احمد بڑا ہی چنچل اور چلبلا تھا، اسکی شرارتیں روز مرہ بڑھتی ہی جارہی تھیں، پھر اچانک ایک دن یہ بات سماعتوں سے ٹکراتی ہے کہ وہ غم صم سا رہنے لگا ہے۔ کسی سے کوئی کلام، کوئی چنچلتا نہ کسی شرارت کی کوئی شکوہ، شکایت۔ اس کو اس روپ میں دیکھنا ایسے ہی تھا کہ شاداب چمن کی شادبی اجڑ گئی اور ربیع کی بہار کو خزاں نے ڈھانپ لیا ہو جیسے۔
ایک مدتِ مدیدہ کا گویا، چنچل اور بسیار گفتار احمد اور اسکی یکلخت خموشی "چہ معنی دارد” اسی فکر میں خود کو ہلکان کئے جارہا تھا۔ اتنے میں اسکندر کی ملاقات احمد کے والد سے ہوئی اس نے احمد کی بابت اپنے سارے خدشات و شبہات اور سرگزشت یکے بعد دیگرے سنانی شروع کردی۔ احمد کے والد نے سارے سوالوں کے جوابات یوں دینا شروع کیا۔ ارے پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں اب میرا بیٹا احمد بڑا ہورہا ہے۔ اس کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو گیا ہے اور عمر بڑھنے سے عقل خود بخود آہی جاتی ہے۔
احمد سن بلوغ کو پہنچ گیا تھا اس کی عمر قریباً اٹھارہ برس کی ہوچکی تھی، مزید وہ ایک باشعور اور سمجھ بوجھ والا لڑکا بن گیا تھا۔ شباب کی نئی، نئی رنگینیوں میں رنگنے کو سینہ سپر ایک فوجی کی طرح ہتھیاروں سے لیس اور مسلح تیار تھا۔ عنفوان شباب میں بھی اداسی اور بے اعتنائی، محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے اندر ہی اندر اس کو کچھ کھائے جا رہی ہے۔ احمد اپنے آپ کا ہوکر رہ گیا تھا، دوستوں سے دور نفور رہنے لگا، گھر والوں سے بھی پہلے سے مراسم نہ رہے، یعنی فقط کام سے کام رکھتا تھا۔
ایک روز اسکندر کی ملاقات احمد سے ہوئی اسکندر نے ڈرتے، ڈرتے احمد سے اسکی اس بے سامانی کا سبب اور علت دریافت کر ہی لیا۔ اب کیا تھا احمد نے بڑے ہی حساسیت کے ساتھ کچھ کہنا شروع کیا۔ احساسات کے ٹھپیڑوں نے خوابِ غفلت اور عیشِ خرگوش سے عجلت ہی میں بیدار کردیا، کہ اُٹھ پیارے یاں خواب سے نہیں کوئی سروکار یہاں تو حقیقت شناسائی کی منزلیں طے ہورہی ہیں۔ خوابِ شکشتہ پر کیا کلام کہ جب خواب ناقص تو تعبیر بھی ناتمام۔ گر کرنا ہے کچھ تو طوفاں تمثال بن کہ جو بھی کر سینہ تانے بلا خوف و خطر کر، حق کی صدائے بازگشت بلند کر علی الاعلان سر عام، اور سر بام کر اور پکار اُٹھ۔۔ !!!
