ابھی کچھ وقت قبل حضرت علامہ عبداللہ عارف صدیقی (جنرل سکریٹری آل انڈیا سنی علماء بورڈ، لکھنؤ) کے ذریعہ خبر موصول ہوئی کہ فاضل فیض الرسول حضرت علامہ ومولانا امیراللہ صاحب فیضی صدیقی (نونہواں،برڈپور ضلع سدھارتھ نگر) کا انتقال ہوگیا،انا للہ و انا الیہ راجعون
خبر کی تصدیق کے لیے جب حضرت مرحوم کے موبایل نمبر پر رابطہ کیا تو آپ کے بڑے صاحبزادے نے غم گین انداز میں اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ حضرت! ابو کا انتقال ہوگیا ہے، جنازے کے استفسار پر بتایا کہ نماز جنازہ بعد نماز عصر ادا کی جائے گی۔ خبر کی تصدیق کے بعد ایک لمحہ کے لیے حضرت کے خیالوں میں گم سا ہوگیا کہ حضرت کتنے مخلص و ملنسار تھے، سنیت کا درد رکھتے تھے بایں وجہ آپ نے بچیوں کی تعلیم کے لیے نونہواں میں ایک ادارہ بھی قائم فرمایا تھا اور تاحین حیات اسے بام عروج پر پہنچانے کے لیے کوشاں رہے۔ حضرت ایک اچھے عالم دین، باکمال خطیب اور ماہر ادیب تھے۔ بغرض تقریر ملک کے مختلف صوبوں اور اترپردیش کے اکثر ضلعوں میں آپ کا دورہ ہوتا تھا۔ آپ ادارہ دارالعلوم امام احمد رضا بندیشرپور کی تعلیمی وتبلیغی سرگرمیوں سے کافی متاثر تھے، اکثر محفلوں میں دارالعلوم کی تعلیم و ترقی کا ذکر کرکے سراہتے تھے بالخصوص حضرت مولانا مفتی محمد شعیب رضا نظامی فیضی کی تصنیفات و تالیفات اور قلمی سرگرمیوں و ترقیوں کو سراہتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے اپنے صاحب زادے بابو غلام نبی عرف صمدانی کو درس نظامی کی تعلیم کے لیے دارالعلوم میں داخل فرمایا تھا علاوہ ازیں کئی ایک بچوں کو دارالعلوم میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے راغب بھی کیا تھا۔ میں اور ادارہ کے سبھی اساتذہ حضرت کے لواحقین و پس ماندگان کے غموں میں برابر کے شریک ہیں۔ اللہ رب العزت حضرت کو غریق رحمت فرمائے اور آپ کی خدمات کو قبول فرماکر قبر و حشر میں بہترین بدلہ عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الکریم الامینﷺ
شریک غم(مولانا) صاحب علی چترویدی
پرنسپل دارالعلوم امام احمد رضا بندیشرپور، سدھارتھ نگر یو۔پی۔ انڈیا