عقائد و نظریات

معبودان کفار اور شرعی احکام (قسط پنجم)

تحریر: طارق انور مصباحی، کیرالہ

قسط پنجم میں بحث نہم ہے۔اس میں اکراہ تام واکراہ ناقص کا بیان ہے۔

بحث نہم:

جبر واکراہ سے کیا مراد ہے؟

جس مسلمان کو کفر یہ کلمہ کہنے پر مجبور کیا گیا،یا کفار کی مذہبی عبادت پر مجبور کیا گیا، اس نے جبرواکرہ کے سبب محض زبان سے کلمہ کفر کہا،یا جبرواکراہ کے سبب مذہبی عبادت کو انجام دیا اور اس کا دل ایمان پر مطمئن تھا تو یہ کافر نہیں۔جبر واکراہ کی تشریح مندرجہ ذیل ہے۔

(1)صدرالشریعہ قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا:”اکراہ کی دوقسمیں ہیں۔ ایک تام، اور اس کوملجی بھی کہتے ہیں۔دوسری ناقص،اس کو غیر ملجی بھی کہتے ہیں۔اکراہ تام یہ ہے کہ مار ڈالنے یا عضو کاٹنے یاضرب شدید کی دھمکی دی جائے۔

ضرب شد ید کا مطلب یہ ہے کہ جس سے جان یا عضوکے تلف ہونے کا اندیشہ ہومثلاً کسی سے کہتا ہے کہ یہ کام کر، ورنہ تجھے مارتے مارتے بے کار کردوں گا۔

اکراہ ناقص یہ ہے کہ جس میں اس سے کم کی ھمکی ہو،مثلاً پانچ جوتے ماروں گا،یا پانچ کوڑے ماروں گا،یا مکان میں بند کر دوں گا،یا ہاتھ پاؤں باندھ کر ڈال دوں گا“۔(بہار شریعت:حصہ پانزدہم:ص189-مکتبۃ المدینہ:کراچی)

توضیح:ایمان وکفر کے معاملہ میں صرف اکراہ تام معتبر ہے۔ دیگر معاملات کے احکام میں کچھ فرق ہے۔ اکراہ کے مسئلہ میں تمام امورکا حکم یکساں نہیں۔اسی طرح اکراہ کے سبب بعض امور کو انجام دینے کی رخصت ہے،اور بعض امور کو انجام دینا فرض ہے۔فقہی کتابوں میں اکراہ کے مسائل کی تفصیل مرقوم ہوتی ہے۔

(2)”مجبوری اور اکراہ کی صورت میں حکم کفر نہیں۔مجبوری کے یہ معنی ہیں کہ جان جانے یا عضو کٹنے یا ضرب شدید کا صحیح اندیشہ ہو۔ اس صورت میں صرف زبان سے اس کلمہ کے کہنے کی اجازت ہے،بشرطے کہ دل میں وہی اطمینان ایمانی ہو“۔
(بہارشریعت: حصہ 9:ص456-مکتبۃ المدینہ کراچی)

مجبورمسلمان نے محض جبرواکراہ کے سبب کفریہ کلام کہا،یا کفار کے معبودوں کی عبادت کی،لیکن اس کا دل ایمان پر مطمئن تھا تو وہ کافر نہیں۔نہ حکم ظاہر میں کافرہے،نہ عند اللہ کافرہے۔ اکراہ سے اکراہ تام مراد ہے کہ جان جانے،عضو تلف ہونے یاضرب شدید کا خوف ہو۔اکراہ ناقص کی صورت میں حکم دنیا میں حکم کفر ہے،عند اللہ مومن ہے۔

(3)”معاذاللہ کفر کرنے پراکراہ ہوا،اور قتل یاقطع عضوکی دھمکی دی گئی تو اس شخص کو صرف ظاہری طورپر اس کفر کے کرلینے کی رخصت ہے، اور دل میں وہی یقین ایمانی قائم رکھنا لازم ہے جو پہلے تھا اور اس شخص کو چاہئے کہ اپنے قول وفعل میں توریہ کرے،یعنی اگر چہ اس فعل یاقول کا ظاہر کفر ہے،مگر اس کی نیت ایسی ہوکہ کفر نہ رہے،مثلاً اس کومجبور کیا گیا کہ بت کو سجدہ کرے،اور اس نے سجدہ کیا تو یہ نیت کرے کہ خدا کوسجدہ کرتا ہوں یا سرکار رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں گستاخی کرنے پر مجبور کیا گیا تو کسی دوسرے شخص کی نیت کرے، جس کا نام محمد ہو،اور اگر اس شخص کے دل میں توریہ کا خیال آیا،مگر توریہ نہ کیا یعنی خدا کے لیے سجدہ کی نیت نہیں کی تویہ شخص کافر ہوجائے گا، اور اس کی عورت نکاح سے خارج ہو جائے گی، اوراگر اس شخص کو توریہ کا دھیان ہی نہیں آیا کہ توریہ کرتا اوربت کوسجدہ کیا، مگر دل سے اس کا منکر ہے تو اس صورت میں کافر نہیں ہوگا“۔(در مختار،رد المحتار)
(بہارشریعت:حصہ پانزدہم:ص192-مکتبۃ المدینہ کراچی)

اکراہ تام کی صورت میں کفریہ کلمہ کہنے کا حکم

(1)قال ابن قدامۃ الحنبلی (م ۰۲۶؁ھ):(وَمَن اُکرِہَ عَلَی الکُفرِ فَاَتٰی بکلمۃ الکفر لم یَصِر کَافِرًا-وبہذا قال مالک وابوحنیفۃ والشافعی)
(المغنی مع الشرح الکبیر:جلد دہم:ص105)

(2)قال الشامی:(ثم قال فی البحر:والحاصل ان من تَکَلَّمَ الکُفرَ ہَازِلًا اَو لاَعِبًا کَفَرَ عِندَ الکُلِّ-وَلَا اِعتِبَارَ بِاِعتِقَادِہ کَمَا صَرَّحَ بہ فی الخا نیۃ-وَمَن تَکَلَّمَ بِہَا مُخطِءًا اَو مُکرَہًا،لَا یَکفُرُ عِندَ الکُلِّ-وَمَن تَکَلَّمَ بِہَا عَامِدًا عالمًا کَفَرَ عِندَ الکُلِّ-وَمَن تَکَلَّمَ بِہَا اِختِیَارًا جَاہِلًا بِاَنَّہَا کُفرٌ-ففیہ اختلافٌ)(رد المحتار:جلد چہارم:ص408-مکتبہ شاملہ)

(وَمَن تَکَلَّمَ بِہَا مُخطِءًا اَو مُکرَہًا،لَا یَکفُرُ عِندَ الکُلِّ)کا مفہوم ہے کہ اگر غلطی سے زبان سے کفریہ کلمہ نکل جائے، یا اکراہ کامل کے سبب کفریہ کلام کہے توکفر نہیں۔

مختلف ممالک میں غیرمسلموں کی طرف سے کبھی مسلمانوں کوکفریہ کلمات کہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔صرف اکراہ تام کی صورت میں کفریہ کلمہ کہنے کی رخصت ہے۔اگر توریہ کا خیال آئے تو توریہ پر عمل فرض ہے،ورنہ حکم کفر عائد ہوگا۔

اکراہ ناقص کی صورت میں کفریہ کلمہ کہنے کا حکم

امام علاء الدین کاسانی حنفی(م۷۸۵؁ھ)نے رقم فرمایا:(ہذا اذا کان الاکراہ علی الکفر تاما-فاما اذا کان ناقصا یحکم بکفرہ-لانہ لیس بمکرہ فی الحقیقۃ-لانہ ما فعلہ للضرورۃ،بل لدفع الغم عن نفسہ-ولو قال:کان قلبی مطمئنا بالایمان لا یصدق فی الحکم لانہ خلاف الظاہر کالطائع اذا جری الکلمۃ ثم قال:کان قلبی مطمئنا-ویصدق فیما بینہ وبین اللّٰہ تعالٰی)
(البدائع والصنائع:جلدہفتم: ص179-دارالکتاب العربی بیروت)

توضیح:جو جبرواکراہ شرعاً معتبر ہے، وہ اکراہ تام ہے۔اگر جبرواکراہ تام نہیں تھا،اور وہ محض کسی کے ڈرانے دھمکانے پر کفریہ کلمہ کہا تو اسے حکم ظاہر میں کافر قرار دیا جائے گا۔

(لانہ ما فعلہ للضرورۃ،بل لدفع الغم عن نفسہ)کا مفہوم یہی ہے کہ اکراہ تام نہیں تھا،لیکن ڈر اورخوف سے اپنی پریشانی دور کرنے کے لیے کفریہ کلام کہا تو کافرہے۔

اگر وہ کہے کہ میرا دل ایمان پر مطمئن تھا تو اکراہ ناقص کی صورت میں وہ عند اللہ مومن ہوگا۔حکم ظاہر میں اسے کافرسمجھا جائے گا۔اسے توبہ،تجدید ایمان وتجدید نکاح کا حکم ہوگا۔

(کان قلبی مطمئنا-ویصدق فیما بینہ وبین اللّٰہ تعالٰی)سے ظاہر ہے کہ اکراہ ناقص کی صورت میں بھی حکم ظاہر میں کافر ہے،لیکن عند اللہ کافرنہیں۔

مسلمان اس کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو مرتدکے ساتھ سلوک کا حکم ہے۔ بالفرض کبھی ایسی صورت حال کسی کے ساتھ درپیش ہوتو تاویل اور قیل وقال سے کوئی فائدہ نہیں۔

توبہ و تجدید ایمان کرنا کون سا محال ہے۔ توبہ وتجدید ایمان سے عزت بڑھتی ہے،گھٹتی نہیں۔

کفریہ قول میں نیت کا اعتبار نہیں

اگر کوئی کفریہ قول بلا جبرواکراہ کہے،اور دل میں اس کفر کا اعتقاد نہ ہوتوحکم ظاہرمیں بھی کافر ہے اور عند اللہ بھی کافر ہے۔قلبی اعتقادکا لحاظ تکفیر میں نہیں ہے۔ اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا کہ قلبی اعتقادکا لحاظ تکفیر میں نہیں، بلکہ مرجوح قول کے مطابق عند اللہ کافر ہونے میں ہے، اور قول مرجوح کے مطابق فتویٰ نہیں دیا جا سکتا ہے۔

امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے فلسفی کی بحث میں رقم فرمایا:”توجان لے کہ عبد ضعیف (اس پر مہربان مولیٰ مہربانی فرمائے)جب اس مقام پر پہنچا اوراس کلام کی وجہ سے متکلم پر حکم لگانے کا وقت آیا تواسی کلمہ اسلام کی عظمت وجلالت دامنگیر ہوئی،چناں چہ اس نے تکفیر کو بہت ہی عظیم معاملہ سمجھا، اس بات کا خوف کرتے ہوئے کہ ہوسکتا ہے،یہاں گہرا باریک علمی نکتہ ہو، جس تک میری دانش نہ پہنچی ہو، یا کوئی الگ تھلگ علمی بات جس کو میرا علم حاوی نہ ہوا ہو تو میں نے مولیٰ سبحانہ وتعالیٰ سے استخارہ کیا اور کتابوں کی طرف مراجعت اور ورق گردانی کرنے لگا،یہاں تک کہ میں نے اپنی پوری کوشش کرلی،اور مقدوربھر انتہائی محنت ومشقت کوبروئے کار لایا،اور اس میں پورے دودن صرف کردئیے،اس کے باوجود میں نے کوئی ایسی شئ نہ پائی جس سے آنکھ ٹھنڈی ہوتی،بلکہ جب بھی کتابوں کی تلاش میں منہمک ہوا، پے درپے تکفیر کے مؤید اقوال ہی پائے،یہاں تک کہ میں نے حنفی،شافعی،مالکی اورحنبلی فقہائے کرام اورعلمائے عظام کی کتب میں بہت سے عظیم مسائل اور عام فروع پر واقفیت حاصل کی تو وہ مجموعی طورپر بھی ایسے ہی ہیں،جیسے الگ الگ،گویا کہ وہ سب ایک ہی کمان سے تیر اندازی کرتے ہیں،چناں چہ میں نے یقین کرلیا کہ اس شخص کے لیے کوئی جائے فرار نہیں اورنہ ہی حکم تکفیر سے ہٹنے کی گنجائش ہے۔

اے اللہ!مگر ایک ضعیف روایت جوہمارے بعض علما سے جامع اصغر میں منقول ہے،وہ یہ کہ ارادہ قلبی معتبر ہے۔جامع اصغر میں اس کو وارد کیا،پھر اس کا خوب رد کیا،لیکن میں نے اس میں زیادہ سوچ بچار کی اور گناہ سے بچنے کے لیے توقف کوپسند کیا،یہ سمجھتے ہوئے کہ مخالفت اگر چہ کمزور ہے،مگر یہاں کافی ہے۔

چناں چہ میں نے گہری نظر ڈالی،اور فکر میں مبالغہ کیا،یہاں تک کہ مولیٰ تبارک وتعالیٰ نے مجھ پر آشکارا فرمادیا کہ تکفیر پر اجماع ہے، نزاع توفقط کفر میں ہے۔ اس میں کوئی شک وشبہہ نہیں کہ جس نے بخوشی جان بوجھ کر بقائمی ہوش وحواس کلمہ کفر بولا،وہ ہمارے نزدیک قطعی طورپر کافر ہے۔اس میں دوبکریاں سینگ نہیں لڑائیں گی۔
ہم اس پر مرتد ہونے کے احکام جاری کریں گے۔اس کی بیوی پر حرام ہوگا کہ وہ خود کو اس کے قابومیں دے،اور اس کے لیے جائز ہوگا کہ بغیر طلاق جس کے ساتھ چاہے، نکاح کرلے،اورکلمہ کفر کہنے والے کوہم بطوراستحباب تین دن محبوس رکھیں گے،اور اس کو مہلت دیں گے،تاکہ اسے توبہ کی توفیق ملے۔اگراس نے توبہ کرلی توٹھیک،ورنہ قتل کر کے اس کی لاش کو کتے کی لاش کی طرح غسل،کفن،نماز جنازہ اور دفن کے بغیر پھینک دیں گے۔

مسلمان مورثوں سے اس کی میراث منقطع کردیں گے، اوراس کی حالت ارتداد کی کمائی کوتمام مسلمانوں کے لیے غنیمت بنا دیں گے۔اسی طرح اس کے علاوہ دیگر احکام جاری کریں گے جوکتب فقہ میں تفصیل کے ساتھ مذکورہیں۔

رہا یہ مسئلہ کہ کیا وہ اس کلمہ کے ساتھ عند اللہ کافر ہوجائے گا یانہیں تو ایک قول یہ ہے کہ نہیں ہوگا،جب دلی ارادہ نہ پایا جائے، کیوں کہ تصدیق کا محل دل ہے۔یہی وہ حکایت ہے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے،جب کہ عام علمائے کرام اور جمہور امنانے کہا ہے کہ وہ کافر ہوجائے گا،اگر چہ دلی طورپر عزم نہ پایا جائے،کیوں کہ وہ دین کے ساتھ کھیلنے والا ہے،اوریہ یقینا کفر ہے۔

تحقیق اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمادیا ہے کہ اس جیسے فعل کا ارتکاب صرف وہی کرے گا جس کے دل سے اللہ تعالیٰ ایمان سلب کرلیتا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی پناہ۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:اوراے محبوب!اگر آپ ان سے دریافت فرمائیں گے تووہ کہیں گے کہ ہم یوں ہی ہنسی اورکھیل کررہے تھے۔آپ ارشاد فرمادیں:کیا اللہ اوراس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی کرتے ہو، بہانے نہ بناؤ،تم کافر ہوچکے، مسلمان ہوکر۔
اور یہی صحیح وراجح ہے جو تصحیح کے نقش ونگار سے مزین ہے تو یہاں سے ہی میں نے ایک خوبصورت جلیل القدررسالہ بنا دیا جوچمک دار فوائد اوربڑے بڑے موتیوں پر مشتمل ہے۔ میں نے اس کا نام ”البارقۃ اللمعا فی سوء من نطق بکفر طوعا“(۴۰۳۱؁ھ)رکھا،تاکہ نام سے رسالہ کی تاریخ تصنیف کاعلم ہوجائے۔ ہمارے اس رسالے کی طرح جس میں اب ہم مشغول ہیں،اس کانام ہم نے ”مقامع الحدید علیٰ خد المنطق الجدید“رکھا۔

تجھ پر اس رسالہ ”البارقۃ اللمعا“کا مطالعہ لازم ہے،کیوں کہ میں نے اس میں تحقیق کی ہے کہ برضا ورغبت کفریہ کلمہ بولنے والے کی تکفیر پر اجماع ہے۔اس میں کوئی نزاع نہیں۔ میں نے اس پرایسے بلند دلائل قائم کیے ہیں جنہیں جھکایا نہیں جا سکتا،اور ایسے قطعی براہین قائم کیے ہیں جن میں کمی نہیں کی جا سکتی۔دل مطمئن،معاملہ ثابت،درستگی ظاہر اور حجاب منکشف ہوگیا،اور تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو پر وردگار ہے تمام جہانوں کا“۔
(مقامع الحدید:فتاویٰ رضویہ:جلد27ص180 -جامعہ نظامیہ لاہور)

وضاحت:یہ عربی عبارت کا ترجمہ ہے۔ بخوف طوالت عربی عبارت نقل نہ کی گئی۔

اکراہ تام کی صورت میں توریہ کا حکم

اکراہ تام کی صورت میں توریہ کا خیال آیا تومجبور شخص کو توریہ کرنا فرض ہے۔توریہ نہ کرے تو حالت اکراہ میں بھی حکم کفر ہے۔توریہ وتعریض کی تفصیل اخیرمیں مرقوم ہے۔

حالت اکراہ میں توریہ سے متعلق فتاویٰ رضویہ سے سوال وجواب منقولہ ذیل ہے۔

مسئلہ:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ شہر بنارس میں ایک مسجد متصل کچہر ی دیوانی جس میں نماز وقتیہ و جمعہ ہوتا ہے،عرصہ دراز سے ایک جلسہ بایمائے حاکم ضلع بغرض انہدام مسجد مذکور اہل اسلام نے کیا۔ من جملہ اور باتوں کے بیان کیا گیا کہ مسجد کا کھودنا بمعاوضہ مکان دیگر ازروئے کتب فقہ جائز ہے تو یہ مسجد کھود ڈالی جائے، بعوض اس کے دوسری مسجد سرکار کی جانب سے تیار کردی جائے، حالاں کہ مسجد کا کھودنا ازروئے فقہ جائز نہیں ہے۔

عالمگیریہ میں ہے:(لوکان مسجد فی محلۃ ضاق علٰی اھلہ ولایسعھم ان یزیدوا فیہ فسألھم بعض الجیران ان یجعلوا ذلک المسجد لہ لیدخلہ فی دارہ ویعطیھم مکانہ عوضا ما ھو خیرلہ فیسع فیہ اھل المحلۃ-قال محمد رحمہ اللّٰہ تعالٰی:لا یسعھم ذلک)

(اگر محلہ کی مسجد اہل محلہ پر تنگ ہو گئی ہو، اور وہ لوگ اس میں کشادگی نہ کرسکتے ہوں تو اس مسئلہ کے متعلق بعض پڑوسی یہ کہتے ہوں کہ مسجد کو ان میں سے کوئی ایک حاصل کرے،اور اپنے گھر میں شامل کرے،اور اس کے عوض متبادل بہتر جگہ مسجد کے لیے خریدے، تاکہ اہل محلہ مسجد میں کشادگی حاصل کر سکیں۔

امام محمدرحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:ایسا کرنا ان کے لئے جائز نہیں ہے:ت)

اُس جلسہ میں بعض وہ شریک تھے جو بنارس کے مولوی صاحب کہلاتے ہیں۔انھوں نے معلوم نہیں کس غرض سے مسجد مذکور کے کھودنے کے واسطے رائے دی اور دستخط بھی کئے، بلکہ مولوی صاحب موصوف سے لوگوں نے دریافت کیا تو مولوی صاحب نے جواب دیا:

کھودنے کے واسطے رائے نہ دیتا تو کیا بیڑیاں پیروں میں ڈالتا،حالت اکراہ میں تو دو خدا اور جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو گالیاں دینا جائز ہیں۔

حالاں کہ کسی قسم کا اکراہ حاکمِ ضلع کی جانب سے نہ تھا،صرف اہل ِاسلام سے امر مذکور الصدر میں رائے طلب کی گئی تھی۔مولوی صاحب نے اکراہ کو”قُطِعَ اَوْقُتِلَ“ کے ساتھ مقید نہیں کیا،اور نہ توریہ کو کہا جس کی قید کتبِ فقہ میں ہے۔الغرض ایسی ایسی باتیں مولوی صاحب نے بیان کیں جس سے عوام کے گمراہ ہوجانے کاخیال ہے۔

حنفیوں پر اکثر طعنے بھی مخالفین کے ہونے لگے کہ تمھارے یہاں ایسے ایسے گندے مسائل ہیں۔مولوی صاحب کو امام نماز کا ازروئے شرع ومصلحت بناناچاہئے،یا نہیں؟
بینوابالکتاب وتوجروایوم الحساب

الجواب: یہ شخص بنص قطعی قرآن شریف فاسق وفاجر ہے۔قال اللہ تعالیٰ:(ومن اظلم ممن منع مساجد اللّٰہ ان یذکر فیھا اسمہ وسعٰی فی خرابھا)

اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو بازرکھے خدا کی مسجدوں کو اُن میں نامِ خدا لئے جانے سے اور کوشش کرے ان کی ویرانی میں۔

عذر اکراہ محض جھوٹا ہے،جوکمیٹیاں رائے زنی کے لئے مقرر کی جاتی ہیں، ہر گز حکام کی طرف سے گلے میں چھری نہیں رکھی جاتی کہ اگر تم نے یوں رائے نہ دی تو قتل کر دئیے جاؤ گے، یا زبان کاٹ لی جائے گی، یا ہاتھ قلم کر دئیے جائیں گے، بلکہ رائے زنی کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ہر شخص آزادانہ اپنی رائے ظاہر کرے۔

ہاں، دنیا پرست جیفہ خور خوشامد میں آکر دین و ایمان گنواکر حکام پر جبرواکراہ کا طوفان اٹھا کر بحیلہ کاذبہ اکراہ چاہیں، مسجد ڈھائیں، چاہے خدا ورسول کو گالیاں سنائیں، چاہے دو کے آتے تین گائیں۔(وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون)
(عنقریب ظالم لوگ جان لیں گے کہ کس کروٹ پلٹا کھائیں گے:ت)

ایسے لوگ نہ عنداللہ معذور ہوسکتے ہیں،نہ عندالحکام مجبور
مبادا دل آں فرومایہ شاد
کہ ازبہر دنیا دہد دیں بباد

(اس کمینے کا دل کبھی خوش نہ ہوجو دنیا کی خاطر دین کو ہوا کے حوالے کردیتا ہے:ت)

خرد مند انصاف پسند حاکموں کی نگاہ میں بھی دین فروش نہایت ذلیل و خوار ہوتا ہے کہ جس نے ذراسی خوشامد کے لئے دین جیسی عزیز چیز کوخیرباد کہا،اس سے جو پاجائے، تھوڑا ہے۔جس نے ادنیٰ طمع کے واسطے حاکم حقیقی جل جلالہ سے روگردانی کی،اس حاکم دنیوی کے ساتھ خیر خواہی کی توقع کیا ہے۔(خسر الدنیا والاٰخرۃ ذلک ھوالخسران المبین)
(دنیاوآخرت کا گھاٹا یہی صریح نقصان ہے:ت)

اور مسئلہ اکراہ یوں بے قید الفاظ جو خدا اور رسول کی جانب منہ بھر کر اس شخص نے کہے ، وہ بھی اس کے سوئے ادب وقلّت دین پر دال ہیں۔ شرع مطہر میں خوفِ جان کے وقت بھی حکم عزیمت یہی ہے کہ کسی طرح اصلاً کلمہ کفرزبان سے نہ نکالے،اور رخصت یہ کہ حتی الامکان توریہ کر کے پہلو دار بات سے جان بچائیں۔

اگر توریہ پر قادر تھا، اور اسے چھوڑ کر صریح کلمہ کفر بولا، قطعاًیقینا کافر ہوجائے گا۔

دُرمختار میں ہے:(ان اکرہ علی الکفر باللّٰہ تعالٰی او بسب النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بقطع اوقتل،رخص لہ ان یظھر ما امر بہ علٰی لسانہ ویوری وقلبہ مطمئن بالایمان-وان خطر ببالہ التوریۃ ولم یورکفروبانت دیانۃ وقضاء(نوازل وجلالیۃ)ویوجرلوصبر لترکہ الاجراء المحرم:الخ باختصار)

اگر کسی کو مجبور کردیا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاذاللہ کفر کرے، یانبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو معاذ اللہ گالی دے،ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا،یااس کا کوئی عضوکاٹ لیا جائے گاتو اسے اجازت ہے کہ زبان پر ایسے کلمات کو جاری کردے جن کا مطالبہ کیا گیا ہو، لیکن توریہ (یعنی حتی الامکان پہلو دار بات کے ذریعے جان بچائے) سے کام لے،اور اس کادل ایمان پر مطمئن اور قائم رہے، اور اگر اس کے دل میں توریہ کا خیال آیا، مگر اس نے توریہ نہ کیا تو وہ کافر ہوجائے گا،اور اس کی عورت قضاء ً و دیانۃً بائنہ ہوجائے گی(نوازل اورجلالیہ)،اور اگر صبر وہمت سے کام لے تو اجر پائے گا، کیوں کہ اس نے حرام کام کے ارتکاب کا ترک کیا ہے: الخ،اختصاراً: ت)

ایسے شدید فاسق کو افضل الاعمال نماز و مناجات بارگاہِ بے نیاز میں اپنا امام بنانا سخت حماقت اور دین میں بے احتیاطی و جرأت ہے،جب وہ ادنیٰ طمع یا خوشامد کے لئے مسجد ڈھانے کے لئے موجود ہے تو ادنیٰ تکلیف یا کاہلی کے باعث بے نہائے یا بے وضو نماز پڑھاتے اسے کیا لگتا ہے۔ایسے کوامام بنانے والے گناہ گار ہوں گے۔

مسلمانوں کو چاہئے ہرگزہرگز اس کے پیچھے نماز نہ پڑھیں۔اگر ناواقفی میں پڑھ لی تو اعادہ کریں۔

غنیہ شرح منیہ میں ہے:(لوقدموا فاسقایاثمون بناء علی ان کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم لعدم اعتناۂ باموردینہ وتساھلہ فی الاتیان بلوازمہ،فلا یبعد منہ الاخلال ببعض شروط الصلٰوۃ وفعل ما ینافیھا،بل ھوالغالب بالنظر الی فسقہ)

(اگر لوگوں نے فاسق کو امام بنادیا تو اس بناپر گناہگار ہوں گے کہ ایسے شخص کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے، کیوں کہ فاسق امور دینیہ میں لاپروائی برتتا ہے اور دین کے لوازمات کو بجا لانے میں سستی کرتاہے،پس ایسے شخص سے یہ بعید نہیں کہ وہ نماز کے بعض شرائط چھوڑ دے اور نماز کے منافی عمل کو بجالائے،بلکہ ا یسا کرنا اس کے فسق کے پیشِ نظر اغلب ہے: ت)
(فتاویٰ رضویہ:جلد ششم:ص483-481 -جامعہ نظامیہ لاہور)

مذکورہ امام نے قتل نفس، تلف عضو وضرب شدیدکے خوف کے بغیر ہی اکراہ مان لیا اور اکراہ میں بھی توریہ کا خیال ہونے پرتوریہ کا حکم ہے،اسے بھی نظر انداز کردیا، نیز مذکورہ صورت میں اکراہ کی صورت ہی نہ تھی،بلکہ مشورہ طلب کیا گیاتھا۔امام نے بلا اکراہ شرعی مسجد کی منتقلی کو قبول کرلیا،اوردستخط بھی کر دیا،اس لیے اسے شدید فاسق قرار دیا گیا۔

دھوکہ دینے کے واسطے کفریہ کلام کہنا

اگر کوئی بالقصدکفریہ کلام کہے تو صرف اکراہ تام کی صورت حکم کفر سے مستثنی ہے۔
سبقت لسانی کے سبب زبان سے کفریہ کلمہ نکل جائے توبھی توبہ واستغفار کا حکم ہے۔
کسی کوفریب دینے کے لیے کفریہ کلمہ کہا توبھی کفرکاحکم ہے۔

فتاویٰ رضویہ سے ایک سوال وجواب منقولہ ذیل ہے۔عدم دستیابی کے سبب سوال کا ابتدائی حصہ فتاویٰ رضویہ میں منقول نہیں۔ جواب دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس کے بارے میں سوال ہے،اس نے خود کو وید کا عاشق، آریہ دھرم کے لیے بے چین اوراپنے آریہ ہونے کو قابل فخر ظاہر کیا تھا۔جواب کے درج ذیل اقتباس سے یہی ظاہر ہوتا ہے۔

”جب اس کے ساتھ وہ جملے ملحق تھے جن کے جواب سے آریہ عاجز ہیں تو وہ ایسے پاگل نہیں کہ اپنی موت انھیں نہ سوجھے اور کرے حملے کرنے والے کو سمجھ لیں کہ واقعی یہ دل سے وید کا عاشق اور ویدک دھرم کے لئے بے چین اور آریہ ہونے کو عزت وفخر وسرفرازی جاننے والا ہے“۔

فتاویٰ رضویہ کاسوال وجواب منقولہ ذیل ہے۔

مسئلہ: وہ اب یہ بیان کرتے ہیں کہ میں کوٹہ میں مولانا کا فتویٰ دیکھ آیا۔ اس کی رو سے مجھ پر ان اقوال کی وجہ سے معاذاللہ کفر عائد نہیں ہوتا۔وہ کہتے ہیں،میں نے یہ اقوال صرف آریہ کا بھید لینے کوکہے تھے۔الحرب خدعۃ (جنگ دھوکا ہے:ت)

اور یہ ایک ایسے مضمون کے ساتھ ملحق تھے جس میں آریوں اورا ن کے مذہب پر حملہ تھا جس کی وجہ سے معلوم ہوسکتاتھا کہ یہ میں نے رضامندی سے نہیں کہے،ان وجہوں کی بنا پر آیا ان سے کفر ثابت ہوگایانہیں؟

اوربہر تقدیر نکاح کے بارہ میں کیاحکم ہے۔ اگر تجدید نہ کی جائے تو بھی نکاح سابق کسی صورت میں بحال ہے یانہیں؟ میں امید کرتاہوں کہ ان مسائل کے جواب اور اس فتویٰ کی نقل سے جوکوٹہ روانہ کیا جناب مجھ کو مطلع کریں گے۔ زیادہ آداب، محمد میاں قادری برکاتی عفی عنہ:از لکھنو (نوٹ: سوال کا ابتدائی حصہ دستیاب نہ ہوا)

امام اہل سنت قدس سرہ العزیزنے جواب میں رقم فرمایا:”فتویٰ کہ فقیر نے کوٹہ بھیجا تھا، ا س کی نقل حاضر ہے۔اس کے کون سے حرف میں ان کے لئے حکم کفر سے نجات ہے۔

اس میں دو شقیں کیں: اول یہ کہ کلمات دل سے کہے،اس پر یہ لکھا کہ:”جب توا س کا کفر صریح ظاہر واضح ہے جس میں کسی جاہل کو بھی تامل نہیں ہوسکتا“۔

اس کا مفہوم مخالف صرف اس قدر کہ اگر دل سے نہ کہے تو کفرایسا واضح نہیں جس میں کسی جاہل کو بھی تامل نہ ہوسکے۔ نہ یہ کہ دل سے نہ کہے تو کفر ہی نہیں، کفر ضرور ہے۔ اگرچہ اس درجہ شدت ظہور پر نہیں کہ کو ئی جاہل بھی تامل نہ کر سکے، بلکہ اس سے ظاہر یہ ہے کہ دل سے نہ کہے جب بھی اس کے کفر میں کوئی جاہل تامل کرسکے، کسی اہل علم کو تامل نہیں ہوسکتا اور جاہلوں میں سب کو نہیں کسی کو، اور وہ بھی یقینا نہیں امکاناً، یعنی دل سے نہ کہے کی حالت میں احتمال ہے کہ شاید کوئی جاہل اس کے کفر میں تامل کرے، اور دل سے کہے تو اتنا احتمال بھی نہیں۔

دوسری شق یہ کہ آریہ کودھوکادینے کے لئے استعمال کئے، دل سے ان کلمات ملعونہ کو پسند نہیں کرتا۔یہی وہ عذر ہے جو وہ اب بیان کرتے ہیں، ان کے بیان سے پہلے ہی فتوے میں اس کا رد موجود ہے کہ: ”دھوکے کاعذر محض جھوٹ اور باطل ہے“۔

جب اس کے ساتھ وہ جملے ملحق تھے جن کے جواب سے آریہ عاجز ہیں تو وہ ایسے پاگل نہیں کہ اپنی موت انھیں نہ سوجھے اور کرے حملے کرنے والے کو سمجھ لیں کہ واقعی یہ دل سے وید کا عاشق اور ویدک دھرم کے لئے بے چین اور آریہ ہونے کو عزت وفخر وسرفرازی جاننے والا ہے۔

آخر نہ دیکھا کہ انھوں نے ایک نہ سنی اور عاشق بے چین کو عزت وفخر وسرفرازی سے محروم رکھا۔ اگر وہ ذرا بھی دھوکا کھاتے تو ایسے شخص کو جو عوام میں عالم مشہور اور دھڑلے کا واعظ اور اتنے اونچے عالی اعلیٰ خاندان سے اور سور روپے ماہوار کی جائداد بھی دکھائے، شہدپر مکھیوں کی طرح گرتے، لپٹتے پیان پوجتے، ڈنڈوت کرتے، کندھوں پر چڑھا کر سربازار باجا بجاتے گروکل لے جاتے اور اسی مضمون کا لکچر دلواتے،مگر انھوں نے منہ بھی نہ لگایا۔ایمان بھی گیا اور دھوکا بھی نہ ہوا۔ حقیقۃً ابلیس لعین نے اسے دھوکا دے کر ایمان لے لیا۔ کافر تو اس کے دھوکے میں نہ آئے،مگر یہ اس کافر ملعون ابد کے دھوکے میں آگیا۔

اور بفرض غلط اگر اس میں آریہ کو دھوکا ہوتا بھی تو دھوکا دینا کیا ایسا ضرور ہے جس کے سبب کھلے کفر بکے:(وقل الحق من ربکم فمن شاء فلیؤمن و من شاء فلیکفر)

اور فرمادو کہ حق تمھارے رب کی طرف سے ہے، تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے:ت)

کیا بلاضرورت باختیار خود کفر بکنے سے آدمی کافرنہیں ہوتا، جب کہ دل سے نہ ہو۔ اس دل سے نہ ہونے کا عذر منافقین پیش کرچکے اور اس پر واحد قہار سے فتوائے کفر پا چکے:

(ولئن سألتہم لیقولن انما کنا نخوض ونلعب قل اَ باللّٰہ واٰیٰتہ ورسولہ کنتم تستھزؤن لاتعتذروا قد کفرتم بعد ایمانکم)

اور اے محبوب اگر تم ان سے پوچھو تو کہیں گے کہ ہم تو یونہی ہنسی کھیل میں تھے، تم فرماؤ:کیا اللہ تعالیٰ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنستے ہو۔ بہانے نہ بناؤ تم کافر ہوچکے مسلمان ہوکر۔

یہیں سے رضامندی نہ ہونے کا بھی جواب واضح ہوگیا کہ ہزل استہزامیں بھی رضابالحکم نہیں ہوتی‘ ورنہ جد ہو، نہ ہزل۔

ردالمحتار میں ہازل کی نسبت ہے:(انہ تکلم بالسبب قصدًا فیلزمہ حکمہ وان لم یرض بہ)اس نے قصداً سبب کا تکلم کیا،لہٰذا اس پرحکم لازم ہوگا اگرچہ وہ اس سے راضی نہ تھا:ت)

اور بفرض غلط اگر دھوکا دینا ضرور بھی ہو تو ہر ضرورت کفر سے نہیں بچاتی۔ یوں تو جو ننگے بھوکے پیٹ کی خاطر عیسائی ہوجاتے ہیں،انھیں بھی کہئے،کافر نہ ہوئے کہ بضرورت کفر اختیار کیا۔ یہاں وہ ضرورت معتبر ہے کہ حداکراہ شرعی تک پہنچی،اور یہ بداہۃً ظاہر کہ دھوکا دینا ضروری بھی سہی،تاہم تو حداکراہ تک کسی طرح نہیں پہنچ سکتا۔ کیا قائل اگر یہ دھوکا نہ دیتا تو کوئی اسے قتل کردیتا یا ہاتھ پاؤں کاٹ دیتا یاآنکھیں پھوڑدیتا، کچھ بھی نہ ہوتا۔ اس کے ایک رونگٹے کو بھی ضرر نہ پہنچتا تو یقینا اس نے بلااکراہ وہ کلمات کفر بکے اور واحد قہار عزجلالہ نے کلمہ کفربکنے میں کافر ہونے سے صرف مبتلائے اکراہ کا استثنا فرمایا ہے کہ ارشاد فرماتاہے:(الامن اکرہ وقلبہ مطمئن بالایمان)(سوا اس کے جو مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر جما ہوا ہو:ت)

یہاں اکراہ درکنار ایک رونگٹے کو بھی کچھ نقصان نہ پہنچتا تھا۔ایک دھیلا بھی گرہ سے نہ جاتا تھا اور بکے وہ کلمات کہ مجرد علامت کفر نہیں، بلکہ حقیقۃً خود کفر خالص ہیں تو قطعا دل کھول کر کفر بکنا ہوا، اور یقینا بنص قطعی قرآن کفر ہے، ولہٰذا جو بلا اکراہ کلمہ کفر بکے،بلا فرق نیت مطلقا قطعا یقینا اجماعا کافرہے۔عورت اس کی نکاح سے فوراً نکل جاتی ہے جب تک از سرنو اسلام نہ لائے اور اپنے کلمات ملعونہ سے برائت وتوبہ صادقہ نہ کرے، ہر گز اس سے نکاح نہیں ہوسکتا اوراگر اسلام لے آئے تو بہ کرے،اور پھر نکاح سابق کی بنا پر عورت کو زوجہ بنائے تو قطعا زنائے خالص ہے۔

فتاویٰ امام قاضی خاں وفتاویٰ عالمگیری میں ہے:(رجل کفر بلسانہ طائعا و قلبہ مطمئن بالایمان یکون کافرا-ولایکون عند اللّٰہ تعالٰی مومنا)

(ایک شخص نے زبان سے حالت خوشی میں کفر کا اظہار کیا،حالاں کہ اس کا دل ایمان پر مطمئن تھا تو وہ کافر ہے،اور وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مومن نہیں ہے:ت)

حاوی میں ہے:(من کفر باللسان وقلبہ مطمئن بالایمان فھوکافر و لیس بمومن عند اللّٰہ تعالٰی)

(جس نے زبان سے کفرکیا،حالاں کہ دل ایمان پر تھا تو وہ کافر ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی مومن نہیں:ت)

جواہر الاخلاطی اور مجمع الانہر میں ہے:(من کفر بلسانہ طائعا وقلبہ مطمئن بالایمان کان کافرا عندنا وعنداللّٰہ تعالٰی)جس نے زبان سے حالت خوشی میں کفر کا اظہا ر کیا،حالاں کہ اس کا دل ایمان پر تھا تو وہ کافر اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی مومن نہیں: ت)

شرح فقہ اکبر میں ہے:(اللسان ترجمان الجنان فیکون دلیل التصدیق وجودًا وعدمًا فاذا بدلہ بغیرہ فی وقت یکون متمکنا من اظہارہ کان کافرا -واما اذا زال تمکنہ من الاظہار بالاکراہ لم یصر کافرا)

(زبان دل کی ترجمان ہے تو یہ دل کی تصدیق یا عدم تصدیق پر دلیل ہوگی تو جب وہ اظہار ایمان پر قدرت کے باوجود عدم تصدیق کااظہار کرتاہے تو وہ کافر ہوگیا۔ البتہ جب کسی جبر کی وجہ سے قدرت اظہار پر نہ ہو تو اب کافر نہ ہوگا:ت)

طریقہ محمدیہ وحدیقہ ندیہ میں ہے:(حکمہ ای التکلم بکلمۃ الکفران کان طوعًا ای لم یکرھہ احد من غیر سبق لسان الیہ،احباط العمل وانفساخ النکاح)(اگر کلمہ کفر کا تکلم خوشی سے ہے یعنی کسی چیز کا اکراہ و جبر نہیں، جب کہ سبقت لسانی نہ ہو، تو اس کا حکم یہ ہے کہ عمل ضائع اور نکاح ختم ہوجائے گا:ت)

یہ شرح ہے میرے ان الفاظ کی۔ کہئے اس میں کون سی ان کے لیے مفرہے۔ہاں، اللہ مجھے معاف کرے، اتنا قصور ضرور ہواکہ لہجہ نرم تھا جس کے سبب گنجائش کا وہم گزرا۔

وہ بے عقل یہاں سے سبق لیں جو سختی سختی پکارتے ہیں۔زمانہ کی حالت یہ ہے کہ ذرا نرم لفظوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے۔ایک بات اور بھی قابل گزارش ہے کہ حدیث میں ارشاد فرمایا:

(اذ اعملت سیءۃ فاحدث عندھا توبۃ السربالسروالعلانیۃ بالعلانیۃ رواہ الطبرانی فی الکبیر عن معاذ بن جبل رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ بسند حسن)

(اگر کوئی برائی کر بیٹھو تو اس سے توبہ کرو۔ مخفی گناہ پر مخفی اور اعلانیہ گناہ پر اعلانیہ توبہ کرو۔ امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں اسے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بسند حسن روایت کیا: ت) علانیہ گناہ کی علانیہ توبہ کاحکم ہے اور انھوں نے اس کا یہاں تک اعلان کیا کہ اخبار میں شائع کرایا، اللہ تعالیٰ ہدایت دے“۔
(فتاویٰ رضویہ:جلد14:ص602-597-جامعہ نظامیہ لاہور)

توضیح: دھوکہ دینے کے واسطے کفریہ کلام کہا تو بھی کفر کا حکم عائد ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے