ازقلم: محمد معاذ قادری مبارک پوری
متعلم: جامعہ اشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ
نام:عبد المنان
لقب: بحرالعلوم
والد کا نام:عبدالغنی مرحوم
ولادت باسعادت:آپ ۷/ربیع الثانی ۱۳۴۴ھ بروز دوشنہ محلہ پورہ رانی قصبہ مبارک پور ضلع اعظم گڑھ کے ایک دین دار گھرانے میں پیدا ہوے۔
پرائمری سے درس نظامی تک آپ دارالعلوم اشرفیہ میں تعلیم حاصل کی اور ۱۳۶۶ھ میں یہیں سے درس نظامی کی تعلیم مکمل کی اور دستار فضیلت سے سرفراز ہوے۔
سلسلۂ دریس: فراغت کے بعد آپ ۱۳۶۶ھ میں مدرسہ “ضیاء الاسلام”گورکھپور میں صدر مدرس کے عہدہ پر آپ کی تقرری ہوئ۔اور وہیں سے آپ نے ایک رسالہ جاری کیا جس کا نام “ایضا” رکھا۔
ایک سال بعد مدرسہ ضیاءالاسلام سے مستعفی ہوکر کچھ دنوں “دارالعلوم اشرفیہ” مبارک پور میں تدریسی خدمت انجام دی۔اس کے بعد گھر ہی پر مقیم رہے۔۱۳۶۸ھ میں آپ “مدرسہ انوارالعلوم” تلسی پور ضلع بلرام پور تشریف لے گیے اور وہاں تقریباً سات سال تک تدریسی فرائض انجام دئیے۔
۱۳۷۵ھ میں لوگوں کے اصرار پر اور سرکار حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کے حکم پر دوبارہ “دارالعلوم اشرفیہ” مبارک پور تشریف لے آۓ۔ آپ کو درس و تدریس کے ساتھ ساتھ افتاء کی بھی ذمہ داری سونپی گئ۔جسے آپ نے بہت ہی بحسن و خوبی تقریباً ۱۹ سال تک انجام دیا اور ملک اور بیرون ملک سے آۓ ہوے سوالات کے جوابات ارسال فرماے اور اس طرح آپ نے اپنی فقاہت اور فتوی نویسی کا عمدہ ثبوت پیش فرمایا۔
۱۳۹۶ھ میں آپ شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہوے اور ایک سے بڑھ کر ایک لائق و فائق تلامذہ پیدا کیے۔ آپ کے تلامذہ میں بہت سے علما اپنے نام کے ساتھ مصباحی اور “منانی” بھی لگاتے ہیں۔
اس کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ تا دم حیات”دارالعلوم شمس العلوم” گھوسی ضلع مئو میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز رہے اور درس و تدریس نیز افتاء کا مقدس فریضہ بحسن و خوبی انجام دیا۔
اساتڈۂ کرام:جلالتہ العلم حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ
۲۔حضرت علامہ مولانا سید شمس الحق صاحب گجہڑوی علیہ الرحمہ
۳۔حضرت مولانا ظفر علی صاحب نعمانی بلیاوی علیہ الرحمہ
۴۔حضرت مولانا قاری محمد عثمان صاحب گھوسوی علیہ الرحمہ
۵۔حضرت مولانا مفتی ثناءاللہ صاحب امجدی مئوی علیہ الرحمہ
۶۔رئیس المتکلمین حضرت علامہ مولانا حافظ عبدالرؤف بلیاوی علیہ الرحمہ
۷۔حضرت علامہ عبد المصطفی اعظمی علیہ الرحمہ
۸۔حضرت علامہ مولانا عبدالمصطفی رضوی ازہری شہزادۂ حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمہ وغیرہ
(ماخوذ از:مدرسہ اشرفیہ سے الجامعتہ الاشرفیہ تک)
تصنیفات و تالیفات:آپ کے چند تصانیف کے نام قابل ذکر ہیں:
۱۔الشاہد
۲۔جوابات حاضر و ناظر
۳۔مسلۂ آمین بالجہر
۴۔فتوی بحرالعلوم
۵۔مضامین بحرالعلوم
۶۔مختار الاحادیث
۷۔نداۓ یا رسول اللہ
۸۔محمد مثل الکامل
۹۔قبر کی اونچائ
۱۰انوکھی لڑائ وغیرہ
اس کے علاوہ آپ نے امام احمد رضا فاضل بریلوی کے فتاوی “فتاوی رضویہ” کے جلدوں کی تدوین فرمائ۔نیز اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کی عربی تصنیف “شمائم العنبر” کا اردو ترجمہ بھی کیا۔اور بھی بہت سارے مضامین و مقالات بھی لکھے ہیں جو مختلف رسائل میں چھپ چکے ہیں۔
اعزاز و انعامات :رضویات کی نمایاں خدمات پر رضا اکیڈمی کی جانب سے ۲۰ ہزار روپیہ اور ایوارڈ
۲۔جامعہ فیض العلوم جمشید پور سے “قائد اہل سنت ایوارڈ نیز شیخ الاساتذہ کا تکریمی خطاب
۳۔جامعہ صمدیہ پھپھوند شریف سے طویل دینی خدمات پر ۱۱/ہزار روپیہ اور “قبلہ عالم “ ایوارڈ
۴۔دہلی کی ایک عظیم الشان صوفی کانفرنس سے “نوری ایوارڈ”اور امام احمد رضا سوسائٹی کی طرف سے “امام احمد رضا نیشنل ایوارڈ” بطور خراج عقیدت آپ کی خدمت میں پیش کیے گیے۔
۵۔اور خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف نے وسیع دینی خدمات پر آپ کو چاندی سے تولا۔
(ماخوذ از: مدرسہ اشرفیہ سے الجامعتہ الاشرفیہ تک)
چند مشہور تلامذہ:حضرت علامہ مولانا عبداللہ خاں عزیزی، حضرت علامہ یسین اختر مصباحی، عمدة المحققین خیرالاذکیا حضرت علامہ مولانا محمد احمد مصباحی بھیروی ،حضرت علامہ افتخار احمد،حضرت علامہ مولانا صغیر احمد جوکھن پوری، حضرت علامہ مولانا عبدالمبین نعمانی چریاکوٹی،حضرت علامہ مولانا بدرالقادری مقیم حال ہالینڈ،حضرت علامہ مولانا محمد حنیف خاں بریلوی،سراج الفقہا محقق مسائل جدیدہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد نظام الدین رضوی، حضرت علامہ مولانا ڈاکٹر غلام یحی انجم ، حضرت مولانا نصیرالدین پلاموی،حضرت مولانا محمد اسلم مصباحی گورکھپوری،شیخ الاسلام حضرت سید محمد مدنی میاں کچھوچھوی،محدث کبیر حضرت علامہ مولانا ضیاء المصطفی اعظمی گھوسوی،حضرت علامہ مولانا اسرار احمد گجہڑوی،حضرت علامہ مولانا ڈاکٹر فضل الرحمن شرر مصباحی مبارک پوری وغیرھم
زیارت حرمین شرفین: پہلا ۱۸۷۴ء میں بذریعہ بحری جہاز
دوسرا۔ یکم رمضان المبارک ۱۴۲۰ھ
تیسرا۔۲۵/ شعبان المعظم ۱۴۲۱ھ
بیعت و خلافت: جلالتہ العلم حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ سے آپ بیعت ہوے اور سرکار امین ملت حضور سید امین میاں برکاتی مارہروی نے آپ کو اجازت و خلافت سے نوازا۔
وصال:۱۵/ محرم الحرام ۱۴۳۴ھ مطابق ۲۹/نومبر ۲۰۱۲ء شب جمعہ آپ اس دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ فرما گیے۔ آپ کی نماز جنازہ میں ملک اور بیرون ملک اور قرب و جوار کے لوگوں سے جامعہ اشرفیہ مبارک پور کا وسیع و عریض میدان لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔آپ کی نماز جنازہ آپ کے صاحبزادے مولانا شکیب ارسلان نے پڑھائ۔ آپ کی مزار مبارک محلہ پورہ خضر بڑی ارجنٹی اسلامیہ اسپتال کے پاس آپ کو مدفون کیا گیا۔