ،شعیب الأولیاء” ہرگز محض اتفاقی تکرار نہیں، بلکہ یہ دونوں اسم ولقب ایک عرفانی نسبت، روحانی رمز، اور سلوکی راز کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں۔

"یار علی” ایسا اسم جس کی تکرار فقط زبانی نسبت نہیں، بلکہ ایسی معنوی یکتائی کا ترجمان ہے کہ آپ کی حیاتِ طیبہ کا ہر لمحہ مولیٰ علی المرتضیٰ شیرِ خدا ،حیدر کرار رضی اللہ عنہ کے فیضانِ ولایت و وفا کی جیتی جاگتی تصویر بن گیا۔
آپ نے عبادت و ریاضت، مجاہدہ و شب بیداری، اور خدمت و تواضع کی وہ روش اختیار کی کہ محض یارِ علی کہلانے پر اکتفا نہ کیا، بلکہ شیر خدا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یار بننے کا حق ادا کیا۔
یہی نسبت، یہی حقیقت، اور یہی وہ فیض ہے جو آپ کے نام میں گویا بولتا ہے، اور دنیا آپ کو "یارِ علی” کے فیض یافتہ کے طور پر جانتی ہے۔

اور پھر "شعیب الأولیاء” یہ لقب بھی کوئی رسمی و روایتی علامت نہیں، بلکہ ایک تشبیہی عرفان ہے:
جس طرح نبی اللہ حضرت شعیب علیہ السلام اپنی قوم کے درمیان اخلاقی انحطاط، تجارتی بے ایمانی، اور دینی بےحسی کے خلاف میزانِ عدل و اخلاص لے کر کھڑے ہوئے، بعینہٖ اسی طرح حضور شعیب الأولیاء علیہ الرحمۃ والرضوان نے باطنی دنیا میں خلوص، سچائی، توازن اور فقرِ سلیم کی ایسی صدا بلند کی جس نے دلوں کو جھنجھوڑا اور سلوک کو فطرت کی راہ پر گامزن کیا۔
تجارت میں ناپ تول کی خرابی ہو یا دین میں خلوص کی کمی ،
شعیب الأولیاء کی دعوت میزانِ شریعت اور اخلاصِ نیت کی طرف ہے۔

براؤں شریف کا پورا سلوکی اور تعلیمی نظام حضور شعیب الأولیاء قدس سرہ العزیز کی ثلاثی حکمت پر قائم ہے۔
یہ تربیت نہ محض معلومات کا انبار ہے، نہ ہی صرف روحانی وارداتوں کی بازی گری؛ بلکہ ایک ایسا منہاجِ متوازن ہے جو دل، دماغ اور روح کو ایک ہی زنجیر میں پروتا ہے۔ آپ کی پوری تربیت تین بنیادی اصولوں پر استوار تھی:

علم : کہ جس میں طلبِ صادق، فقہی بصیرت، اور منہجِ اہل سنت کی پاسداری مرکزی مقام رکھتی ہے؛
عمل : کہ جو اتباعِ سنت، حسنِ اخلاق، اور عبادات کی روحانیت کا پیکر ہے؛
عشق : کہ جو محبتِ مصطفیٰ ﷺ، توقیرِ اولیاء، اور عظمتِ دین کی روح سے معمور ہے۔

یہی تین پہلو، براؤں شریف کی فضا میں کبھی اذانِ فجر میں جھلکتے ہیں، کبھی طلبۂ فیض الرسول کے سجدے میں، کبھی لائق وفائق، ذی استعداد مقدس اساتذہ کی نگاہ میں، اور کبھی فقیر کے خلوص میں۔
یہاں کی ہر دیوار، ہر ستون، ہر آستانہ اور ہر زاویہ ان تین بنیادوں کی تفسیر ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ سرکارِ براؤں شریف کی تربتِ انور پر اپنی بے پایاں رحمتوں کی ساون بھادوں جیسی موسلا دھار بارش نازل فرمائے، اور مادرِ علمی دارالعلوم فیض الرسول براؤں شریف کو غیب سے نصرت و امداد عطا فرمائے، نیز اس کے دست و بازو کو استقامت، قوت، رفعت و قبولیت کے ساتھ مضبوطی و ثبات بخشے،

سمیر احمد الفیضی

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے