بموقع عرسِ حضور احسن العلماء 15 ربیع الآخر
سر زمینِ ہندُستان پر اسلام کی اشاعت و تبلیغ کا مقدس فریضہ زیادہ تر خانقاہوں نے انجام دیا۔ مشائخ و صوفیہ نے انجام دیا- حضرت داتا گنج بخش ہجویری لاہوری، خواجہ غریب نواز سے لے کر حضور احسن العلماء مارہروی تک اولیاے کرام اور خانقاہی بزرگوں کا ایک طویل سلسلہ ہے؛ جن کی دینی و اصلاحی اور فکری خدمات نے ذہن و فکر میں خوش گوار انقلاب برپا کر کے ایمان کو تازگی عطا کی۔ جن کی مساعی جمیلہ سے ہند کی وادیاں سیراب ہوئیں- اس خصوص میں خانقاہِ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ کا کردار بڑا نمایاں اور اہم رہا ہے۔ اس خانقاہ سے وابستہ علما و مشائخ نے خدمتِ علم دین کے سلسلے میں تصنیف و تالیف اور ہدایت و ارشاد ہر دو طرح سے کام لے کر ظاہر و باطن دونوں کی درستی کا سامان کیا۔ صدیوں پر پھیلی ہوئی اس خانقاہ کی خدمات کا تجزیہ کیا جائے تو کثیر مقالات اور کتابیں تیار ہو جائیں۔
احسن العلماء اسی خانقاہ کے پروردہ تھے۔حضرت احسن العلماء کی ولادت۱۰؍شعبان ۱۳۴۵ھ/۱۳؍فروری ۱۹۲۷ء میں ہوئی۔ آپ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری برکاتی محدث بریلوی کے مرشدانِ کرام کے سادات گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ والد محترم حضرت سید شاہ آل عبا بشیر حیدر قادری (م۱۹۸۶ء) عظیم صوفی، عالم، ماہر لسانیات، نقاد اور ماہرِ علوم جدیدہ تھے۔ ۱۴؍ماہ کی عمر میں آپ کے نانا حضرت سید اسماعیل حسن شاہ جی میاں مارہروی (م۱۳۴۷ھ)نے بیعت و خلافت سے سرفراز فرمایا۔ تربیت میں والد ماجد کے علاوہ حضور تاج العلماء مولانا سید اولاد رسول محمد میاں مارہروی (م۱۳۷۵ھ) نے اہم رول ادا کیا نیز آپ نے خلافت و اجازت بھی دی اور اپنی سجادگی بھی عطا کی۔ احسن العلماء کے اساتذۂ کرام سے متعلق ان کے صاحبزادۂ گرامی مشہور فکشن نگار سید محمد اشرف میاں مارہروی لکھتے ہیں:
’’ان کے اساتذۂ کرام میں حضور تاج العلماء، حضرت شیخ العلماء مولانا غلام جیلانی علیہ الرحمۃ گھوسوی، مفتی سندھ خلیل العلماء حضرت مولانا خلیل احمد صاحب قادری برکاتی، حضرت شیر بیشۂ سنت مولانا حشمت علی صاحب علیہم الرحمۃ جیسے نامی گرامی اساتذۂ کرام تھے۔ اردو کے استاد منشی سعیدالدین صاحب تھے۔ انگریزی کے کچھ سبق قبلہ ماسٹر سمیع الدین صاحب مدظلہ سے پڑھے……قرآن عظیم کے درس کے اساتذہ میں والدہ محترمہ حضرت سیدہ شہر بانو رحمۃاللہ علیہا اور حافظ سلام الدین اور حافظ عبدالرحمٰن عرف حافظ کلو تھے۔‘‘ (سید محمد اشرف برکاتی، یاد حسن، مطبوعہ دارالاشاعت برکاتی مارہرہ مطہرہ ۲۰۰۳ء، ص۱۹)
احسن العلماء نے خانقاہ برکاتیہ کی علمی و روحانی روایات کو فروغ دیا۔ تصنیف و اشاعت کا کام بھی کیا اور مسند درس و تدریس کو بھی زینت بخشی۔ آپ کے ذریعے سلسلۂ قادریہ برکاتیہ کی عظیم پیمانے پر اشاعت ہوئی۔ اہل سنت کی اشاعت کے لیے آپ کا ذہن بڑا متحرک و فعال تھا۔ اتباع سنت اور شریعتِ مطہرہ کی پاسداری اہم وصف تھے- ان سب خوبیوں پر مستزاد یہ کہ آپ نے اپنے عہد میں اہل سنت کی خانقاہی قیادت بھی خوب نبھائی۔ آپ پیکر علم و دانش تھے۔ شعری و ادبی بصیرت سے مالا مال تھے۔ خطابت کی بزم کے مِہرِ درخشاں اور بزمِ ارشاد کے مہِ کامل تھے۔ شارح کلام رضاؔ تھے۔ عموماً آپ اپنی خطابت کے ذریعے اشعارِ رضاؔ کی تشریح نہایت آسان و سلیس انداز میں فرماتے۔ اس لحاظ سے آپ کے افادات عالیہ، ارشادات و خطبات کو تحریری شکل دے دی جائے تو کلام رضاؔکی تشریح و تفہیم پر ایک اہم ذخیرہ تیار ہو جائے۔ اس سمت کسی قدر پیش رفت ہوئی ہے اور بعض تقریریں تحریری شکل میں خانقاہ برکاتیہ کے سال نامہ ’’اہل سنت کی آواز‘‘ کے مختلف شماروں میں شائع بھی ہوئیں۔ حضور احسن العلماء مارہروی کی حیات و خدمات سے ہند کی خانقاہی تاریخ کے اوراق جگمگا رہے ہیں- آپ نے اندھیروں میں اُجالا برپا کیا اور اعلیٰ حضرت کے پاکیزہ مسلک کے ترجمان و شارح بن گئے… فرماتے ہیں:
تیرے مُرشد حضرت آلِ رسول
ان کو تجھ پہ ناز تھا احمد رضا
اپنے برکاتی گھرانے کا چراغ
تجھ کو نوری نے کہا احمد رضا
سُنیت کی آبرو دَم سے ترے
اب بھی قائم ہے شہا احمد رضا
تیری اُلفت میرے مُرشد نے مجھے
دی ہے گھٹی میں پلا احمد رضا
تحریر: غلام مصطفیٰ رضوی
نوری مشن مالیگاؤں