از قلم :محمد ہاشم اعظمی مصباحی
نوادہ مبارکپور اعظم گڑھ یوپی
منفرد لب و لہجے کے عظیم شاعر صاحب طرز نعت گو معروف قائد الحاج عبدالستار رند مبارکپوری طویل علالت کے بعد اپنی صدسالہ حیات مستعار گزار کر 27 اکتوبر بروز بدھ رات تقریباً ساڑھے دس بجے اپنے وطن مالوف میں انتقال کر گئے۔ آپ کی رحلت سے شعروادب کی محفلیں، سماجی و ادبی تنظیمیں سونی ہوگئیں اہلیانِ مبارکپور اپنے عظیم قائد و رہنما سے محروم ہو گئے.
الحاج عبدالستار رند مبارکپوری کی پیدائش یکم شوال المکرم 1338ھ کو بھارت کے معروف ضلع اعظم گڈھ کے تاریخی شہر مبارکپور کے محلہ نوادہ میں عبداللہ بن جان محمد کے گھر ہوئی ۔ مجدد سلسلہ اشرفیہ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ نے عبدالستار نام رکھا اور خوب دعاؤں سے نوازا اشرفی میاں کی دعاؤں کا ایسا اثر ظاہر ہوا کہ آگے چل کر عبدالستار نوادوی نعتیہ شاعری کے حوالے سے رند مبارکپوری کے نام سے افق شعروادب پر آفتاب و ماہتاب بن کر جگمگا اٹھے رند مبارکپوری اشرفی میاں کے سلسلے میں حضور محدث اعظم ہند کے دست حق پرست پر شرفِ بیعت واردات رکھتے تھے بعد میں حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ سے طالب ہوئے تو انھیں کے ہوکے رہ گئے آپ کے اشعار میں ان بزرگوں کی عقیدت کے نقوش جابجا نظر آتے ہیں.
جنابِ رند کو بچپن ہی سے شعر وسخن کا بڑا ذوق وشوق تھا نعت گوئی فطرت میں ایسی رچی بسی تھی کہ گویا آپ فطری اعتبار سے نعت گو شاعر تھے نعت نگاری اور منقبت گوئی رند کے قلم کا قبلہ وکعبہ تھا آپ کے بعض اشعار از دل خیزد بر دل ریزد کی عمدہ مثالیں ہیں. نبی کی نعت لکھتے لکھتے مقدر کا ستارہ اوج ثریا پر چمک اٹھا بخت کی خوابیدہ کلیاں مشکبار ہوئیں اور بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے اذنِ باریابی حاصل ہوگئی وارفتگئ شوق میں دیوانہ وار جھومتے ہوئے گنبد خضرا کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں میں پہونچے تو یوں گویا ہوئے:
ہے خلد سے بہتر گلِ گلزارِ مدینہ
ہیں رشکِ ارم کوچہ و بازارِ مدینہ
فردوس ملے رند تو خاطر میں نہ لاؤں
جنت ہے میری گوشہءِ دالانِ مدینہ
اس سفرِ مقدس میں قطبِ مدینہ حضرت علامہ سید ضیاء الدین مدنی علیہ الرحمہ سے ان کے دولت کدہ پر ملاقات اور مہمانی کا شرف حاصل ہوا واپسی میں انھوں نے خاکِ شفا عطا فرمائی تو خودسپردگی کے عالم میں یو ں چہکنے لگے :
اس ارضِ مقدس کی لطافت کا بیاں کیا
آنکھوں سے لگا لوں جو ملے خارِ مدینہ
رند مبارکپوری نے غزل، نظم، حمد، نعت، منقبت اور ہائیکو کی اصناف میں نادر کلام لکھاہے. آپ کا نعتیہ مجموعہ بنام ’’ضیاۓ حرم ‘‘ آپ کے یادگار شہکاروں میں شامل ہے۔ نعتیہ دیوان "ضیاۓ حرم” (مرتبہ؛ محمد ہاشم اعظمی مصباحی) کی اشاعت کے موقع پر انجمن تنظیمیہ رجسٹرڈ نوادہ کی جانب سے نبیرۂِ حافظ ملت کے ہاتھوں آپ کو اعلیٰ ترین "حافظ ملت” ایوارڈ سے بھی نوازا گیا.
رند صاحب نہ صرف یہ کہ کہنہ مشق نعت گو شاعر تھے بلکہ عظیم مربی و رہنما بھی تھے اور مبارکپور اعظم گڈھ کی سماجی و ادبی روایتوں کے حامل وامین بھی تھے بہت ہی خلیق، ملنسار، مطبع شریعت اور مرنجا مرنج طبیعت کے مالک تھے آپ کے مزاج میں شگفتگی اور کلام میں برجستگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی. مرکز علم و فن الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور کی تعمیر وترقی آپ کی نمایاں خدمات کا حسین باب ہے جو آپ کی زندگی کا ماحصل بھی ہے حضور حافظ ملت علامہ شاہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی کے زمانہ میں عرصہ دراز تک جامعہ اشرفیہ کے رکن رکین اور محاسب و امین رہے جامعہ کی تعمیر وترقی کے لئے ہر موڑ پر بحیثیت خادم حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کے شانہ بشانہ جبل شامخ کی طرح کھڑے رہے اشرفیہ کے لئے زمین کے حصول یابی کامعاملہ ہو یا چندے کی فراہمی کا مسئلہ، تعمیراتی کام کے لئے سامان کی فراہمی و نگرانی کا معاملہ ہو یا پھر مخالفین کے سامنے سینہ سپر ہونے کا ہر موڑ پر چٹان بن کر ڈٹے رہے اشرفیہ کی بنیادوں میں جہاں حضور حافظ ملت کے خونِ جگر کا دھارا نظر آتا ہے وہیں رند مبارکپوری کے لہو کی سرخی بھی نظر آتی ہے آپ نے اشرفیہ کے لئے اپنے ساتھ گھر پریوار کو بھی قربان کر دیا تھا آپ کی انھیں قربانیوں، محنت شاقہ اور فکرِ اشرفیہ کو دیکھ کر حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے کہا تھا : "حشر میں عبدالعزیز کے ساتھ عبدالستار کو بھی پکارا جاۓ گا” مرشد کی زبان فیض سے نکلا ہوا یہ جملہ جناب رند کے لئے دارین کی سعادت اور سرخروئی کی ضمانت ہے. یہ اور بات ہے کہ آج کل محسنین کو نظر انداز کرنے کا چلن عام ہوگیا ہے لیکن یاد رکھئے بغیر رند کے جامعہ اشرفیہ کی تاریخ کبھی مکمل نہیں ہوسکتی.
hashimazmi78692@gmail.com