علی الاعلان کیا کرتا ہوں سچی باتیں
چور دروازے سے آندھی نہیں آیا کرتی
اسکندر نے سوال کیا ایسی کون سی حقیقت ہے جو ہمیں نہیں معلوم؟
احمد نے پھر ایک مرتبہ اپنی سرد مہری توڑتے ہوئے اپنے مافی الضمیر کی ترجمانی کرنی شروع کردی اور کہنے لگا زندگی کی حقیقت کہ اصل میں زندگی ہے کیا؟ یہ ایک طبقہ کو نہیں معلوم اور آج کے دور میں تو اکثریت کو نہیں معلوم کہ زندگی کس بلا کا نام ہے۔
زندگی موج دریا کا حریف ہونے کے بجائے ساحل میں عافیت سمجھنے کا نام نہیں۔ دشتِ امکاں میں تمنا کا پہلا قدم رکھنے کا نام بالکل بھی زندگی نہیں۔ زندگی فقط ناقدانہ اسلوب اور جارحانہ لب و لہجہ اختیار کرنے کو نہیں کہتے۔ روایتی طریقوں کو حرزِ جاں بنائے رکھنے کو بھی زندگی نہیں کہتے۔ زندگی او گفت آنہا گفتند کا اسلوب اختیار کرکے سر دلبراں کو حدیث دیگراں بنانے کا بھی نام نہیں۔ زندگی ستاروں کی چال اور طوطے کی فال پر سر پھینکنے کو بھی نہیں کہتے۔ باغباں بھی خوش رہے اور راضی رہے صیاد بھی جیسے دستور العمل بھی اصل زندگی نہیں۔ زندگی اس کا بھی نام نہیں کہ اپنے عشرت کدے میں محوِ خواب رہا جائے۔
باستثناء چند کے سبھی اس حمام میں ننگے دکھائی دے رہے ہیں۔ سنو زندگی نام ہے حقیقت کا، جمود کی بیڑیوں اور مصلحت کی ہتھکڑیوں کو توڑ کر علی الاعلان حق کو حق اور باطل کو باطل کہنا ہی اصل زندگی ہے۔ حشرات الارض کی طرح رینگنے کے بجائے ظالم سے بغاوت کرتے ہوئے اس کے خلاف ڈٹ جانا ہی اصل زندگی ہے۔ کرگھس کی طرح ہواؤں کے رخ پر چلنے کے بجائے عقابوں کی طرح بادِ مخالف سمت اڑنا ہی اصل زندگی ہے۔ پانی کی بہاؤ کے سمت چلنے کے بجائے موجوں سے لڑتے ہوئے ساحل پر اترنے کا نام ہی اصل زندگی ہے۔ کسی کی دہشت، خوف اور موت کے ڈر سے سر جھکا کر گھٹ گھٹ کر مرنے کے بجائے نڈر ہوکر چلنا ہی اصل زندگی ہے۔ اور جبر نارواں کی مفاہمت کو ٹھکرا کر سر بکف ہوتے ہوئے بلاؤں سے لڑنا ہی اصل زندگی ہے۔
اتنی تفصیل کے بعد احمد نے سکوت اختیار کرلیا اسکندر اس کی باتیں ٹکٹکی باندھے سن رہا تھا یا للعجب !!! احمد تو بہت ہی ہوشیار ہو گیا ہے۔ وہ محو تعجب تھا اس کی ان باتوں کو سن کوئی بھی ایسی باتیں کر استعجاب اور سکتے میں پڑ سکتا ہے کہ ایک اٹھارہ سالہ نوجوان کی فکر ایسی بھی ہو سکتی ہے۔ خیر اسکندر نے اس سے کہا تو پھر اس کا تمہاری پریشانی سے کیا تعلق؟
اسکندر یہی تو پریشانی ہے کہ میں ان باتوں کا عامل ہو سکوں گا بھی یا نہیں جن کا میں قائل ہوں؟
کیا میں اصل زندگی بسر کرسکوں گا ؟
مزید حق کو اور باطل کو باطل کہنے پر خود کو سرگرم کر پاؤں گا ؟
یہی عزائمِ مستقبلہ میری پریشانی اور بے مروتی کے باعث ہیں۔ اسکندر نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا وہ تو ٹھیک ہے۔ مگر پہلے تمہیں حق اور باطل کے درمیان خط امتیاز کو پہچاننا ہوگی۔ اور اسکے لئے علم لازمی ہے سو پہلے تعلیم مکمل کرو پھر بعد کا بعد میں دیکھا جائے گا۔ دونوں گھر لوٹے اب احمد کچھ پہلے سا ہوگیا تھوڑا سا لا پروا مگر کبھی، کبھی وہ پھر اسی کیفیت میں خود کو گرفتار کر لیتا پھر آزادی بھی از خود حاصل کر ہی لیتا تھا۔
دوٹوک میں کہوں تو حاصلِ قصہ یہ نکلتا ہے کہ زندگی احقاق حق ابطال باطل کا دوسرا نام ہے۔
راقم الحروف : محمد اختر رضا امجدی
متعلم جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی مئو
نوٹ:- یہ کہانی تخیلی اور کیریکٹرز مفروضی ہیں مگر ہاں جو باتیں کی گئیں ہیں وہ قابل رشک اور عبرت طلب ہیں۔