علما و مشائخ

مفتی اعظم راجستھان کی حیات کے نادر ونایاب پہلو!

ازقلم: نازش مدنی مرادآبادی
استاد: جامعۃ المدینہ، بنگلور کرناٹک

کس کو معلوم تھا کہ امروہہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں (شیونالی) سے نکلنے والا یہ مردِ درویش راجستھان جیسی سنگلاخ اور چٹیل زمین کو سبزہ زار بنادے گا۔ اور جس کے فیضانِ علمی سے ایک عالم مستفیض ہوگا۔ بس یہ قدرت کا فیصلہ ہے کہ وہ اپنے دین کی خدمت کے لئے جسے چاہے چن لے۔حضور مفتی اعظم راجستھان ، باباے قوم وملت، اشفاق العلما ،محسن راجستھان حضرت علامہ الشاہ مفتی اشفاق حسین نعیمی اجملی قدس سرہ العزیز بھی انہیں مخصوص بندوں میں سے تھے جنہیں اللہ جل وعلا نے اپنے دین کی ترویج و اشاعت کے لئے چن رکھا تھا۔
آپ علیہ الرحمۃ و الرضوان کی مکمل زندگی جہد مسلسل،سعی پیہم اور قربانیوں سے عبارت ہے۔ آپ نے کبھی اپنے چین وسکون کو نہیں دیکھا بلکہ دین کی خاطر راجستھان کے سنگلاخ علاقوں میں گرمی کی دشواریاں اور کٹھنائیاں برداشت کرکے گاؤں گاؤں، قریہ قریہ، ڈھانی ڈھانی جا جاکر دین وسنیت کا پیغام پہنچایا۔ آج جو راجستھان میں علم وعلما کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر نظر آ رہا ہے۔ یہ سب قبلہ مفتی اعظم راجستھان علیہ الرحمہ ہی کی مرہون منت ہے۔ ورنہ لوگ بتاتے ہیں کہ حضرت کے آنے سے پہلے یہاں ہفتوں ہفتوں جنازے رکھے رہتے تھے مگر نماز جنازہ پڑھانے والا کوئی نہیں ملتا تھا۔ بہر حال یہ سب فیضان ہے میرے محسن سرکار مفتی اعظم راجستھان علیہ الرحمہ کا کہ آج بستی بستی میں حافظ وقاری اور عالم دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ آئیے ایسے عظیم محسن کی حیاتِ مستعار کے ان چند نادر و نایاب گوشوں کو ملاحظہ کرتے ہیں جنہیں حضرت کے ہم عصر بزرگوں نے بندہ ناچیز کو مفتی آپ کے آبائی گاؤں شیونالی کی ایک بیٹھک میں بیان کیا۔

مفتی صاحب کے ابتدائی استاد :
مفتی صاحب کے بھتیجے مکھیہ شمیم صاحب بتاتے ہیں :کہ مفتی اعظم راجستھان کی عمر جب پڑھنے کے قابل ہوئی تو اس وقت آس پاس میں کوئی مدرسہ یا مکتب نہیں تھا۔ اس واسطہ آپ کی تعلیم کے لئے آپ کے والد گرامی مکھیہ الطاف حسین علیہ الرحمہ نے گاؤں کی مسجد میں ایک مکتب کی داغ بیل ڈالی۔ اور اس میں پڑھانے کے لئے قریب کے ایک گاؤں سے مولوی سید حشمت علی صاحب علیہ الرحمہ کا تقرر کیا۔ سید صاحب ایک دین دار ،تقویٰ شعار اور باعمل شخص تھے۔ تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ کبھی آپ گاؤں کے درمیان سے نہیں آتے بلکہ ہمیشہ کھیتوں سے گزر کر گاؤں میں داخل ہوتے اس خوف سے کہ کہیں کسی غیر محرم کی آپ پر نظر نہ پڑ جائے۔ یہ آپ کے تقویٰ شعاری کی واضح اور روشن مثال تھی۔ اور سادگی آپ کے اندر اس قدر تھی کہ بستی سے جو کھانا آپ کے لئے آتا اسے انتہائی صبر وشکر کے ساتھ تناول فرما لیتے۔ کبھی کسی کے کھانے میں عیب نہیں نکالتے اور نہ ہی کبھی کسی سے مرغن کھانا طلب فرماتے ۔ اہل شیونالی سے آپ بے انتہا محبت فرماتے تھے۔ شیونالی سے جانے کے بعد بھی آپ سال، چھ مہینے میں یہاں آتے جاتے رہتے۔ اور اگر شیونالی سے کوئی آپ سے ملنے جاتا تو شیونالی کا نام سنتے ہی فرط مسرت میں کھڑے ہو جاتے اور آنے والے کی پھرپور انداز میں ضیافت فرماتے۔

