جہان حضور شعیب الاولیاء

شعیب الاولیاء حضرت الشاہ محمد یار علی صاحب علیہ رحمۃ الباری

اللہ تعالیٰ کی عادت کریمہ ہے کہ جب شیطانی طاقتیں بھولے بھالے افراد انسانی کو گمراہ کرتی ہیں تو وہ علما وصوفیائے کرام کی جماعتوں کو پیدافرماتاہے جو اپنے براہین ودلائل اور اپنی روحانی طاقتوں سے ان شیاطین اور ان کی ذریات کو مغلوب کردیتی ہیں ان کے مکر وفریب کے تار وپود کو بکھیر دیتی ہیں اس طرح بھٹکے ہو ئے افراد انسانی راہ راست پر آجاتے ہیں اور ان حضرات نے احیائے دین متین اور اشاعت ِاسلام میں بڑے بڑے مصائب برداشت کئے اور مخالف حالات کاخندہ پیشانی کے ساتھ مقابلہ کیا مگر ان کی ہمتیں پست نہیں ہوئیں بلکہ اپنی دُھن میں لگے رہے آخر ان کے مساعی جمیلہ کے نتائج اچھی صورت میں رونماہوئے۔

یہ انہیں حضرات کی کوششوں کے نتائج ہیں کہ اب تک دین اسلام کے جاننے اور ماننے والے موجود ہیں اور ان مذاہب باطلہ کے دندان شکن جوابات دینے والے اور اپنی روحانی طاقتوں سے دین اسلام کی طرف گمراہوں کا رخ موڑنے والے علما، صلحاباقی ہیں ان حضرات کے ایمان اور علم وعمل کی قوت درجۂ کمال تک پہونچی ہوئی تھی اس لیے ان کے تعلیم وتدریس اور ان کے مواعظ میں کافی اثر تھا بلکہ ان کی ملاقات ان کی زیارت ان کے چہرۂ انور کا دیدار بھی ہدایت کا سبب بن جاتا تھا ۔ (ماہنامہ فیض الرسول جون ۷۶ء)

احکام شرعیہ سے ناواقفیت ایک مرض ہے اس کی مضرت جسمانی امراض سے کہیں زیادہ ہے ۔ کہا جاتا ہے جسمانی امراض کے اطبا خدمت خلق زیادہ کرتے ہیں اور یہ سچ بھی ہے کہ ایمان کے ساتھ رضائے الہی مولیٰ کی نیت سے جو اطبا یہ خدمت انجام دیتے ہیں وہ آخرت میں بڑ ے ثواب کے مستحق ہیں اس اعتبار سے روحانی علاج کرنے والے روحانی اطبا (علمائے اہل سنت وصوفیائے کرام )نے بہت زبر دست خدمت خلق انجام دی ۔ لہٰذا یہ لوگ بڑے ثواب کے مستحق ہوں گے ان کی تعلیمی خدمات نے کروروں قلوب کی ویران دنیا کو آباد کردیا ، بے شمار مردہ دلوں کو زندہ کر دیا ، یہ آسمان تعلیم وتدریس کے تابندہ ستارے ہیں جن کی ضیا باریوں سے لاکھوں ظلمت کدے تاباں وددرخشاں ہو گئے، ان لوگوں نے اگر امرا واغنیاسے تعلقات استوار کئے تو دنیاوی جاہ وعزت حاصل کرنے کے لیے ان سے سہولتیں مہیا کرائیں اور مدارس دینیہ اور خانقاہوں کو ترقی دینے کے لیے ان کوخادم اورمعاون بنایا ، اغنیا وغربا دونوں جماعتوں کے ساتھ ان کا تعلق محض رضائے مولیٰ کے لیے تھا ۔ (ماہنامہ فیض الرسول جون ۷۶ء)

صوفیائے کرام وعلمائے عظام کی دعوت اعلائے کلمۃ اللہ کا یہ کرشمہ ہے کہ ہندو پاک کے ہزارہا باشندے دائرئہ اسلام میں داخل ہوگئے ، یہاں کے اسلامی سلاطین نے اس طرف توجہ نہیں دی ۔ یہ لوگ دوسری اصلاحات میں لگے رہے اس کمی کو اولیائے کرام وعلمائے اسلام نے پوراکیا ۔ ان حضرات میں مشائخین قادریہ ، چشتیہ ، سہروردیہ ، نقشبندیہ ، پیش پیش رہے ، آخری عہد کے صوفیوں میں شیخ الاولیاشیخ المشائخ خواجہ صوفی شاہ محمد یار علی صاحب قبلہ قدس سرہ العزیز کی ذات گرامی بھی نمایاں نظر آتی ہے آپ نے بوریہ نشینی کے باوجود عوام کو اصلاحات کی دینی تعلیم دلوائی ، مسجدیںبنوائی ۔ خانقاہ تعمیر کروائی ، دارالعلوم فیض الرسول کی بنیادڈالی۔

زہے مسجد ومدرسہ خانقاہے
کہ دروے بود قیل وقال محمد (ﷺ )(ایضاً)

شیخ المشائخ حضرت صوفی شاہ الحاج محمد یار علی صاحب قبلہ نور اللہ مر قدہ کا شمار ان پاکباز نیک نفس اور تقویٰ شعار ہستیوں میں ہوتا ہے جن پر دنیا ئے سنیت کو بجا طور پر فخر وناز ہے ۔ شاہ صاحب نے زُہد وتقویٰ کی صبح وشام بسر کرنے کے لیے اپنی خواہشات نفس کو جس انداز میں قابو کر لیا تھا اس کی مثال اس دور میں نہایت ہی کم یاب ہے۔ محفل شریعت ہو یا منزل طریقت اپنے احتیاط وتقویٰ کا دامن کہیں بھی ہاتھوں سے نہیں جانے دیا اپنے نفس پر خدا کی عطا فرمودہ طاقتوں سے اس قدر اقتدار حاصل تھا کہ دیکھنے والے تصویر حیرت بن جاتے آپ کوا سلام کے احکام وفرائض کی ادائیگی اور معرفت وطریقت کے تقاضوں کا اس درجہ پاس واحترام تھا کہ اس مقابلہ میں دنیا کی عزیز سے عزیز ترین چیزوں کو بالکل ہی نظر انداز فرمادیتے تھے آپ نے اپنے روحانی بزرگوں اور حق پسند علمائے اہل سنت کی تربیت وتعلیم کی روشنی میں زندگی کی صبح وشام کا جو نظام الاوقات بنا لیا تھا اس پر حیات مستعار کی آخری گھڑیوں تک نہایت سختی کے ساتھ کار بند رہے ۔ (فیضان اولیا، مطبوعہ کانپور)

اسم شریف، القاب ، سن پیدائش وتاریخ وفات ، وشجرئہ نسب :

آپ کا اسم شریف ’’محمد یار علی ‘‘ہے اور آپ کا لقب شعیب الاولیاء وشیخ المشائخ ‘‘تھا اہل علم کے طبقہ میں آپ انہیں القاب سے متعارف ہیں ۔ آپ کی پیدائش کا سال ۱۳۰۷ھ ہے اور ۲۳ محرم۱۳۸۷ھ مطابق ۴ ؍مئی۱۹۶۷ء جمعرات کی شب میں ایک بج کر ۲۵ منٹ پر آپ کاانتقال ہوا اس حساب سے آپ کی عمر اسی ؍۸۰ سال ہوئی ۔

آپ کا حلیہ مبارک :

وجیہ وشکیل متوسط قد ، چہرۂ مبارک گول ، آفتابی رخسار ، ابھری ہوئی پیشانی ، فراخ روشن ، بینی پر نور متوسط ، سر مبارک متوسط ، رنگ گورا ، چشمان مبارک درمیانی ، ریش مبارک مشروع گھنی اور گول جس کے اکثر بال سفید ہو چکے تھے کچھ سیاہ بال باقی رہ گئے تھے ، دندان مبارک صاف وشفاف ، دستہائے مبارک متوسط نرم ونازک ، سینہ مبارک صاف اور فراخ ، پائے اقدس متوسط نرم ونازک ، جسم مبارک نرم وگداز قدرے فربہ ، رفتار صوفیانہ ، لباس ووضع میں سادگی ، ہر بات میں بے ساختگی ، خلوت وجلوت میں یکساں از سر تا بقدم ہر عضو موزوں، آواز شیریں ، گفتگو متوسط آواز سے کرتے ، آپ کا کلام مختصر مگر جامع ، ہو نٹوں پہ تبسم ، چہرے پہ ترحم جب کسی سے خلاف شرع امر سرزد ہو جاتا تو اس کو آپ سر زنش فرماتے ۔ الحب فی اللہ والبغض فی اللہ آپ کا شیوہ تھا ۔

آپ کا لباس آپ کی وضع :

سر پر سفید مخصوص صوفیائے کر ام کی چار گوشوں والی ٹوپی ۔ ململ ادھی یا تنزیب کا سفید کرتا تقریباً نصف پنڈلی تک ، لمبے کرتے پر کبھی صدری استعمال فرماتے کبھی بغیر صدری کے پیرہن ہی پہ اکتفا فرماتے ۔ ہتبند مخطط (دھاری دار )اور خانے بڑے بڑے ، سفید لباس آپ کو مرغوب تھا ، رومال مدراسی جوڑے دار یا سفید یا تنزیب کا پھولداررومال استعمال فرماتے جب موسم سرما ہوتا تو آپ اونی جبہ پہن کر نماز کے لیے آتے پنج وقتہ فرائض نماز صافہ باندھ کر پڑھتے ۔ صافہ عموماً سفید ہی استعمال فرماتے صرف ٹوپی پہن کر بغیر صافے کے فرض نہیں پڑھتے، نماز کے لیے کسی کو امام مقرر فرماتے تو آپ کی ہدایت کے سبب صافہ باندھ کر امامت کرتے ۔ (ماہنامہ فیض الرسول ستمبر ۷۲ء)

استقامت وتصلب فی الدین:

استقامت علی الدین وہ کٹھن منزل ہے کہ خود اسے حدیث میں فرمایا گیا کہ کا القابض علی الجمرۃجیسے ہاتھوں میں چنگاری پکڑنے والا ۔ خود اہل معاملہ عارفان خدانے فرمایا:الاستقامۃ فوق الکرامۃاستقامت کرامت سے بڑھ کر ہے، استقامت وتصلب فی الدین حضرت شاہ محمد یا ر علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے دفتر فضائل کا یہی سب سے درخشاں باب ہے۔

بستی اور گونڈہ دونوں اضلاع دیوبندیت اور غیر مقلدیت کے گڑھ ہیں لیکن مولیٰ عزوجل نے مذہب اہل سنت وجماعت کی حمایت وصیانت ، نشر واشاعت کے لیے اسی خطہ کے ایک گمنام دیہات میں اس مرد حق آگاہ کو پیدا فرمادیا جس نے تنہا صرف اپنی روحانیت سے صرف اس علاقے میں سنیت کو وہ قوت عطا فرمائی کہ آج پورے ہندوستا ن میں زائد اہل سنت کے دینی مدارس انہیں دواضلاع میں ہیں حضرت شاہ صاحب قبلہ کی یہ نمایاں خصوصیت ہے کہ انہوں نے ہمیشہ کھلم کھلا رد کو پسند فرمایا اور مہینوں حضرت شیر بیشئہ اہل سنت کو لے کر اپنے مریدین میں بستی بستی وعظ وتقریر کے اجلاس مقرر کرائے یہ سلسلہ ایک دو دن ہفتہ دو ہفتہ مہینہ دو مہینہ نہ رہا بلکہ برسوں قائم رہا ۔

سخت سے سخت خطرناک موقع پر بھی ساتھ نہ چھوڑا جس زمانے میں حضرت شیر بیشئہ سنت پر بھدرسہ ضلع فیض آباد کے وہابیوں نے مقدمہ دائر کر رکھا تھا حضرت شاہ صاحب کو جب اس مقدمہ کی اطلاع ملی تو ایک خطیر رقم شیر بیشئہ سنت کو نذر کئے ۔ آپ کے متصلب فی الدین ہو نے کی اس سے بڑی شہادت اور کیا ہو سکتی ہے کہ حضرت شیر بیشئہ اہل سنت مظہر اعلیٰ حضرت مولانا حشمت علی خاں صاحب قبلہ پیلی بھیتی علیہ الرحمہ جو تصلب فی الدین اور استقامت کے پہاڑ شمار کئے جاتے ہیں برسوں آپ کی تعظیم واحترام فرماتے رہے اور حضرت شیخ العلما مولانا غلام جیلانی اعظمی صاحب قبلہ شیخ الادب جو خود بھی بلند پایہ صاحب حال صوفی اور جلیل القدر سنی عالم دین تھے برسو ں حاضر خدمت رہ کر حضرت موصوف الصدر کی قدم بوسی کرتے رہے اور مذکورہ دونوں بزرگوں سے خود میں نے (علامہ اعظمی علیہ الرحمہ )بلا واسطہ حضرت شیخ المشائخ کے فضائل ومناقب کا تذکرہ بارہا سنا ہے اور آج بھی اس کے سینکڑوں مشاہد زندہ ہیں وکفیٰ باللہ شہیدا۔

اتباع شریعت:

حضرت شاہ صاحب اتباع شریعت کا پورا پورا خیال رکھتے تھے مجال نہیں کہ خلاف شرع کوئی امر سرزد ہو اور کسی کو خلاف شرع کوئی کام کرتے دیکھیں تو خاموش رہ جائیں نماز نہ صر ف نماز بلکہ جماعت،نہ صرف جماعت بلکہ تکبیر اولیٰ کا اتنا اہتمام کہ پینتالیس برس تک کبھی سفر وحضر میں تکبیر اولیٰ فوت نہ ہوئی بہت لمبے لمبے سفر حرمین طیبین کی حاضری بھی دی، بارہا بمبئی بھی گئے اور بیمار بھی رہے لیکن سفر ہو یا حضر ، مسافرت ہو یا اقامت ، ٹرین کا سفر ہے یا کسی اور سواری کا آپ کی کبھی نہ جماعت چھوٹی نہ تکبیر اولیٰ فوت ہوئی، سفر میں خصوصاً ٹرین اور بسوں کے لمبے سفروں میں صرف نماز پڑھنا دشوار ہوتا ہے چہ جائے کہ جماعت لیکن حضرت شاہ صاحب نے اپنے پینتالیس سالہ عمل سے ثابت کردیا کہ اگر انسان عزم محکم رکھے خود سستی اکاہلی نہ کرے تو جماعت وتکبیر اولیٰ کی پابندی متعذر نہیں۔

حضرت شاہ صاحب کی یہ وہ خصوصیت ہے کہ اس میں وہ اس زمانہ میں وہ بلا شبہ منفرد ہیں اور یہ اتنا بڑا کمال ہے کہ اس کے مقابلہ میں ہزارسالہ خلوت گزینی و چلہ کشی ہیچ ہے ۔ حضور حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کاشف الاستار شریف میں فرمایا ہے کہ لوگ اشغال واذکار کے پیچھے رہتے ہیں سب سے بڑا ذکر و مجاہدہ نماز باجماعت ہے ۔ اتباع شریعت ہی کا ثمرہ تھا کہ علمائے کرام آپ کے سامنے جھک گئے ۔ موجودہ مشائخ اہلسنت میں حضرت مفتئی اعظم ہندکے بعد جتنے علما شاہ صاحب سے مرید ہیں کسی اور کے نہیں ۔

نماز باجماعت مع تکبیر اولیٰ کی پابندی کا پس منظر یو ں ہے کہ حضرت شاہ محمد یار علی صاحب قبلہ ایک بار حضرت (سیدنا شاہ عبد اللطیف علیہ الرحمہ مرشد اجازت )کی خدمت میں حاضر ہوئے تو رخصت ہوتے وقت حضرت نے آپ کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر فرمایا :میاں نماز تو نماز جماعت تو جماعت جب تکبیر اولیٰ نہ چھوٹے یہی نماز اللہ سے ملا دے گی ۔

حضرت شاہ عبدا للطیف صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے یہ الفاظ حضرت شاہ محمد یار علی صاحب قبلہ کے لیے پتھر کی لکیر بن گئی ۔ آپ کا تدین مثالی تھا حتی کہ جن حضرات کو آپ کا فیض محبت ملا ان کو بھی شعیب الاولیا کے خوانِ کرم سے دینداری کی مثالی دولت گراں مایہ نصیب ہوئی ۔ علامہ بدرا لدین احمد صاحب قبلہ رضوی علیہ الرحمہ کا اعتراف ہے کہ ’’میں نے بفضلہ تعالیٰ گیارہ سال(۱۱) سال حضرت کی زندگی مبارکہ کا زمانہ پایا جس سے دین کی تربیت میں مجھے بہت کچھ مدد ملی ۔ ‘‘

آپ کا تواضع:

آپ نرم خو ، نرم دل منکسر المزاج تھے، متواضع صفت تھے، فروتنی تواضع آپ کے اندر جذبۂ کمال تک پہونچی ہوئی تھی کبھی مجمع عام میں فرماتے تھے کہ ’’ہم گناہ گار سیاہ کارہیں ہم نے کچھ نہیں کیا آپ لوگ دعا کریں کہ آخرت میں نجات مل جائے ‘‘آپ اپنے گھرکے بچوں کو بھی تواضع کی تعلیم دیتے رہے اسی کا اثر ہے کہ آپ کے صاحبزادے مولوی صوفی محمد صدیق احمد صاحب بایں ہمہ عظیم الشان عہدۂ سجادہ نشیں کے عموماًسُنّی علما سے ملاقات کے وقت مصافحہ کے ساتھ ساتھ ان کی دست بوسی بھی کرتے اور آپ کے دوسرے صاحب زادے مولوی غلام عبد القادر صاحب بھی بایں ہمہ علم وفضل سُنّی علما کی دست بوسی کرتے ہیں یہاں کے شہزادگان میں یہ تواضع حضرت شیخ المشائخ علیہ الرحمہ کی حسن تربیت کا اثر ہے ۔

روحانی تصرف :

شعیب الاولیاحضرت شاہ صاحب قبلہ علیہ الرحمہ کے روحانی تصرف کے واقعات وکرامات بے شمار ہیں جو آپ کے مقرب بارگاہ خداہونے پہ شاہد عدل ہیں مگر کسی بزرگ شخصیت میں کشف وکرامات دیکھنے سے پہلے اس میں اتباع شریعت ، استقامت ، تصلب فی الدین کی تلاش از بس ضروری ہے کیوںکہ در حقیقت وہی معیار بزرگی ہیں،اس معیار پہ حضرت شیخ المشائخ کی ذات والا صفات پوری طرح منطبق تھی اور وثوق کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ آپ مر تاضان و خاصانِ خدا میں سے تھے لیکن جہاں تک کشف وکرامات کا تعلق ہے حضرت شاہ صاحب قبلہ علیہ الرحمہ میں اس کی بھی کمی نہیں۔

حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی صاحب سر براہ شعبۂ افتا الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور رقم طراز ہیں ’’خود میرے ساتھ ایک ایسا واقعہ گزراہوا ہے کہ میں اسے سوائے کرا مت وتصرف کے اور کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ ابتدا ئے شوال۸۵ھ میں مجھے بعض بے بنیاد خبریں ملیں تو میں نے یہ طے کر لیا کہ میں براؤں کبھی نہیں جاؤں گا اگر چہ تحقیق کے بعد یہ خبریں بالکل غلط ثابت ہوئیں۔

اسی سال حضرت مفتی اعظم ہند قبلہ نے بھی فیض الرسول کے سالانہ جلسہ میں شرکت کی دعوت منظور فرمالی تھی جو یکم ذی قعدہ کو ہو ا کرتا تھا حضرت کے کلمات سے ایسا ترشح ہو ا کہ اس سفر میں کفش برداری کے لیے مجھی کو لے جانا چاہتے ہیں میںنے واقعہ عرض کر کے نہایت صفائی سے عرض کر دیا کہ میں براؤ ں نہیں جاؤں گا حضرت مفتی اعظم ہند قبلہ سلطان وقت ہیں انہیں خدام کی کیا کمی؟ برادر محمد ناصر صاحب حضرت کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہو گئے لیکن عجب بات ہوئی کہ میں نے اپنی فطری تند مزاجی کی بنا پر یہ کہہ دیا تھا کہ براؤں نہیں جاؤں گا لیکن جب وہ وقت قریب آیا تو عجیب اضطراب پیدا ہو گیا اور دل کھیچنے لگا مگر سنی ہوئی بات کا تقاضا اور اپنی کہی ہوئی بات کا پاس کہ اب میں براؤں جانا بے غیرتی سمجھتا تھا لہٰذا ایک دفعہ منہ سے نکل گیا کہ میں تو نہ جاؤں گا شاہ صاحب ، صاحب تصرف ہیں تو خود بلالیں ۔

حضرت کی روانگی ۲۹؍شوال کی شب میں لکھنؤایکسپریس سے تھی جو تین بجے صبح بریلی سے چھوٹتی تھی ۔ ناصرمیاں تیار ہوگئے سامان لے کر عشا کے وقت ہی آگئے اور اب میرے جانے کا کوئی سوال ہی نہیں لیکن دو بجے روانگی کے وقت رکشہ آیا سامان زیادہ تھا اس لیے دو رکشے آئے ایک میں سامان کے ساتھ ناصر میاں بیٹھ گئے، دوسرے میں تنہاحضرت مفتی اعظم ہند بیٹھے میرا اسٹیشن بھی جانے کا ارادہ نہیں تھا لیکن حضرت کو رکشہ میں تنہا اسٹیشن جانا مجھے مناسب معلوم نہ ہو ا میں حضرت کے ہمراہ رکشہ میں بیٹھ گیا اس نیت سے کہ گاڑی میں بیٹھا کر میں واپس چلاآؤں گا۔

ناصر میاں اچھے خاصے تند رست تھے جب ہم اسٹیشن پر پہونچے تو وہ کمر پکڑے ہوئے بے چین ہیں معلوم ہوا کہ درد گردہ ہو رہا ہے اب کیا کیا جائے وقت اب اتنا نہیں کہ کسی اور کو ساتھ کیا جائے مجھے خیال آیا کہ یہ اتفاقی بات نہیں بلکہ مجھے بلانے کا بہانہ ہے میں باوجود بے سرو سامانی کے نہ بستر ہمراہ ہے اورنہ سوائے بدن کے اور کپڑے ہیں میں حضرت کے ہمراہ براؤں شریف آگیا ۔ ناصر میاں اسٹیشن ہی پر ایک صاحب کے حوالے کر دیئے گئے وہ انہیں صبح تک آرام سے رکھیں صبح کو گھر پہنچادیں صبح ہو تے ہی ناصر میاں کا درد کافور ہو گیا ۔ ‘‘

بتایئے اسے میں سوائے کرامت کے اور کیا کہوں میرے محب ومخلص جناب مولانا مفتی قاضی عبد الرحیم صاحب بھی گھر جاتے ہوئے ساتھ ہوگئے تھے ۔ وہ ان سب باتوں کے چشم دید گواہ ہیں ان وجوہ کی بنا پر میں بلا جھجھک کہہ سکتا ہوں کہ حضرت شاہ صاحب کی ذات اس زمانے میں کبریت احمر سے بھی زیادہ قیمتی تھی آپ بلا شبہ مسند ارشاد وہدایت پر اسلاف کرام کے سچے جانشیں تھے ۔

شیخ المشائخ کا عظیم کارنامہ دارالعلوم فیض الرسول کا قیام :علوم دینیہ کی نشر واشاعت سے آپ کو بڑی دلچسپی تھی ۔ مدارس اسلامیہ کی ضرورت و اہمیت پر کافی زور دیتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’تعلیمی ادارے قائم کرنا بڑے ثواب کا کام ہے اول اس لیے کہ شریعت کے بغیر طریقت نہیں حاصل ہو سکتی ۔ دوسرے اس لیے کہ انبیا ومرسلین صرف نماز روزے ،اوراد وظائف ہی کے لیے دنیا میں نہیں تشریف لائے بلکہ عبادات واعمال کے ساتھ دینی تعلیمات کی اشاعت کے لیے بھی بھیجے گئے۔ نماز روزے اوراد ووظائف سے آدمی خود تو سنبھل سکتا ہے لیکن دوسروں کو سنبھالنے کے لیے علم دین کی ضرورت ہے ۔ ‘‘

اسی ضرورت کے تحت آپ نے اپنی خانقاہ میں دارالعلوم فیض الرسول کی بنیاد رکھی اور اپنی حیات ہی میں اسے پروان چڑھانے کی کامیاب جد وجہد کی ۔ شیخ العلما علامہ غلام جیلانی اعظمی علیہ الرحمہ نے ایک بار عرض کیا کہ جس دارالعلوم کا افتتا ح آپ نے کیا اس کا نام دارالعلوم فیض الرسول رکھا اس کا نام دارالعلوم یار علویہ رکھا جاتا تو کیا حرج ؟اس پر آپ نے ارشاد فرمایاکہ :

’’درس وتدریس کا یہ دینی ادارہ در حقیقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض ہی فیض ہے اس کا نام دارالعلوم فیض الرسول ہوناہی مناسب ہے کہ اسم با مسمیٰ ہو جائے۔ اپنے نام ونمود کو دخل دینے سے اخلاص باقی نہیں رہتا اس سے حب جاہ ، حب شہرت پیدا ہوتی ہے عجب وخود پسندی کا ظہور ہوتا ہے کبر وغرور اور رعونت کا تسلط ہو جاتا ہے یہ آفات و بلایا ہیں، تواضع نعمت ہے ۔ ‘‘

اور اسی جذبۂ اخلاص کی تاثیر تھی کہ جب شہزادۂ سر کار اعلیٰ حضرت حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ والرضوان براؤں شریف تشریف لائے تو واپس ہو کر بریلی شریف سے اپنا درج ذیل تاثراتی مکتوب حضرت شیخ المشائخ کے نام ارسال فرمایا ۔

’’محب سنت مخلص مبلغ مذہب اہل سنت مسلک امام اہل سنت اعلیٰحضرت علیہ الرحمہ جناب شاہ محمد یار علی صاحب دام بالمواہب وحضرات مدرسین اساطین دین وجمیع اراکین وطلبا خدام ملت وطلبائے علوم شریعت وسلمھم وربہم وصانھم عن الشرور والفتنۃ۔ وعلیکم السلام ثم السلام علیکم رحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ ‘‘

طالب خیر بحمدہ تعالیٰ مع الخیر ۔ حضرت شاہ صاحب کی کرم فرمائیوں ان کے صاحبزادہ بلند اقبال کی عنایتوں اور مدرسین واراکین وطلبا وخدام مدرسہ فیض الرسول کی محبتوں کی یاد کو دل کی گہرائیوں میں لیے ہوئے وطن پہنچا فیض الرسول کو دیکھ کر معلوم ہو ا کہ یہ واقعی فیض الرسول ہے (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی اٰلہ وصحبہ وسلم )مولائے کریم عزوجل اسے روز افزوں ترقیاں بخشے اور اس کے فیوض کو عام تر فرمائے، دل بہت مسرور ہوا ، تعلیم اچھی ، تربیت بہتر، سنیت کی تبلیغ ، رضویت کی اشاعت، سنت کی ترویج کا جذبہ جو فیض الرسول میں پایا کہیں نہیں پایا ۔ اس فقیر بے توقیر کا اعزاز واکرام نسبت اعلی حضرت کے سبب فرمایا جو اس کی حیثیت سے کہیں زیادہ تھا اور پھر یہ کہ بعض نے فرمایا کہ ہم کچھ خدمت نہ کر سکے طلبہ سے جو عہد لے کر داخل کیا جاتا ہے بعد فراغ وہ عہد سند میں لکھا ہوتا ہے جو طالب علم پڑھ کر اہل جلسہ کو سنا کر اس پر گواہ کرلیتا ہے یہ ایسی بے مثال چیز ہے جو اور سُنّی مدارس تو اور خود مرکز اس ضروری امر کی طرف توجہ نہ کر سکا اس سے فقیر بہت زیادہ متأثر ہوا جگہ جگہ اس کا فقیر نے ذکر کیا، شاہ صاحب اور مدرسین کو ہر جگہ دعا کے ساتھ یاد کیا ۔ والسلام

فقیر مصطفی رضا غفرلہ ۱۵ ذی الحجہ ۱۳۸۵ھ؁
(مکتوب بنام شیخ العلما ، ماہنامہ فیض الرسول اگست ۱۹۶۶)

آپ نے دارالعلوم فیض الرسول کی بنیاد رکھی اور اس کی تعمیر وترقی پر پوری توجہ دی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑی سی مدت میں یہ ادارہ اہل سنت کا مرکزی ادارہ بن گیا آج اس دارالعلوم اہل سنت کے وہ ممتاز علما خدمت درس پہ مامور ہیں جو علم وفضل ورع وتقویٰ و تصلب فی الدین میں ممتاز حیثیت کے مالک ہیں جس کی وجہ سے وہاں فارغ التحصیل علما کا ملک میں ایک خاص وقار ہے ۔ یہ دینی درس گاہ حضرت کی حیات ظاہری میں آپ کی توجہ کامل سے اور اب آپ کی روحانی تصرفات سے ملک کے ان عظیم اداروں میں ایک ہے جن کی تعلیم وتربیت مثالی حیثیت رکھتی ہے بلکہ طلبہ کی پرورش وپرداخت اور مہمانوں کی ضیافت میں ’’فیض الرسول ‘‘کواس خصوص میں بھی درجہ ٔ امتیاز حاصل ہے ۔

مجھے (مولانا ڈاکٹر فضل الرحمٰن شرر مصباحی لکچرار طبیہ کالج دہلی اپنا واقعہ تحریر کرتے ہیں )اپنے دور طالب علمی کا ایک واقعہ ہمیشہ یاد رہے گا میں دارالعلوم اشرفیہ مبارکپور میں متوسطات کا طالب علم تھا رمضان شریف کی تعطیل کلاں میں ایک طالب علم کسی ضرورت سے مبارکپور آئے اور مدرسہ میں قیام کیا اسی اثناء میں ایک قصباتی تہمد (تہ مند)پہنے ہوئے آگیا جس کے بخیہ کی سلائی والا حصہ اوپر کو تھا مہمان طالب علم کی نظر پڑ گئی اور قصباتی کو شرعی مسئلہ سے آگاہ کرنے کو کہا قمیص تہمد وغیرہ کو الٹا پہننا مکروہ ہے اور استشہاداًکئی کتابوںکے نام گنا دئے ، میں اس مسئلہ کو پوری کوشش کے بعد خالص تہذیبی نقطۂ نظر سے دیکھ رہا تھا اور حاصل وہی تھا جو مہمان طالب علم کا مقصود کلام تھا لیکن اس طرح مسائل کے جزئیات کی واقفیت کسی طالب علم کے اعلیٰ معیار کو ظاہر کرتی ہے یہ اسی درسگاہ کے طالب علم تھے جسے فیض الرسول کے نام سے ہر کہ ومہ جا نتا ہے ۔

اور فیض الرسول کے فیضان کی برکت ہے کہ بستی ، گونڈہ ، نیپال کے بارڈر سے لے کر اندرون نیپال تک علم کا اجالا ہی اجالا ہے ، گاؤں گاؤں مدرسے مکاتب اور علمائے دین کی بہتات ہے ۔ علاقائی وضلعی سطح سے بہت آگے دور ، دور تک اندرون ملک فیض الرسول کا چشمۂ فیض جاری وساری ہے اور اب تو بیرون ملک بھی فیض الرسول کے فیض کا چشمۂ سیال لہریں لینے لگا ہے اللھم زد فزد ۔

اس مرد خدا مست کے اخلاص بے پایاں کا نتیجہ ہے کہ فیض الرسول آج اسلا می علوم کا شہر بن چکا ہے اپنی چند در چند امتیازی خصوصیات کی بنا پر ہندوستان بھر میں وہ اپنی مثال آپ ہے، عوام تو دور رہے خواص کو بھی جانے دیجئے اخص المخصصین کا وہ طبقہ جن کی شخصیت آفاقی اور جن کے فکر ونظر پر سواد اعظم اہل سنت والجماعت کو اعتمادہے ان کا اعتراف ورجوع اس بات کا غماز ہے کہ اس مرد خدا آگاہ کے اخلاص بے پایاں کی جڑیں بہت گہری ہیں۔

اہل سنت کی یہ امتیازی شان رکھنے والی درسگاہ دینی، دعوتی خدمات کی ایک طویل دستاویز ہے یہ سچ کہ اس کا محل وقوع بعض معمولی دشواریوں اور پیچیدگیوں کا حامل ہے مگر اس سے بڑا سچ یہ ہے کہ شہر کی گہما گہمی اور نیر نگی تعلیم وتربیت میں سخت حارج ہوتی ہے جو قیام مدرسہ کا اولین مقصد ہے آپ نے اس خطہ دور افتادہ کو سارے ہندوستا ن کا مرجع ومرکز بنا دیا اور اس طرح علما کو خانقاہ سے اور عوام کو مدرسہ سے قریب ہونے اور فیض یاب ہونے کا موقع فراہم کیا ۔

وصال:

شعیب الاولیاء شیخ المشائخ نے اپنی پوری زندگی خدمت دین اعلائے کلمۃ الحق اور روحانی فرائض کی بجا آوری میں بسر کرتے ہوئے ۲۲ ؍محرم الحرام ۱۳۸۷ھ مطابق ۴؍مئی ۱۹۶۷ء کا دن گزار کر شب میں ایک بج کر پندرہ منٹ پر نماز عشا باجماعت ادا کرنے کے بعد ایک بج کر پچیس منٹ پر مالک حقیقی سے وصال فرمایا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

براؤں شریف میں آپ کا مزار پاک مرجع خلائق اور منبع فیوض وبرکات ہے اور ہر سال ۲۲محرم کو آپ کا عرس نہایت اعلی پیمانے پہ آپ کے فرزند خلیفہ و جانشیں حضرت پیر طریقت علامہ غلام عبد القادر علوی صاحب قبلہ سجادہ نشیں خانقاہ فیض الرسول وناظم اعلی دارالعلوم کی نگرانی وانتظامیہ میں منایا جاتا ہے جس میں ملک وبیرون ملک کے ہزارہا ہزار لوگ شریک ہو کر اپنے رہنما کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اسی موقع پر آپ کی عظیم یاد گار دارالعلوم فیض الرسول کے تاریخی اجلاس میں فارغ التحصیل علما وقرا وحفاظ کی رسم دستار بندی بھی اداکی جاتی ہے

ازقلم : صاحبزادہ حضور شعیب الاولیاء ڈاکٹر غلام عبدالقادر رابع

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے