لڑکے کا والدین کے ذمہ کیا کیا حقوق ہیں؟ اس تعلق سے کچھ باتیں عرض ہیں، وہ یہ ہیں:
1 – ماں باپ پر لازم ہے کہ اولاد کو اچھی تعلیم و تربیت دیں اور عمدہ اخلاق و بہترین آداب سکھائیں، دین کے تعلق سے ان کا مواخذہ کریں انہیں زندگی کے مفاسد اور منکرات سے بچائیں، ان کے ساتھ شفقت سے پیش آئیں، ان کے ساتھ مہربانی کا سلوک روا رکھیں، ان سے اچھا معاملہ کریں کہ انہیں خود اعتمادی حاصل ہو اور انہیں اس طرح تیار کریں کہ وہ ملت اور وطن دونوں کے لیے مفید کارکن بن سکیں۔ اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے ( یا أیھا الذین آمنوا قوا أنفسھم وأھلیکم نارا وقودھا الناس والحجارۃ۔ التحریم:6)
اے ایمان والو! تم اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔
اس میں اہل ایمان کو ایک نہایت ہی عظیم ذمہ داری کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اور وہ ہے اپنے اہل و عیال کی اصلاح اور ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام تاکہ وہ جہنم کا ایندھن بننے سے بچ جائیں۔ اس لئے رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب بچہ سات برس کا ہو جائے تو اسے نماز کی تلقین کرو۔ اور دس سال کا ہوجائے تو نماز سے تساہلی برتنے پر ان کی سرزنش کرو۔
( ابو داؤد، ترمذی )
اقرع بن حابس نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ وہ اپنے نواسے حسن کا بوسہ لے رہے ہیں تو کہا أِن لی عشرۃ من الولد ما قبلت واحدا منھم فقال لہ النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم من لایرحم لایرحم ( متفق علیہ ) یعنی میرے تو دس لڑکے ہیں، میں ان میں سے کسی کا بوسہ نہیں لیتا، رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا ۔۔۔ آپ نے فرمایا: علموا أولادکم الصلوۃ بسبع واضربوھم علیھا بعشر وفرقوا بینھم فی المضاجع
( رواہ ابوداؤد )
یعنی جب بچہ سات برس کا ہو جائے تو اسے نماز کی تعلیم و تربیت دو اور جب دس برس کا ہو جائے تو نماز وغیرہ میں تساہلی برتنے پر ان کی سرزنش کرو اور بستر بھی الگ کرو۔
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا
علموا أولادکم السباحۃ والرمایۃ ورکوب الخیل۔۔۔
۔ تم اپنی اولاد کو تیراکی، تیراندازی اور گھوڑسواری کی تربیت دو۔۔۔۔ بچوں کے سلسلے میں باپ کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ ان کے مابین عطیات اور پیار و محبت وغیرہ جیسی باتوں میں بھی برابری کا سلوک کریں بھائیوں میں سے کسی کو یہ محسوس نہ ہو کہ باپ اس کے مقابلے میں دوسرے بھائی پر زیادہ مشفق و مہربان ہے اور اس سے زیادہ محبت رکھتا ہے جیسا کہ ایک دیہاتی عورت سے پوچھا گیا کہ تمہاری اولاد میں سے تم کو زیادہ پیاری کون ہیں ؟ تو جواب دیا کہ وہ ( بچے) میرے نزدیک اس دائرے کی طرح ہیں جس کے دونوں سروں کا پتہ نہ ہو۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بچوں کے مابین مساویانہ سلوک اور ان کی اچھی تعلیم وتربیت انہیں والدین کے حقوق ادا کرنے پر آمادہ کرتی ہیں اس کے ذریعے ان کے باہمی روابط استوار ہوتے ہیں ان میں باہمی پیار ومحبت پیدا ہوتی ہے ان کے دل کینہ، حسد، اور نفرت جیسی روحانی ونفسیاتی بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔
حدیث شریف میں ہے نبی کریم ﷺنے فرمایا
( ساووا بین أولادکم فی العطیۃ )
یعنی عطایا دینے میں اولاد کے درمیان مساوات اور برابر کا لحاظ رکھو۔
(الطبرانی)
عن النعمان بن بشیر أن أباہ أتی بہ أِلی رسول اللہﷺ فقال اِنی نحلت ابنی ھذا غلاما فقال أکل ولدک نحلتہ مثلہ? قال لا قال فارجعۃ و فی رواہ أنہ قال أیسرک أن یکونوا اِلیک فی البر سواء قال بلی قال فلا أذن وفی روایۃ فاتقوا اللہ وأعدلوا بین أولادکم فرجع فرد عطیتہ وفی روایۃ لاأشھد علی جور۔
( متفق علیہ )
یعنی نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ ان کے والد نے انہیں رسول اللہﷺکے پاس لایا اور کہا میں نے اس بیٹے کو کچھ بخشش دی ہے آپ نے پوچھا کہ کیا تونے اپنے سارے بیٹوں کو اسی طرح بخشش دی ہے? اس نے جواب دیا نہیں آپ نے فرمایا اس سے واپس لے ۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ تم پسند کرتے ہو کہ تمہارے یہ سب لڑکے برابر کے فرماں بردار ہوں? اس نے کہا کیوں نہیں۔! آپﷺنے فرمایا تب ایسا مت کرو ۔ ایک اور روایت میں ہے اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان برابری قائم رکھو۔ چنانچہ وہ واپس آئے اور اپنا عطیہ واپس لے لیا اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ظلم وزیادتی کا گواہ نہیں بنوں گا۔
اس میں پوری صراحت موجود ہے کہ اولاد کے درمیان فرق وامتیاز کرنا سراسر ناانصافی اور ظلم ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے دلوں میں اس روش سے کینہ، بغض اور حسد پیدا ہوجاتا ہے کتنے وہ بھائی ہیں جن کی برادری پارہ پارہ ہو چکی ہے، جن کا باہمی اتحاد و اتفاق ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ وہ ایک دوسرے کے دشمن ہو چکے ہیں اور بسا اوقات نوبت قتل و غارتگری تک آجاتی ہے یہ محض امتیازی سلوک کی بنا پر ہے۔
ماں باپ کو اپنی اولاد کے سلسلے میں اللہ سے ڈرنا چاہیے انہیں چاہیے کہ ان میں باہمی الفت و محبت اور اتفاق واتحاد پیدا کریں۔ عدل و انصاف کے ذریعے ان کے باہمی اتحاد کو مضبوط بنائیں وہ اپنے بیٹوں کے حق میں اس دیہاتی کی روش کو اختیار کریں جس نے انہیں باہم متفق ومتحد رکھنے کے لئے وصیت کی اور ایک عمدہ مثال کے ذریعے سمجھایا کہ تم باہم متحد رہو گے تو تمہیں کوئی دبا نہیں سکتا ۔ ہر ایک لڑکے سے ایک ایک لکڑی منگائی، سب کو اکٹھا باندھ دیا اور باری باری توڑنے کو کہا مگر سب ناکام ہو گئے، گٹھا کھول دیا الگ الگ کرکے ایک ایک لکڑی ہر ایک کو دی تو فورا توڑ کر رکھ دیا ، یہی اتفاق و نااتفاقی کی مثال ہے۔
البتہ یہ بات الگ ہے کہ اگر کوئی ناگزیر ضرورت پیش آ جائے کہ جس کی وجہ سے بچوں میں سے کسی کے لیے مال وغیرہ خاص کرنا پڑے مثلا جسمانی توانائی کی وجہ سے وہ معاش کے حصول میں دوسرے بھائیوں سے پیچھے رہ جائے یا عمر میں چھوٹا ہو اسی طرح دوسرے بھائیوں کو تعلیم کے حصول، شادی وبیاہ یاروپیہ پیسہ کمانے کا موقع مل گیا ہو جو اسے نہ مل سکا۔ تو ایسی صورت میں باپ کے لیے مناسب ہے کہ اپنے لڑکوں کو اکٹھا کر کے اس بارے میں ان سے مشورہ کرلے معاملہ کو ان کے صواب دید پر چھوڑ دیں۔ ان پر اپنی طرف سے کوئی رائے مسلط نہ کریں مگر یہ کہ جب سب اس بات پر متفق ہو جائیں اور بڑے ہی بہترین سلیقہ سے اسے تسلیم کر لیں۔ پس اس طرح بھائیوں کے درمیان محبت و الفت برقرار رہے گی۔ (وصیتِ لقمانِ حکیم، ص: 23،24،25،26)
از قلم۔ مجاہد رضا مشہودی
خادم۔۔۔ دارالعلوم حمایت العلوم
گجپور گرنٹ اترولہ ضلع بلرامپور یوپی
رابطہ نمبر۔ 9792709538