مرشد طریقت ، رہبر شریعت ، احسن العلماء حضرت علامہ و مولانا حافظ و قاری سید شاہ مصطفیٰ حیدر حسن میاں قادری برکاتی مارہروی علیہ الرحمہ اپنے خاندانی بزرگوں کی علمی و روحانی روایات کے امین و پاسبان تھے ۔ دینی علوم و فنون کی بیشتر شاخوں پر دسترس حاصل تھی ۔ آپ اپنے وقت جید عالم و فاضل ، مایۂ ناز مفتی ، بے نظیر صوفی ، قابل رشک شیخِ طریقت اور بے مثال محقق و مفکر تھے ۔ غیر معمولی قوتِ حافظہ کے مالک تھے ۔ اردو اور فارسی زبان و ادب کے اصول و مبادی پر گہری نظر تھے ۔ شعر و سخن میں کامل عبور حاصل تھا ۔ شعر گوئی و سخن فہمی دونوں میدان کے فاتح تھے ۔ علاوہ ازیں اپنی ہمہ جہت دینی ، ملی اور علمی خدمات کے باعث اہل سنت کے عوام و خواص میں عزت و احترام کی نگاہوں سے دیکھے جاتے تھے ۔ ہم عصر علماء نے آپ کی خدا داد ذہانت و صلاحیت ، ملکۂ خطابت ، فکر و تدبر ، ملی قیادت اور سیاسی بصیرت کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے ۔ ہمت و جرات ، استقامت علیٰ الشریعت ، اوراد و ظائف ، عبادت الٰہی ، ذکر خداوندی ، عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، محبت اولیائے کرام ، طریقۂ آباء و اجداد پر سختی سے عمل ، جذبۂ دعوت و تبلیغ ، مسلک اعلیٰ حضرت کی ترویج و اشاعت ، اخوت و بھائی چارگی اور سخاوت و فیاضی جیسے اوصاف و کمالات میں اپنی مثال آپ تھے ۔ آپ کے علمی جاہ و جلال اور ادبی فضل و کمال مسلّم ہے ۔ شارح بخاری حضرت مفتی محمد شریف الحق امجدی ، تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد اختر رضا خان قادری بریلوی اور بحر العلوم حضرت مفتی عبد المنان مبارک پوری علیھم الرحمہ جیسے جید اور مستند علمائے کرام ان کے علمی ، ادبی اور روحانی کمالات کے معترف و مداح تھے ۔ خانقاہ عالیہ برکاتیہ ، مارہرہ مطہرہ کے جملہ مشائخ کی دینی ، علمی ، ادبی اور روحانی قدریں آپ کی ذات میں سمٹ آئی تھیں ۔
حضرت احسن العلماء بحیثیتِ ادیب و شاعر :
حضرت احسن العلماء علیہ الرحمہ کا علمی تبحّر ، فنی رچاؤ ، زبان و بیان پر کامل گرفت اور ادبی و شعری مہارت کے نمونے ان کی تقدیسی شاعری میں ہمیں جا بجا نظر آتے ہیں ۔ سلاست و نفاست ، بیان کی عمدگی ، پُر تاثیر لب و لہجہ ، معنی و مفہوم کی گہرائی اور الفاظ کی موزونیت ان کے کلام کی نمایاں خصوصیات ہیں ۔ ویسے تو ان کی ذات پیکرِ محاسن تھی ۔ ایک ذات میں بہت سارے اوصاف و کمالات جمع ہوگئے تھے ۔ لیکن مومنِ کامل و مرشدِ کامل ، جید عالم و فاضل اور بے مثال داعی و مصلح کی حیثیت سے آپ زیادہ مشہور تھے ۔ ان کی زندگی کا مقصد دین و مذہب کی تبلیغ ، امت مسلمہ کی ہدایت و اصلاح اور مسلک اہل سنت وجماعت کی ترویج و اشاعت تھا ۔ پوری زندگی انہیں خطوط پر کام کرتے رہے اور نئی نسل کے لیے نمونۂ عمل بن کر دنیا سے رخصت ہوئے ۔ اپنے دینی و روحانی مشن کو آگے بڑھانے کے لیے تحریر اور تقریر دونوں کا سہارا لیا ۔ کتابیں بھی لکھیں اور اپنے گراں قدر خطبات و ملفوظات سے انسانی قلوب و اذہان میں انقلاب برپا کیا ۔ دعوت وتبلیغ کے زمرے میں لا محالہ زبان و ادب کی خدمت و اشاعت بھی ہو جایا کرتی ہے ۔ ایک کامیاب داعی و مبلغ کو مدعو قوم کی زبان کا عالم و ماہر ہونا ضروری ہوتا ہے ، تا کہ اس کی تبلغ مؤثر ، نفع بخش اور کامیاب ہو سکے ۔ حضرت احسن العلماء علیہ الرحمہ کے ہمہ جہت اوصاف و خدمات کا زرّیں پہلو یہ بھی ہے کہ آپ عربی ، فارسی اور اردو زبان و ادب کے ممتاز عالم و محقق ہونے کے ساتھ ان زبانوں کے خدمت گزار بھی تھے ۔ اردو تو خیر اپنی مادری زبان تھی ، عربی و فارسی میں بھی غیر معمولی دسترس رکھتے تھے ۔ گلشنِ اردو ادب کو اپنے خونِ جگر سے سینچنے اور پروان چڑھانے والے ملک کے ممتاز ادباء و شعراء اور نام ور محققین کی صفوں میں ایک اہم نام حضرت احسن العلماء کا بھی ہے ۔ آپ جتنے بڑے عالم و فاضل اور مرشد کامل تھے ، اتنے ہی بڑے ادیب و شاعر بھی تھے ۔ اپنے خطبات اور دینی مجالس میں حسبِ موقع بلا تکلف عربی ، فارسی اور اردو کے اشعار پیش کرتے ۔ قدیم اساتذۂ سخن کے دواوین و کلیات پر ان کی گہری نظر تھی ۔ اردو زبان کے محاورات و ضرب الامثال ، الفاظ کے مواقع ِ استعمال اور اس کے متروکات و مستعملات پر ناقدانہ حیثیت سے گفتگو فرماتے تھے ۔ غرض کہ آپ کے دینی ، علمی ، روحانی اور ادبی کارنامے آبِ زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں ۔
کلامِ رضا کے ماہر و شارح :
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمہ کے کلامِ بلاغت نظام کو کماحقہ سمجھنا ، ہر ایرے غیرے کا کام
نہیں ۔ اس کے لیے بڑی علمی وسعت اور ادبی و فنی مہارت کی ضرورت ہے ۔ حضرت احسن العلماء علیہ الرحمہ کو اعلیٰ حضرت کا نعتیہ مجموعۂ کلام ” حدائقِ بخشش ” نہ صرف یہ کہ زبانی یاد تھا ، بلکہ اس کے مشکل مقامات ، گنجلک مفاہیم اور دشوار معانی سے بھی آگاہی حاصل تھی ۔ ” کلامِ رضا کے ماہر و شارح ” کی حیثیت سے آپ کا نام کافی نمایاں ہے ۔
اس تعلق سے مفتی احمد میاں حافظ البرکاتی ایک واقعہ نقل کرتے ہیں کہ :
حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ کو امام اہل سنت اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ سے اتنی محبت تھی کہ آپ ہمیشہ اپنی تقریر و تدریس اور خلوت و جلوت میں جب اعلیٰ حضرت کا ذکر فرماتے تو ” میرے اعلیٰ حضرت ” کہتے اور فرماتے کہ ” میاں ! اعلیٰ حضرت کا کلام پڑھنا اور سمجھنا کوئی کھیل نہیں ہے ۔ اسے پڑھنے اور سمجھنے کے لیے علم چاہیے ۔”
غالباً 1970ء کی بات ہے جب آپ پاکستان تشریف لائے ، ان دنوں راقم الحروف دارالعلوم امجدیہ ، کراچی میں زیر تعلیم تھا تو تقریبا ہر روز ہی حضرت کی زیارت کا موقع ملتا رہا ۔ آپ نے جمعہ کی نماز حضرت استاذی علامہ قاری محمد مصلح الدین صدیقی قادری رضوی برکاتی رحمۃ اللہ علیہ کے اصرار پر اخوند مسجد کھاراور میں پڑھائی ۔ حضرت قاری صاحب ان دنوں اخوند مسجد میں خطیب و امام تھے ۔ جمعہ کے بعد بعد قاری صاحب قبلہ نے دعا فرمائی اور مناجات میں اعلیٰ حضرت کا یہ شعر بھی پڑھا :
یا الٰہی جب سرِ شمشیر پر چلنا پڑے
رب سلّم کہنے والے غمزُدا کا ساتھ ہو
حضرت قاری صاحب نے لفظ ” غم زدہ ” میں زاء پر زبر پڑھا ۔ حضرت احسن العلماء سید حسن میاں قدس سرہ کے ساتھ نجی محفل میں جب فقیر بیٹھا تو آپ نے فرمایا : احمد میاں ! اعلیٰ حضرت کے اس شعر میں جو قاری صاحب نے آج پڑھا زاء پر پیش ہے ، زبر نہیں ۔ اس لیے کہ زبر کے ساتھ معنیٰ ہیں :
” غموں کا مارا ہوا ” اور جب نبی خود غم کے مارے ہوں گے تو فریاد رسی کیسے فرمائیں گے ؟ زبر کے ساتھ ” زدن ” سے بنے گا ، جب کہ پیش کے ساتھ "غمزُدہ ” ۔۔۔۔۔۔۔ ” زدودن ” مصدر سے ہوگا ، جس کے معنیٰ ہیں : "صاف کیا ہوا ، قلعی کیا ہوا ” جو شان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے عین مطابق ہے ۔ پھر فرمایا : میاں یہ وہ اسرار ہیں جو سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے ہیں ۔ آپ قبلہ قاری صاحب سے عرض کردیجیے گا ۔ فقیر نے دوسرے دن سبق پڑھتے ہوئے حضرت قاری صاحب سے یہ گفتگو عرض کی تو آپ نہایت خوش ہوئے اور اس بات کو کئی جگہ بیان فرمایا ۔ چنانچہ اسی کا اثر ہے کہ آج حضرت استاذی قاری صاحب کے جانشیں اور تمام مریدین اس کو صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھتے ہیں ۔ اس طرح حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ کا فیض کلام رضا کی شرح میں عوام تک پہنچا ۔
( سیدین نمبر ، ص : 926 – 927 )
انسان کی ادبی مہارت کا اندازہ اس کے خطبات ( لیکچرز ) اور تقاریر سے بھی ہوتا ہے ۔ تحریر کی طرح حضرت احسن العلماء کی تقریر اور وعظ و خطاب بھی بڑے مدلل ، معنی خیز اور ذہن و فکر کو اپیل کرنے والے ہوا کرتے تھے ۔
آپ کے جوہرِ خطابت اور شیریں بیانی پر روشنی ڈالتے ہوئے جناب سید محمد اشرف برکاتی ماہروی لکھتے ہیں :
حضرت احسن العلماء ایک بے مثال مقرر تھے ۔ ان کے بیان میں سلاست ، تلقین ، خطابت اور تفہیم کے پہلو بہت روشن تھے ۔ انہوں نے مسلسل 54 / برس تک خانقاہ برکاتیہ ( مارہرہ مطہرہ ) کی جامع مسجد کے منبر سے رہنمائی فرمائی ۔۔۔۔۔۔ اسلامی تاریخ ان کا مستقل موضوع تھا ، جس پر وہ بے تکان تقریر کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ حضرت والا کی خطابت میں بڑی روانی تھی ۔ ان کی آواز بلند اور گونج دار تھی ۔ مائک کے بغیر ان کی تقریر دور دور تک سنائی دیتی تھی ۔ ان کی خطابت کا اعلیٰ ترین جوہر یہ تھا کہ وہ آیات قرآنی سے اپنے مدعا کی تائید و تصدیق کرتے جاتے تھے ۔ قرآن کے متن اور مفاہیم پر ان کا استحضار ضرب المثل کا درجہ رکھتا ہے ۔ دوسرا وصف جس کا بیان ضروری ہے کہ ان کی خطابت میں کہانی یا افسانے والی یکسوئی ، یک رخا پن اور تسلسل نہیں تھا ، بلکہ ان کی خطابت میں داستان جیسی علویت ، پھیلاؤ اور گمبھیرتا تھی ۔ لیکن وہ ” بات یہاں سے شروع ہوئی تھی ” فر ما کر پھر تقریر کو اپنے موضوع پر لے آتے تھے ۔ ان کی خطابت کا سامع ان کا مقتدی نہیں رہتا تھا ، ہمسفر بن جاتا تھا اور جب وہ ( سامع ) ان کی خطابت کے میدان میں ان کے ساتھ داخل ہوتا تھا تو دیر تک ان کے ساتھ مختلف مقامات کی سیر کرتا تھا ۔ کبھی توحید کی وادیوں سے گذر رہا ہے ، کہیں حبِّ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے گلستانوں کی سیر کر رہا ہے ، کہیں سلوک و معرفت کے مرحلے ہیں ، کہیں تاریخ و ادب کے دریا بہہ رہے ہیں ۔ کہیں فرائض و واجبات کے نظارے ہیں تو کہیں حقوق العباد کے مہ پارے ہیں ۔ آواز کا زیر و بم ، مقامی الفاظ کا بے تکلفانہ استعمال ، جذبے کی شدت اور فکر کی حِدّت سامع کو ایک عجیب و غریب دنیا میں لے جاتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بہت واضح گفتگو فرماتے تھے ۔ الفاظ پورے مخارج کے ساتھ ادا کرتے اور گفتگو کے تقاضے کے مطابق لہجے میں اتار چڑھاؤ کا خیال رکھتے ۔ کوئی مشکل لفظ منہ سے ادا ہو جاتا تو فوراً اس کے آسان مترادفات کے ڈھیر لگا دیتے ، تاکہ سامنے والا بات کو اچھی طرح سمجھ لے ۔ تقریر میں اکثر عربی ، فارسی اور اردو کے اشعار بھی پڑھتے ۔ عربی میں حضرت حسان بن ثابت ، فارسی میں رومی و سعدی اور اردو میں میر تقی میر اور اعلیٰ حضرت ( محدث بریلوی ) کے اشعار بے تکان پڑھتے ۔
( یاد حسن ، ص : ١١٤ — ١١٦ ، دار الاشاعت برکاتی ، مارہرہ )
حضرت احسن العلماء علیہ الرحمہ نے وعظ و خطابت کے علاوہ نثر نگاری اور تصنیف و تالیف سے بھی اپنا رشتہ استوار رکھا ۔ ” سیدین نمبر ” میں موجود ان کے گراں قدر مضامین و مقالات کافی اہمیت کے حامل ہیں ، جن سے ان کے ملی درد ، دینی تڑپ ، جذبۂ تبلیغ اور قلمی مہارت کا پتہ چلتا ہے ۔
امین ملت پروفیسر سید شاہ امین میاں قادری برکاتی دام ظلہ کے بقول :
” رد وہابیہ میں ان کے کئی مضامین اور مختلف مستقل تصانیف ہیں ۔ علاوہ ازیں وہ نعت ، غزل اور منقبت وغیرہ بھی کہتے تھے ۔ سخن فہمی میں ان کی مثال ملنا مشکل ہے ۔ اعلیٰ حضرت اور ” اعلیٰ حضرتیات” پر ہندوستان کے علماء و مشائخ میں وہ منفرد تھے ” ۔
( طریقۂ احسن یعنی ملفوظات احسن ، ص : 76 ، مطبوعہ مارہرہ شریف )
بطورِ مثال ایک نثری نمونہ ملاحظہ کریں :
خدا و رسول اور ان کے محبوبوں کے ہو جاؤ اور ان کے دشمنوں ، مخالفوں اور ان کے غیروں سے ناطہ توڑ لو پھر تمہیں ابدی راحتیں ، ہمیشگی کا چین و آرام رب کریم کے فضل سے ملے گا ۔ تم اپنے دشمن پر غالب رہو گے ۔ تم اللہ سے ڈرو ، سب تم سے ڈرنے لگیں گے ۔ ساری ترقی اور کامیابی اسی میں ہے کہ : من یطع اللہ ورسولہ فقد فاز فوزا عظیما ۔
تم نہ حکومت وقت سے ٹکراؤ ، نہ غداری وشوریٰ پستی کے پاس جاؤ ۔ بس صبر و تقویٰ کو اپنا دستور العمل بناؤ ۔ ظاہر و باطن اور قول و عمل میں شریعت مطہرہ اسلامیہ کی حتی الوسع کامل پابندی کرو ۔ اللہ و رسول کے ہوجاؤ ۔ اسی میں حقیقی کامیابی ہے اور یہی سچی راہ نجات ہے ۔
( سیدین نمبر ، ص : 1229 )
نعت گوئی و منقبت نگاری :
علمِ فلسفہ میں ہیولیٰ و صورتِ جسمیہ کی بحث آپ نے پڑھی یا سنی ہوگی ۔ علم فلسفہ کی طرح علمِ عروض یا بلفظ دیگر شعر و شاعری میں بھی یہ ہیولیٰ و صورت جسمیہ اپنے مختلف رنگ و روپ کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں ، جو اپنی شعری اصطلاحات میں ” مادہ و صورت ” کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔ کیا کہنا چاہیے ؟ یہ مادہ ہے اور کیسے کہنا چاہیے ؟ یہ صورت ہے اور انہیں دونوں کے مجموعے کا نام شاعری ہے ۔ حضرت احسن العلماء کی توجہ زیادہ تر دین متین کی خدمت اور بندگان خدا کی اصلاح و ہدایت کی طرف رہی ۔ انھوں نے شاعری صرف رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے عشق و عقیدت اور بزرگانِ دین سے اپنے والہانہ لگاؤ کے اظہار کے طور پر کی ۔ یہی وجہ ہے کہ کمیّت و کیفیت کے لحاظ سے ان کی شاعری کے نمونے کم دستیاب ہیں ، تاہم جو کچھ بھی ہے ، وہ اردو ادب کے شاہکار کہے جانے کے لائق ہے ۔ اگر چہ ان کی شاعری حمد و مناجات اور نعت و منقبت یعنی تقدیسی شاعری کے ارد گرد گھومتی ہے ، لیکن ایک کامیاب اور اعلیٰ درجے کی شاعری ہے ۔ ان کے کلامِ نعت و منقبت سے ان کی قادر الکلامی اور شعری ہنر مندی ظاہر ہے ۔
مولانا شمشاد حسین رضوی لکھتے ہیں :
حضرت احسن العلماء کی شاعری میں وہ تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں جو کسی انسان کو مکمل شاعر بناتی ہیں اور جو بڑے شاعر ہونے کی علامتیں ہیں ۔ جب اس زاویۂ نظر سے دیکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ حضرت احسن العلماء علیہ الرحمہ نے اپنی شاعری میں تجربات ، مشاہدات ، جذبات اور تخیلات میں کو اچھوتے انداز میں پیش کیا ہے اور عشق و محبت ، والہانہ عقیدت کا اظہار کر کے شاعری کے قالب میں جان ڈال دی ہے ۔ حضرت کا اندازِ بیان سہل اور آسان ہے ۔ منظر نگاری بھی ( ان کی شاعری میں ) زوروں پر نظر آتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت احسن العلماء کو زبان و بیان پر عبور حاصل تھا اور کبھی وہ اپنے مافی الضمیر کے اظہار میں تنگیِ داماں کے شکار نہ رہے ۔
( سیدین نمبر ، ص : 956 ماہنامہ اشرفیہ ، مبارک پور )
حضرت احسن العلماء کی شاعرانہ عظمت اور ادبی بصیرت کا تذکرہ اوپر ہو چکا ہے ، یہاں ان کی نعت گوئی و منقبت نگاری پر روشنی ڈالی جاتی ہے ۔ یوں تو انہوں نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی فرمائی ہے ، لیکن نعت و منقبت سے زیادہ دلچسپی تھی ۔ ابو حماد مفتی احمد میاں برکاتی نے ” دوائے دل ” کے ابتدائیہ میں لکھا ہے کہ ” حضرت احسن العلماء میدان شعر و سخن کے بھی شہسوار ہیں ۔ نعت و منقبت میں طبع آزمائی فرمائی ہے ۔ ” مدائحِ مرشد ” کے نام سے آپ کی ایک تالیف شائع ہو چکی ہے ، جس میں اولیائے خانقاہ برکاتیہ مارہرہ کے حضور مختلف شعرا کے نذرانے جمع کیے ہیں ” ۔
( دوائے دل ، ص : 12 ؛ برکاتی پبلیشرز ، کراچی )
حضرت احسن العلماء کی نعتیہ شاعری قرآن و حدیث سے مستفاد ہے ۔ ہر ایک شعر اور مصرع کسی نہ کسی آیت ، حدیث ، اسلامی تاریخ یا واقعۂ سیرت کی طرف اشارا کرتا ہے ، جس سے طرزِ رضا کی پیروی صاف ظاہر ہوتا ہے ۔ علاوہ ازیں عشق و وارفتگی کے ساتھ علمی گہرائی ، فنی چابک دستی ، سادگی و پرکاری ، سلاست و روانی اور صفائی و برجستگی ان کے کلام کی نمایاں خصوصیات میں سے ہیں ۔
مندرجہ ذیل اشعار دیکھیں اور راقم کے دعویٰ کی صداقت ملاحظہ کریں :
مقدر سے اگر سرکار میں جانا میسّر ہو
تو جو کچھ میرے دل میں ہے وہ سب کچھ میرے لب پر ہو
تمہارے در پہ جھکتے ہی مرے سر کا یہ رتبہ ہو
کہ اس پر میرے رب کا فضل و رحمت سایہ گستر ہو
تمہارا حکم ہے جاری و ساری ساری عالم میں
نہ کیوں کر ہو کہ تم تو نائبِ خلاّقِ اکبر ہو
تمہاری ضوفشانی ، عطر بیزی کا یہ عالم ہے
جہاں سے گزرو وہ کوچہ منور ہو ، معطر ہو
منزّہ ہو فضائل اور محاسن میں شریکوں سے
اور حسنِ صورت و سیرت میں بھی بے مثل جوہر ہو
مرے دل سے گناہوں کا یہ سارا میل دھل جائے
اگر بارش تمہارے نور کی مجھ پہ بھی دم بھر ہو
حقیقت کو تمہارے بس خدا جانے کہ تم کیا ہو
ہمارا علم اتنا ہے سویٰ اللہ سب سے برتر ہو
قیامت میں مجھے اپنے گناہوں کا نہیں کھٹکا
خدا کے فضل سے جب تم شفیعِ روزِ محشر ہو
زبانیں پیاس سے جب عرصٔہ محشر میں ہوں باہر
مجھے بھی اپنے صدقے میں عطا اک جامِ کوثر ہو
حسن کی لاج رکھ لینا کرم سے اپنے اے آقا
بروزِ حشر جب وہ رو بروئے ربّ اکبر ہو
( یادِ حسن ؛ ص : 325 )
قصیدہ بردہ شریف کے لافانی اور شہکار قصیدہ ہونے کے اسباب میں سے ایک سبب اس کے معانی کی گہرائی اور مضامین کی بلندی بھی ہے ۔ عاشق رسول حضرت امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
( 1 ) مُنَزَّہٌ عَنْ شَرِیْکٍ فِیْ مَحَاسِنِہٖ
فَجَوْہَرُ الْحُسْنِ فِیْہِ غَیْرُ مُنْقَسِمٖ
یعنی نبی کریم ﷺ اپنے محاسن و کمالات میں شریک سے پاک ہیں ۔ ان کی ذات پاک میں حسن و خوبی کا جو جوہر ہے وہ غیر منقسم ( جزء الذی لا یتجزی ) ہے ۔
( 2 ) فمبلغ العلم فیہ انہ بشر
وانہ خیر خلق اللہ کلھم !!
یعنی میرے علم کی انتہا یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں ، لیکن اللہ کی تمام مخلوق میں سب سے افضل و اعلیٰ اور برتر و بہتر ہیں ۔
قصیدہ بردہ کے یہ دونوں شعر نگاہوں میں رکھیں اور اسی کے ساتھ حضرت احسن العلماء کی مندرجہ بالا نعت کا پانچواں اور ساتواں شعر :
منزہ ہو فضائل اور محاسن میں شریکوں سے !!!
اور حسنِ صورت و سیرت میں بھی بے مثل جوہر ہو
حقیقت کو تمہاری بس خدا جانے کہ تم کیا ہو
ہمارا علم اتنا ہے سویٰ اللہ سب سے برتر ہو !!!
ملاحظہ کریں ، دونوں میں آپ کو بڑی حد تک فکری یکسانیت نظر آئے گی ۔ حضرت احسن العلماء نے اپنے اس نعتیہ کلام کے پانچویں شعر میں نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ذات و صفات سے متعلق ایک اہم شرعی مسئلہ ” امکانِ نظیر ” کو باطل قرار دیتے ہوئے ” مسئلۂ امتناعِ نظیر ” کو ثابت کیا ہے ۔
چھوٹی بحر میں فصاحت و بلاغت اور عشق و عقیدت سے لبریز یہ دوسری نعت پاک بھی شاعر کے ادبی جمال اور فنی کمال کو ظاہر کرتا ہے ۔
محمد آبروئے مومناں ہیں
محمد بادشاہِ مرسلاں ہیں
محمد شرحِ آیاتِ الٰہی !!!!
کتابِ رطب و یابس کا بیاں ہیں
خدا کی عظمت و قدرت کے جلوے
رخِ پُر نور سے ان کے عیاں ہیں
خدا نے عرش پر جن کو بلایا
یہی تو وہ معزّز میہماں ہیں
ہے پیدائش انہیں کی اصلِ عالَم
یہی بیشک بِنائے ایں و آں ہیں
انہیں کے دم سے ہے ساری خدائی
یہی تو رونقِ بزمِ جہاں ہیں
جو سنگریزے حضوری میں ہیں حاضر
وہ رشکِ لعل و یاقوتِ جناں ہیں
محب ان کا چہیتا ہے خدا کا
یہ محبوبِ خدائے دوجہاں ہیں
حسن سن ! ہاتفِ غیبی پکارا !!!
بہ فضلِ رب وہ تجھ پر مہرباں ہیں
( سالانہ مجلہ اہل سنت کی آواز ، مارہرہ شریف ، جلد : 2 ، اکتوبر 1995 ، ص : 109 )
مذکورہ بالا نعت کا دوسرا بند ” محمد شرحِ آیاتِ الٰہی ” شعریت و معنویت میں اپنی مثال آپ ہے ۔ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم آیات الٰہی کے شارح و ترجمان ہیں ، لیکن ” زید عدل ” کے مثل آپ کو بطور مبالغۂ کلام ” شرحِ آیاتِ الٰہی ” کہنا ، حسنِ کلام کا ایک نادر نمونہ ہے اور یہ وہی شاعر کہہ سکتا ہے ، جو زبان و بیان کی ادبی خوبیوں سے واقف ہو ۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے قربت اور حضوری کا فیض اٹھانے والے سنگریزوں کو ” رشکِ لعل اور یاقوتِ جناں ” سے تعبیر کرنا بھی عمدگیِ زبان اور خوبیِ بیان کی اچھوتی مثال ہے ۔
حضرت احسن العلماء علیہ الرحمہ کا گھرانہ اولیائے کرام اور بزرگان دین کا گھرانہ ہے ۔ خود بھی بزرگ صفت انسان تھے ، یہی وجہ ہے کہ انہیں مشائخ طریقت ، بزرگان دین اور اولیائے کاملین سے بے پناہ عقیدت ومحبت تھی ۔ اپنی مخصوص نشستوں اور دینی محفلوں میں ان کے احوال و کرامات کا تذکرہ بڑے ذوق و شوق سے فرماتے اور سامعین و حاضرین کے دلوں میں ان نفوس قدسیہ کی عقیدت و محبت جاں گزیں فرماتے ۔ احسن العلماء نے بزرگان دین کی شان میں منقبتیں بھی لکھی ہیں اور خاندانی بزرگوں کی شان میں لکھے گئے مختلف شعراء کے مناقب جمع بھی کیے ہیں ۔ ان کی منقبت نگاری کے رنگ و روپ بعینہ نعت گوئی جیسے ہیں ۔ وہی عقیدت و الفت ، انداز بیان کا وہی والہانہ پن ، وہی سلاست و روانی اور زبان و بیان کی وہی عمدگی دونوں صنفوں میں قدرِ مشترک کے طور پر پائی جاتی ہے ۔ سلطان الاولیاء ، قطب الاقطاب ، سرکار سیدنا غوث اعظم دستگیر رضی اللہ عنہ ، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں انہوں نے نہایت خوب صورت منظوم خراج عقیدت پیش کیا ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں اور ان کی شعر گوئی کی داد دیں :
آپ سے کچھ عرض کے قابل کہاں
مجھ سے نالائق کی یہ کج مج زباں
پھر بھی اپنے لطف سے میرا بیاں
سن ہی لیجے اے مرے قطبِ زماں
ہو ادھر چشمِ کرم پیرانِ پیر
آستانے پر کھڑا ہے اک فقیر
واسطہ حسنین کا سن لیجیے
مشکلیں آسان میری کیجیے
کس سے مانگوں ، ہاتھ پھیلاؤں کہاں
آپ کے در کے سوا جاؤں کہاں
کاش ہو جائے مرا ایسا نصیب
آپ بلوائیں مجھے اپنے قریب
زندگی میری وہیں جائے گزر
آپ کی چوکھٹ پہ ہی رکھا ہو سر
خاتمہ ہو آپ کی ہی یاد میں
بعدِ مردن ہو لحد بغداد میں
المدد یا غوث اعظم المدد
المدد یا قطبِ اکرم المدد
نرغۂ اعداء میں ہیں اہل سنن
دور کیجے ان سے سب اہلِ فتن
( سیدین نمبر ، ص : 1106 )
چہرۂ زیبا ترا احمد رضا
آئنہ ہے حق نما احمد رضا
غوثِ اعظم ، مظہرِ شاہِ رسل
ان کا تو مظہر ہوا احمد رضا
علم تیرا بحرِ نا پیدا کنار !!
ظلّ علمِ مرتضیٰ احمد رضا
تیرے مرشد حضرتِ آل رسول
ان کو تجھ پہ ناز تھا احمد رضا
یاد کرتا ہے تجھے تیرا حسن
اس کے حق میں کر دعا احمد رضا
( سیدین نمبر ، ص : 1107 )
خلاصۂ کلام یہ کہ حضرت احسن العلماء علیہ الرحمہ جہاں اپنے وقت کے جید عالم ، باکمال مفتی ، بے مثال شیخ طریقت اور اعلیٰ درجہ کے خطیب تھے ، وہیں ایک ممتاز محقق ، قادر الکلام شاعر اور بلند پایہ ادیب بھی تھے ۔ ان کی شعری وادبی مہارت مسلم ہے اور اس جہت سے ان پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ اللہ تعالی ان کے علمی و روحانی فیوض و برکات سے ہم سب کو مالا مال فرمائے ۔
از قلم : محمد طفیل احمد مصباحی