ازقلم: سید محمد فرقان حسنی حسینی قادری رضوی نوری جمالی رامپوری
رئیس القلم علامہ ارشد القادری ہاں مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے
یقیناً علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ، ماضی قریب کی ایک شش جہات و عہد ساز شخصیت کا نام ہے. جنھوں نے اپنی پوری زندگی اللہ و اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے لیے تن من دھن کی بازی لگا کر دین و سنیت کی آبیاری فرمائی
تحریر و تقریر، سیاست و قیادت اور تصنیف و تالیف کے میدان ہوں یا امت مسلمہ کی زلف برہم کو سنوارنے کے لیے کوسوں دور کا سفر، ہر ایک محاذ پر آپ نے گہرا نقش چھوڑا ہے. آئیے آئندہ سطور کی مدد سے قدرے آپ کی باکمال حیات سے آشنائی حاصل کرتے ہیں۔
ارشد القادری ہندوستان میں ایک حنفی سنی اسلامی مسلم عالم دین تھے۔ ان کا تعلق بریلوی مسلک سے تھا۔
علامہ ارشدالقادری علیہ الرحمہ لوگوں کے عقاٸدکی اصلاح کے لیۓ مختلف ممالک کےدورے بھی کیۓ
نام :- اصل نام غلام رشید ہے لیکن قلمی نام ارشد القادری سے مشہور ہیں والد عبد اللطیف رشیدی
ولادت :-آپ5 مارچ 1925ء اتر پردیش کے ضلع بلیا کے سیدپورہ گاؤں میں پیدا ہوئے
تعلیم :- ابتدائی تعلیم گھر کے علمی ماحول میں حاصل کی، پھر تقریباً آٹھ سال حافظ ملت حضرت علامہ عبد العزیز محدث مبارکپوری بانی جامعہ اشرفیہ، کی آغوش تربیت میں رہ کر اکتساب علم کیا۔1944ء میں دار العلوم اشرفیہ کے سالانہ جلسہ دستار بندی میں آپ کو سند فضیلت سے نوازا گیا۔
اس کے بعد آپ تدریس کے لیے ناگ پور پھر وہاں سے 1952 میں جمشید پور تشریف لے آئے۔ نصف صدی سے زائد پر محیط تدریسی دور میں تقریباً ڈیڑھ ہزار طلبہ نے آپ سے اکتساب علم کیا آپ ایک صاحب طرز ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ تحقیقی ذہن وفکر رکھنے والے صاحب قلم بھی تھے۔
آپ کی نثر میں بلا کی جاذبیت وہ کشش پائی جاتی ہے میرے اس دعوے کی واضح دلیل ہے
تصنیفات: – آپ کی تین درجن سے زائد تصنیفات وتالیفات ہیں جن میں زلزلہ، زیروزبر، لالہ زار بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
کارہاے نمایاں:- آپ نے پورے ملک میں مدارس ومساجد کا ایک جال بچھا دیا ہے۔ آپ کی دو درجن سے زائد تصانیف متعدد کتب پر مقدمہ اور تقریظ جام نور،جام کوثر،رفاقت، شان ملت کے علاوہ ملک کے مختلف جرائد و رسا ئل میں آپ کے شہہ پارے آپ کی ادبی حیثیت کا ثبوت ہیں۔
ملک سے باہر بھی آپ نے کئی ادارے قائم کیے ہیں۔ جن کی مجموعی تعداد تین درجن سے زائد ہے جن میں جامعہ حضرت نظام الدین اولیا دہلی،ادارشرعیہ،عالمی دعوتی، اصلاحی تحریک دعوت اسلامی،ورلڈ اسلامک مشن لندن، جامعہ مدینۃ الاسلام ہالینڈ، دار العلوم علیمیہ سورینام امریکہ، مدرسہ فیض العلوم جمشید پور وغیرہ کا قیام آپ کے زرین کارنامے ہیں۔
انہوں نے ملی، جماعتی، مفاد میں ملک وبیرون ملک سینکڑوں مضبوط و مستحکم قلعہ تعمیر کرنے کے باوجود اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے ایک جھونپڑی بھی نہیں بنا ئی۔
✒️ الغرض کہ
اہل سنت کی زبوں حالی پر فکر مندی اہل سنت کی زبوں حالی اور اسلام کو دشمنوں کے نرغے میں دیکھ کر ہمہ وقت بے چین رہا کرتے تھے۔ جب ساری دنیا سوئی ہوتی تو ملت کا یہ نقیب اشک بار آنکھوں سے بارگاہ خداوند میں التجائیں کیا کرتا تھا۔ حوالے کے طور پر “ارشد کی کہانی ارشد کی زبانی‘‘ کا مقدمہ پڑھا جا سکتا ہے۔
سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو
وہ اتحاد کے قائل تھے، مشربی اختلاف سے انھیں حد درجہ نفرت تھی، اشرفی رضوی اختلاف کا انھیں بے حد قلق تھا، سبھوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوششیں کرتے تھے۔ میں نے وہ دن بھی دیکھے ہیں جب خانقاہ ابو الفیاضیہ (پٹنہ) سے حضرت شاہ بر ہان علیہ الرحمہ اور خانقاہ منعمیہ (پٹنہ) سے سید شمیم احمد منعمی تشریف لائے اور آپ نے ان کا والہانہ استقبال کیا
اور بڑی دیر تک گفتگو ہوتی رہی کہ خانقاہوں کے آپسی روابط کیسے بحال ہوں؟ خانقاہی نظام کو بہتر سے بہتر بنانے میں کون سی چیزیں معاون ہوسکتی ہیں؟ مشربی چنگاریوں کو کیسے بجھایا جائے؟
القابات :- قائد اہل سنت،
رئیس القلم اللہ کریم نے گونا گوں خصوصیات و کمالات سے آپ کو خوب خوب نوازا تھا عشق نبی کی دولت لازوال تو خوب خوب پائی تھی
یہی وجہ تھی کہ جب آپ کبھی تصور جاناں کی طرف لو لگا کر صفحہ قرطاس پر اشعار رقم فرماتے تو بالکل روانگی کے ساتھ اظہارِ عقل و خرد کرتے چلے جاتے اور پھر جب اسے گنگناتے تو ایسی بلا کی چاشنی ملتی کہ پورا وجود تاج دارِ مدینہ کی حسین یادوں سے بھیگ جاتا اور ساتھ ہی دل مضطر کو بھی قرار آ جاتا. آپ کی ہر ایک نعت عشق نبی کی رنگ سے معمور ہے
آپ کا ایک نعتیہ مجموعہ بھی بنام ”اظہارِ عقیدت’‘ ہے۔ راقم الحروف کو یہ نعت تو بے حد پسند ہے. جسے سن کر گنگنانے اور صاحب کون و مکان کی حسین یادوں میں گم ہو جانے کا دل کرتا ہے۔
بہرِ دیدار مشتاق ہے ہر نظر دونوں عالم کے سرکار آجائیے
چاندنی رات ہے اور پچھلا پہر دونوں عالم کے سرکار آجائیے
سدرۃ المنتہیٰ، عرش وباغِ ارم ہر جگہ پڑچکے ہیں نشانِ قدم
اب تو اک بار اپنے غلاموں کے گھر دونوں عالم کے سرکار آجائیے
شامِ امید کا اب سویرا ہوا شہرِ طیبہ نگاہوں کا ڈیرا ہوا
بچھ گئے راہ میں فرشِ قلب ونظر دونوں عالم کے سرکار آجائیے
سامنے جلوہ گر پیکرِ نور ہو منکروں کا بھی سرکار شک دور ہو
کرکے تبدیل اک دن لباسِ بشر دونوں عالم کے سرکار آجائیے
دل کا ٹوٹا ہوا آبگینہ لیے جذبہ? اشتیاقِ مدینہ لیے
کتنے گھائل کھڑے ہیں سرِ رہ گزر دونوں عالم کے سرکار آجائیے
میرے گلشن کو اک بار مہکائیے اپنے جلوئوں کی بارش میں نہلائیے
دیدہ? شوق کو کیجئے بہرہ ور دونوں عالم کے سرکار آجائیے
تاابد اپنی قسمت پہ نازاں رہیں خاک ہوجائیں پھر بھی فروزاں رہیں
دل کی بزمِ تمنا میں اک بار اگر دونوں عالم کے سرکار آجائیے
آخری وقت ہے ایک بیمار کا دل مچلنے لگا شوقِ دیدار کا
بجھ نہ جائے کہیں یہ چراغِ سحر دونوں عالم کے سرکار آجائیے
شامِ غربت ہے اور شہر خاموش ہے ایک ارشدؔ اکیلا کفن پوش ہے
خوف کی ہے گھڑی وقت ہے پُر خطر دونوں عالم کے سرکار آجائیے۔