آج بعد نماز فجر یہ جاں گُسِل خبر موصول ہوئی کہ حضور شہباز دکن، خلیفۂ سرکار مفتی اعظم، حضرت علامہ محمد مجیب علی رضوی -علیہ الرحمۃ والرضوان- [بانی و سرپرست اعلیٰ: مرکز اہل سنت و جماعت، حیدرآباد، و دارالعلوم فیض رضا، [اقامتی درس گاہ براے طلبہ] و مدرسۃ البنات، فاطمہ جان، [غیر اقامتی درس گاہ براے طالبات] اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ تھوڑی دیر کے لیے پورے وجود پر ایک سکتہ طاری ہو گیا کہ الہی! یہ کیا ہو گیا! ابھی تو کوئی چار پانچ دن پہلے شہزادے نے یہ مسرت آمیز خبر سنائی تھی کہ حضرت بتدریج شفا یاب ہو رہے ہیں، شفا یابی کی خبر سن کر قلبی سکون ملا تھا، مگر آج پَو پھٹتے ہی وصال کی خبر! کسی طرح یقین نہیں ہو رہا تھا؛ اِس لیے چند احباب سے مزید رابطہ کیا، سبھوں نے خبر کی تصدیق کی تو بےساختہ زبان سے کلمۂ استرجاع نکلا اور عالَم تصور میں اپنے مربی سے یوں گویا ہوا کہ یا سیدی! آپ کہاں چلے گئے اور کیوں؟ آپ کو جانے کی اتنی جلدی کیا تھی؟ کیا اب آپ کبھی واپس نہیں آئیں گے؟ کیا اب آپ کے عشاق، ہمیشہ کے لیے آپ کے پرنور چہرے کی زیارت سے محروم ہو جائیں گے؟ اب مرکز اہل سنت کس کی سرپرستی میں پروان چڑھے گا؟ آپ نے تو مرکز کے لیے بڑا لمبا خواب دیکھا تھا اور اب اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کیے بغیر ہی چل دیے، اب اس عظیم خواب کو شرمندۂ تعبیر کون کرے گا؟ سیدی! آئیں نا اور اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کریں۔
عالِم کی موت: بلا شبہ آپ کی وفات حسرت آیات کا یہ عظیم سانحہ اہل سنت کے لیے بہت ہی دکھ آمیز اور ناقابل تلافی نقصان کا باعث ہے۔ حق ہے کہ:
عالِم کی موت، عالَم کی موت ہے۔
رسول پاک -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- کا ارشاد ہے:
موت العالم مصيبة لا تجبر، وثملة لا تسد، ونجم طمس، موت قبيلة أيسر من موت عالم.
[جامع بيان العلم وفضله، حديث: 179]
یعنی عالِم دین کی موت ناقابل تلافی نقصان ہے، عالِم کی موت ایسا رخنہ و شگاف ہے جسے بھرا نہیں جا سکتا، عالِم کی موت اس ستارے کی مانند ہے جو بےنور ہو گیا، پورے قبیلے کی موت ایک عالم کی موت سے زیادہ آسان ہے۔
امام الصوفیاء علامہ غزالی -علیہ الرحمۃ والرضوان- فرماتے ہیں:
عالم کی وفات پر پانی میں مچھلیاں اور ہوا میں پرندے روتے ہیں۔ عالم کا چہرہ اوجھل ہو جاتا ہے، لیکن اُس کی یادیں باقی رہتی ہیں۔
[احیاء العلوم اردو، جلد اول، علم کا بیان، ص: 105]
خوبیاں: آپ بہت ساری خوبیوں اور گوناگوں اوصاف و کمالات کے جامع تھے۔ آپ بیک وقت زبردست عالم دین، بلند پایہ خطیب، بہترین مصلح و مربی، اور مذہب و ملت کے حوالے سے سچا درد رکھنے والے صوفی بزرگ تھے۔ آپ تقویٰ و طہارت میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ وہابیت، نجدیت اور صلح کلیت آپ کا نام سنتے ہی کانپ اٹھتی۔
خدمات: خاص شہر حیدر آباد کے علاوہ، تلنگانہ، آندھرا، کرناٹک اور مہاراشٹر کے مختلف علاقوں میں آپ نے جو دینی خدمات انجام دیں اور مسلک اعلیٰ حضرت کا جو پرچم بلند کیا؛ وہ آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔
نمایاں خدمت: آپ کی زندگی کا سب سے عظیم کارنامہ مرکز اہل سنت و جماعت، حیدرآباد کا قیام ہے۔ جس کے تحت چلنے والے دو عظیم ادارے دارالعلوم فیض رضا، [اقامتی درس گاہ، براے طلبہ] اور مدرسۃ البنات، فاطمہ جان، [غیر اقامتی درس گاہ، براے طالبات] تمام تر کامیابیوں کے ساتھ منزل مقصود کی طرف رواں دواں ہیں۔
نماز جنازہ: آپ کی نماز جنازہ، بعد نماز عشا، ٹھیک دس بجے، بارکس پلے گراونڈ میں ادا کی جائے گی۔
تدفین: نماز جنازہ ادا کرنے لینے کے بعد آپ کی حسین جنت، مرکز اہل سنت کے احاطے میں آپ کی تدفین ہوگی ان شاء اللہ تعالیٰ۔
اللہ کریم، حضور سرورِ کائنات -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- کے صدقے آپ کی بےحساب مغفرت فرمائے، جنت الفردوس میں اعلیٰ جگہ عطا فرمائے، آپ کے درجات بلند فرمائے، جماعت اہل سنت کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے اور آپ کے جملہ اہل خانہ و لواحقین کو صبر جمیل اور اجر جزیل عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!
ابر رحمت تیری مرقد پر گہر باری کرے
حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے
شریک غم: عبدالقدوس مصباحی۔
دارالعلوم فیض رضا، شاہین نگر، حیدرآباد۔
7/ جولائی، 2021ء، بروز چہار شنبہ۔