اگر آپ ایک پاک صاف ،اور مہذب معاشرے کی تشکیل چاہتے ہیں تو جہاں بہت ساری معاشرتی برایٔیوں کا قلعہ قمع کرنا ضروری ہے وہیں معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ،بابا ازم ،نقلی چھاڑ پھونک اور ٹوٹکے سے اپنا پیٹ بھرنے والے جھوٹے عاملین ،اور فراڈی باباؤں پر بھی قدغن لگانا از حد ضروری ہے۔
ان لوگوں نے معاشرے میں اتنا زہر گھول دیا ہے کہ خونی رشتے بھی شکوک و شبہات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں آج ان باباؤں کی وجہ سے ساس اپنی بہو کو ،بہو اپنی جٹھانی ،کو یہاں تک کہ ایک بھایٔ دوسرے بھایٔ کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کے اوپر جو مصیبتیں آیٔیں ہیں کہیں نہ کہیں اس میں اس کے اپنے بھایٔ کا ہاتھ ہے اس خیال کو تقویت پہنچاتے ہیں نقلی اور جہنمی بابا یہ حرامخور یہ کہ کر مریض کو مزید ذہنی کوفت میں مبتلا کردیتے ہیں کہ "تمہارے اوپر کسی نے کچھ کرا دیا ہے "۔
اب مریض جس کی کچھ مہینے پہلے اپنے بھایٔ یا پڑوسی سے کچھ کہا سنی ہوگیٔ تھی شک کی سویٔ اپنے بھایٔ یا پڑوسی کی طرف گھومنے لگتی ہے جس سے دونوں کے تعلقات اتنے بدترین دور میں پہنچ جاتے ہیں کہ بسا اوقات وہ ایک دوسرے کے سخت جانی دشمن بن جاتے ہیں اور یہ دشمنی کبھی کبھار اقدام قتل کا بھی سبب بن جاتی ہے۔
تازہ واقعہ اترپردیش پردیش کے وارانسی ضلع کا ہے یہاں ایک کاروباری شخص تھا کچھ مہینوں سے اس کا کاروبار تھوڑا خسارے میں چل رہا تھا وہ پہنچ گیا ایک بابا کے پاس بابا نے بتایا تمہارے گھر میں نحوست کا سایہ ہے اور یہ نحوست تمہاری بیوی کی وجہ سے ہے ،شوہر جو پہلے ہی ذہنی اذیت میں مبتلا تھا اب وہ نفسیاتی طور مزید ڈسٹرب ہوگیا ،بات بات پر بیوی سے جھگڑنے لگا اور دوسری شادی کی دھمکی بھی دینے لگا ،گزشتہ کل رات میں زوجین کے درمیان کہا سنی ہویٔ جس میں اس کے دو لڑکوں اور بیٹی نے اپنی ماں کی حمایت کی۔
اس پر مذکورہ شخص کو اتنا غصہ آیا کہ اس نے اپنی بیوی دو جوان بیٹوں اور ایک بیٹی کو صبح چار بجے سوتے وقت گولی مار کر ہلاک کردیا ،گھر سے ١٠ کلو میٹر دور جاکر ایک زیر تعمیر مکان میں خود کو بھی گولی مار کر ہلاک کرلیا!!!
پولیس نے تفتیش شروع کی تو معلوم ہوا قاتل ایک بابا کے رابطے میں تھا اور اسی بابا نے بتایا تھا کہ اس کی بیوی منحوس ہے۔
پولیس نے بابا کی تلاش شروع کردی ہے بابا تا حال فرار ہے۔
اس حادثے کا ایک دردناک پہلو یہ ہے کہ اس گھر میں صرف ایک ناتواں ضعیف ماں بچی ہویٔ ہے جب اسے حادثے کی خبر دی گیٔ تو اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہ نکالا لیکن وہ ہلنے ڈلنے سے بھی قاصر ہے۔
ازقلم: معین الدین مصباحی