مفتی صاحب بولتے کیا تھے پھول جھڑتے تھے :
مفتی اعظم راجستھان علیہ الرحمہ کے قریبی دوست محمداصغر حسین لالہ بیان کرتے ہیں کہ : ہم نے مفتی اشفاق صاحب کو بچپن سے بڑھاپے تک خوب دیکھا ہے۔ ایسا مخلص ،خوش اخلاق اور ملنسار شخص میں نے اپنی زندگی میں ابھی تک نہیں دیکھا۔ بات کرنے کا انداز اس قدر میٹھا تھا کہ ایسا لگتا تھا جیسے منہ سے پھول جھڑ رہے ہوں۔ سنبھل یا جودھپور راجستھان سے جب گاؤں آتے تو پوری بیٹھک لوگوں سے بھر جاتی سب آ آ کر مصافحہ ودست بوسی کرتے اور پاس میں بیٹھ جاتے اور حضرت کو اپنا دکھڑا سناتے۔ حضرت سب کی باتیں سنتے اور ان کے دکھ درد کا مداوا کرتے،جو مرید ہونے آئے ہوتے ان کو داخل بیعت کرتے۔پھرمحفل کے اختتام پر جب اٹھ کر جانے لگتے تو اپنے ہم عمر احباب سے فرماتے اچھا بھیاّ ! اجازت ہے ؟ یعنی اپنے قریبی احباب کا بھی اس قدر خیال فرماتے کہ ان سے اجازت لئے بغیر مجلس سے نہیں اٹھتے۔

گاؤں میں ہمیشہ اتحادکی فضا قائم رہتی:
عالی جناب اصغر حسین لالہ صاحب مزید بیان کرتے ہیں : مفتی اشفاق صاحب کے اندر ایک خاص اور اہم خوبی یہ بھی تھی کہ آپ پورے گاؤں کو ایک لڑی میں پرو کر رکھتے تھے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے کبھی پارٹی بندی کی ہو بلکہ گاؤں میں اگر کبھی پارٹی بندی ہوئی بھی تو آپ کسی ایک پارٹی کو سپورٹ نہیں کرتے بلکہ دونوں پارٹیوں کو یکجا اور متحد کرنے کی کوشش کرتے اور سب کے ساتھ اتحاد واتفاق کے ساتھ رہتے بلا تفریق سبھی کے ساتھ آپ کا اٹھنا بیٹھنا رہتا۔

دونوں بھائیوں میں محبت کی اعلیٰ مثال:
عالی جناب اصغر حسین لالہ صاحب بیان کرتے ہیں : مفتی اعظم راجستھان علیہ الرحمہ دو بھائی تھے۔ بڑے بھائی کا نام مکھیہ عبد الرب تھا۔ مکھیہ عبد الرب صاحب بھی دین دار اور ملنسار تھے۔ دونوں بھائیوں کی باہمی محبت کی پورے گاؤں میں مثال دی جاتی تھی۔ مفتی صاحب علیہ الرحمہ جب سنبھل سے فارغ ہوکر پالی پڑھانے کے لئے تشریف لے گئے تو انہیں دنوں تقسیم ہند کے سلسلہ میں ملکی حالات خراب ہو گئے تھے۔ جس کی وجہ سے مفتی صاحب کو مجبوراً گھر آنا پڑا۔ آنے کے کچھ دنوں بعد ہی پالی راجستھان سے خطوط آنے شروع ہوگئے، اور وہ لوگ واپسی کا باربار تقاضا کرنے لگے۔ یہ خبر جب مفتی صاحب کے بڑے بھائی مکھیہ عبد الرب صاحب کو معلوم ہوئی تو آپ نے وہاں جانے سے صاف انکار کر دیا اور فرمایا آپ یہیں رکو میں کماؤں گا مگر وہاں (پالی،راجستھان)جانے نہیں دوں گا یعنی آپ کے برادر اکبر کو آپ سے قدر محبت تھی کہ آپ کو گھر بٹھا کر گھر کے تمام معاملات کو چلانا تو آپ نے پسند کیا مگر مفتی صاحب کو ان دنوں پالی جانے نہیں دیا۔ پھر بعد میں جب حالات بہتر ہوئے تب مفتی صاحب واپس پالی تشریف لے گئے۔

ساری چاندی مدرسہ کو وقف کردی:
موصوف مذکور مزید بیان کرتے ہیں کہ : مفتی اشفاق صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بڑی عزت وعظمت سے نوازا تھا۔ لوگ آپ کے گرویدہ تھے۔آپ نے راجستھان میں دین کی بڑی خدمت کی ہے۔ اسی خدمت کے صلہ میں ایک مرتبہ آپ کو راجستھان میں چاندی سے تولا گیا 46/45 کلو چاندی آپ کا وزن تھا۔ تولنے کے بعد جب وہ چاندی آپ کو دی جانے لگی تو مفتی صاحب فرمانے لگے :تم نے ہمیں دی ہم نے مدرسہ کو دی یعنی اس چاندی میں سے اپنے لئے ایک رتی بھی نہیں رکھا بلکہ ساری کی ساری چاندی مدرسہ کےلئے وقف کردی ۔ یہ تھی آپ کی دین کے خاطر عظیم قربانی کہ سارے چاندی مدرسے کو دے دی ورنہ کون نہیں چاہتا کہ اس کے پاس مال ودولت کے انبار ہوں۔

دڑیہال کے ایک حکیم صاحب کی عقیدت ومحبت :
حضرت مفتی اعظم راجستھان علیہ الرحمہ کے بھتیجے مکھیہ شمیم صاحب بیان کرتے ہیں : کہ ایک مرتبہ گاؤں میں ایک صاحب کا دماغی توازن خراب ہو گیا۔ علاج کے لئے کسی نے قصبہ دڑیہال(دڑیہال وہی قصبہ ہے جہاں قبلہ مفتی اعظم راجستھان مفتی محمداشفاق حسین نعیمی علیہ الرحمۃ والرضوان نے جامعہ اجمل العلوم سنبھل سے فارغ ہو کر سب سے پہلے تدریس کا آغاز فرمایا۔) میں ایک حکیم صاحب کا پتا بتایا۔ کچھ لوگ علاج کی غرض سے ان حکیم صاحب کے پاس دڑیہال پہنچے۔ حکیم صاحب نے پوچھا آپ لوگ کہاں سے آئے ہو؟ ان لوگوں نے جب اپنے گاؤں کا نام شیونالی بتایا تو حکیم صاحب فرط مسرت میں چھوم اٹھے اور بولے شیونالی میں آپ کس کس کو جانتے ہو؟ لوگوں نے کہا کن کےبارے میں آپ پوچھنا چاہتے ہیں؟ حکیم صاحب کہنے لگے مفتی اشفاق حسین صاحب کو جانتے ہو؟ لوگوں نے کہا بالکل جانتے ہیں، ہمارے قریب ہی میں رہتے ہیں۔ یہ سننے کے بعد حکیم صاحب نے ان تمام لوگوں کے خاطر خواہ مہمان نوازی کی ،اور رات کو وہیں قیام کرایا پھر صبح ان کے ساتھ اس مریض کو دیکھنے شیونالی بھی آئے۔
قارئین کرام! دیکھا آپ نے نسبت کی برکت کہ مفتی اعظم راجستھان علیہ الرحمہ کے علاقے سے نسبت کے سبب حکیم صاحب نے ان لوگوں کا کس قدر احترام واکرام فرمایا۔ اور ساتھ ہی مریض کو دیکھنے شیونالی بھی آئے۔ یقیناً یہ سب حضور مفتی صاحب قبلہ کی محبت ہی کی برکت تھی۔
دعا ہے اللہ جل شانہ حضرت مفتی اعظم راجستھان علیہ الرحمہ کا فیضان چرخ اہل سنت پر قائم ودائم فرمائے۔ آمین! بجاہ سید المرسلین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے