نام ونسب :
آپ علیہ الرحمہ کا نام آپ کے والد گرامی کے پیر ومرشد قطب الاقطاب حضرت شاہ عبد الرحمٰن لکھنوی علیہ الرحمہ نے فضل رحمٰن رکھا جس سے آپ کی تاریخ ولادت نکلتی ہے۔(1)
القاب وآداب :
آپ کے مشہور القاب یہ ہیں اویس زماں، قدوة السالکین ،تاجدارِ طریقت ومعرفت
ولادت باسعادت :
آپ علیہ الرحمہ کی ولادت باسعادت 21رمضان المبارک سن 1208ھ کو بوقت صبح صادق سندیلہ میں ہوئی۔ (2)
والد ماجد :
آپ کے والد ماجد کا اسم مبارک شاہ اہل اللہ بن شیخ فیض ہے آپ کے والد ماجد قطب وقت حضرت شاہ عبد الرحمن لکھنوی علیہ الرحمہ کے مریدصادق تھے۔(3)
تعلیم وتربیت :
آپ نے ابتدائی کتب درسیہ مولانا نور الحق بن مولانا انوار الحق فرنگی محلی علیہما الرحمہ سے لکھنؤ میں پڑھیں۔ بعد ازاں طلب علم حدیث کے لیے دہلی کا سفر اختیار فرمایا۔ جہاں حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اور حضرت شاہ اسحٰق محدث دہلوی علیہما الرحمہ سے درس حدیث لیا اور سند فراغت سے سرفراز ہوئے۔ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی آپ کو تمام طلبہ سے الگ بعد نمازِ عشاء درس دیا کرتے تھے اور اس درس میں صرف شاہ صاحب کے داماد سید ظہیر الدین شہید علیہ الرحمہ کو شرکت کی اجازت تھی۔ ایک روز سید ظہیر الدین شہید علیہ الرحمہ نے دورانِ درس شاہ صاحب سے عرض کیا کہ مولانا فضل الرحمن کو سب سے الگ درس دینے میں کیا حکمت ہے؟ تو شاہ صاحب نے فرمایا کہ مولوی فضل الرحمٰن کو سب سے علیحدہ پڑھانے میں یہ راز ہے کہ ”وہ توجہات رسالت سے پڑھتے ہیں۔ ان کو برابر حضوری رسالت حاصل رہنے کو وجہ سے میں بھی یہ پسند کرتا ہوں کہ میری راتیں بھی حضوری رسالت میں حدیث و قرآن خوانی کے ساتھ گزریں“۔ مولوی فضل الرحمٰن کو بفیض مصطفائی بھی علوم عطا ہو رہے ہیں۔ سب کچھ وہ آنحضرت ﷺ سے پا لیتے ہیں اور پوچھ لیتے ہیں۔(4)
تدریسی خدمات :
طلب علوم کے بعد آپ علیہ الرحمہ کی زندگی کے اکثر ایام ریاضت ومجاھدہ اور درس حدیث دیتے ہوئے گزرے۔
علوم حدیث میں آپ کو درک حاصل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ علیہ الرحمہ کے پاس پڑھنے والے طلبہ اپنے وقت کے محدث بنے اور ان سے آگے مزید حدیث کا فیضان عام ہوا۔
فنون معقولات سے بے رغبتی اور حدیث پاک سے قلبی لگاؤ :
آپ علیہ الرحمہ ایک عظیم عاشق رسول تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ علیہ الرحمہ کو احادیث مبارکہ پڑھنے پڑھانے سے خاص قلبی لگاؤ تھا۔
مولانا ارشاد رحمانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :
طالب علمی کے زمانے میں میری ملاقات جب شاہ فضل الرحمٰن سے ہوئی تو مجھ سے دریافت فرمایا تم کیا پڑھتے ہو ۔ میں نے کہا قاضی مبارک ۔ ارشاد فرمایا استغفر اللہ نعوذ باللہ قاضی مبارک پر ھتے ہو اس سے حاصل کیا ہے۔ہم نے فرض کیا کہ منطق پڑھ کر قاضی مبارک کی مثل ہو گیے۔ پھر کیا۔ قاضی مبارک کی قبر دیکھو کیا حال ہے۔کوئی فاتحہ پڑھنے والا بھی نہیں اور ایک بے علم کی قبر پر جاؤ جس کو خدا سے نسبت تھی اس پر کیسے انوار وبرکات ہیں۔
اسی طرح ایک مرتبہ جب استاذ العلماء مولانا احمد حسن کان پوری علیہ الرحمہ آپ کی خدمت میں تشریف کے گیے۔ تو حسب عادت آپ نے دریافت کیا کہ آپ کیا پڑھاتے ہیں؟
مولانا نے سب علوم کا نام لیا ۔ اور معقولات کی زیادہ کتابیں بتائیں۔ شاہ صاحب نے معقولات پڑھنے اور پڑھانے کی بہت ہجو کی۔ اور فرمایا کہ منطق زیادہ پڑھنے اور پڑھانے سے قلب سیاہ ہو جاتا ہے۔ حدیث وفقہ زیادہ پڑھا کرو۔(5)
ارشد تلامذہ :
آپ کی درس گاہِ علم وفضل سے وقت کے ایسے عظیم آفتاب وماہتاب طلوع ہوئے جن کی ضیا باریوں سے شرق وغرب روشن ومنور ہو گیا۔ چند کے اسماے مقدسہ یہ ہیں
•حضرت مولانا عبد الکریم گنج مرادآبادی علیہ الرحمہ
•حضرت مولانا محمد علی مونگیری علیہ الرحمہ
• استاذ زمن حضرت مولانا احمد حسن کان پوری علیہ الرحمہ
• شیخ المحدثین حضرت علامہ وصی احمد محدث سورتی علیہ الرحمہ
• مولانا ظہور الاسلام فتح پوری علیہ الرحمہ
• سند المحدثین حضرت سید دیدار علی شاہ محدث علی پوری علیہ الرحمہ
• امیر ملت حضرت علامہ پیر سید جماعت علی شاہ صاحب محدث علی پوری علیہ الرحمہ (6)
بیعت و خلافت :
آپ سلسلہ قادریہ نقشبندیہ مجددیہ کے شہر آفاق بزرگ شاہ محمد آفاق دہلوی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سلوک کی تعلیم حاصل کی اور بیعت وخلافت سے سرفراز ہوئے۔ آپ کے مرشد نے آپ کو علامہ ابن جزری کی کتاب حصن حصین پڑھائی اور اس کے پڑھنے اور پڑھانے کی اجازت عطا فرمائی۔ شاہ آفاق دہلوی علیہ الرحمۃ والرضوان آپ سے بے پناہ محبت فرماتے تھے اور بارہا آپ کی اقتداء میں نماز ادا فرماتے۔ مرشد کی نظر عنایت دیکھ کر بعض مریدوں نے عرض کیا کہ وہ پہلے سے مرید ہیں لیکن ان پر اتنی نظر عنایت کیوں نہیں جتنی کہ مولوی فضل الرحمٰن پر ہے۔ حضرت شاہ آفاق علیہ الرحمہ نے جواب دیا”تم کو میں چاہتا ہوں کہ کچھ ہوجاؤ اور ان کو حق تعالیٰ چاہتا ہے لہٰذا میں بھی اسی کو چاہتا ہوں جس کو حق تعالیٰ چاہتا ہے“ (7)
مشاہیر خلفا :
آپ کے چند خلفا کے اسما درج ذیل ہیں :
• مولانا عبد الکریم گنج مرادآبادی علیہ الرحمہ
• مولانا احمد میاں گنج مرادآبادی علیہ الرحمہ
• مولانا قادر علی رام پور (جد امجدمولانا ھدایت رسول رام پور)
• مولانا محمد علی مونگیری علیہ الرحمہ
• شیخ المحدثین حضرت علامہ وصی احمد محدث سورتی علیہ الرحمہ
• مولانا ظہور الاسلام فتح پوری علیہ الرحمہ
• سند المحدثین حضرت سید دیدار علی شاہ محدث علی پوری علیہ الرحمہ
• امیر ملت حضرت علامہ پیر سید جماعت علی شاہ صاحب محدث علی پوری علیہ الرحمہ(8)
اعلیٰ حضرت کی آپ سے ملاقات :
امام اہل سنت الشاہ امام احمد رضا خاں محدث بریلوی سے آپ کی کئی ملاقاتیں ثابت ہیں۔ چنانچہ نبیرہ محدث سورتی حضرت علامہ شاہ مانا میاں قادری پیلی بھیتی رقم طراز ہیں :
اعلی حضرت عظیم البرکت مولانا شاہ احمد رضا خاں بریلوی سن 1311ھ میں پہلی مرتبہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن گنج مرادآبادی قدس سرہ کی زیارت کے لیے گنج مرادآباد تشریف لے گیے تھے۔ اس سفر میں آپ کے ہمراہ مولانا وصی احمد سورتی، مولوی خلیل الرحمٰن خاں تلمیذ مولوی لطف اللہ علی گڑھی، قاضی خلیل الدین صاحب حسن رحمانی المعروف حافظ پیلی بھیتی ،اور استاذ الزمن مولانا حسن احمد کان پوری شامل تھے۔اس زمانہ میں ریل گاڑی گنج مرادآباد کے لیے نہیں چلتی تھی۔ ہردوئی، اناؤ یا بالا میؤ سے لوگ بیل گاڑی میں بیٹھ کر جایا کرتے تھے۔اعلیٰ حضرت اپنے احباب کے ساتھ بالامیؤ اسٹیشن سے بیل گاڑی کے ذریعے گنج مرادآباد تشریف لے گیے۔ حضرت شاہ فضل الرحمن علیہ الرحمہ کو آپ کی آمد کی اطلاع مل چکی تھی۔لہٰذا آپ نے مریدین کے ساتھ قصبہ سے باہر تشریف لا کر اعلیٰ حضرت کو خوش آمدید کہا۔ تین دن سے زائد اعلیٰ حضرت گنج مرادآباد میں مقیم رہے۔(9)
وفات پرملال:
آپ نے 105 سال طویل عمر پائی 23ربیع الاول 1313ھ کو وفات ہوئی، گنج مراد آباد (ہندوستان) میں مزار مرجع الخلائق ہے۔(10)
ماخد ومراجع :
(1)تذکرہ محدث سورتی ص :53
(2) ایضاً ص:53
(3) ایضاً ص 53
(4)رحمت ونعمت ص:116
(5)تذکرہ محدث سورتی ص :54
(6)ایضاً ص :55
(7)تذکرہ اولیاے پاک وہند ص: 390
(8)ایضاً ص :57
(9)ایضاً ص :56
(10)ایضاً ص :57